چیئرمین سینٹ کے انتخاب سے قبل ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں سنجرانی یا گیلانی والا سوال اٹھاتے ہوئے جو شور برپا تھا میں نے اس سے خود کو لاتعلق رکھا۔ محض ایک فقرے کے ذریعے عرض بھی کردی تھی کہ میں اس بحث میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ عمران خان صاحب کی جگہ ان دنوں کوئی اور شخص بھی وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھا ہوتا تو قومی اسمبلی میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست کو نظرانداز نہ کرپاتا۔ شیخ صاحب ایک روایتی امیدوار نہیں تھے۔ بوسٹن یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ٹیکنوکریٹ ہیں۔ عمران حکومت نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان ان کے ذریعے عالمی معیشت کے نگہبانوں سے روابط استوا ررکھتی ہے۔ ان کی شکست سے پیغام یہ گیا کہ ان دنوں ہمارے ہاں جو حکومتی بندوبست ہے وہ براہِ راست انتخاب کے ذریعے وجود میں لائی قومی اسمبلی کی حمایت سے محروم ہوچکا ہے۔ اس تاثر کی نفی کے لئے عمران خان صاحب فوری طورپر 6مارچ کے دن اپنی اکثریت دکھانے کو مجبور ہوئے۔ اعتماد کا ازسرنو ووٹ لینے سے قبل ہی انہوں نے سنجرانی صاحب کو چیئرمین سینٹ کا حکومتی امیدوار بھی ڈیکلیئر کردیا تھا۔
سنجرانی صاحب بھی ایک عام سیاستدان نہیں۔ بلوچستان کی محرومی کے ازالے کے نام پر 2017میں راتوں رات بنی بلوچستان عوامی پارٹی کے کلیدی رہ نما ہیں۔ اس جماعت میں شامل افراد کو ریاستی سرپرستی میسر ہے۔ وہ "غدار علیحدگی پسندوں " کے متبادل شمار ہوتے ہیں۔ سنجرانی چیئرمین سینٹ کے منصب پر واپس نہ لوٹتے تو پیغام یہ بھی جاتا کہ ریاستی سرپرستی "محبانِ وطن" سیاست دانوں کے کام نہیں آرہی۔ ممکنہ پیغام کے تدارک کیلئے تحریک انصاف نے ایوانِ بالا کی واحد اکثریتی جماعت بن جانے کے باوجود انہیں سرکاری امیدوار بنایا۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے اس تناظر میں کنفیوژن کی گنجائش بھی باقی رہنے نہیں دی۔ ٹی وی کیمروں کے روبرو برملا اعلان کرتے رہے کہ صادق سنجرانی "ریاستی امیدوار" ہیں۔ ان کی "اہمیت" اجاگر کردی گئی تو شبلی فراز صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ اعلان بھی کردیا کہ سنجرانی صاحب کو جتوانے کے لئے "ہر حربہ" استعمال کیا جائے گا۔"ہر حربے" کو یقینی بنانے کے لئے چیئرمین سینٹ کے انتخاب سے ایک دن قبل مرزا آفریدی کو ڈپٹی چیئرمین کا امیدوار نامزد کردیا گیا۔ وہ ارب پتی صنعت کار ہیں۔ سنجرانی ان کے سفارشی تھے۔ جوڑتوڑکی گیم پرویز خٹک کے سپرد کردی گئی۔ آفریدی صاحب نے 98کے ایوان میں 54افراد کی حمایت واضح انداز میں ثابت کردی۔ طے ہوگیا کہ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اپوزیشن پر بھاری ہوچکے ہیں۔
مذکورہ پہلو کو مگر اپوزیشن جماعتیں حیران کن انداز میں نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ دہائی مچارہی ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کے نام پر لگائی مہر درست ووٹ شمار ہو۔ تین اپوزیشن سینیٹروں نے میرے روبرو شدت سے اصرار کیا کہ ووٹنگ کے عمل کی بابت "رہ نمائی" فرمانے والے چند ذہین اور تجربہ کار ساتھیوں نے انہیں گیلانی صاحب کے نام پر ٹھپہ لگانے کی ہدایت کی تھی۔ اس ضمن میں دو نام بھی لئے گئے۔ میں انہیں دہرانے سے اجتناب برت رہا ہوں۔ دہرانے کو مجبور ہوں کہ گیلانی صاحب کے "ضائع" قرار دئیے ووٹ اہمیت کے حامل نہیں رہے۔ آفریدی صاحب کی حمایت میں ڈالے 54غیر متنازعہ ووٹ ہی کلیدی پیغام کے حامل ہیں۔ واضح طورپر بتارہے ہیں کہ ایوان بالا میں اپوزیشن نشستوں پر براجمان سات افراد حکومت کے ہم نوا بن چکے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں تاہم ان کی نشان دہی کرنے کی مشق میں وقت ضائع نہیں کریں گی۔ وہ ابھی تک ان افراد کا سراغ لگانے میں بھی ناکام رہی ہیں جنہوں نے اگست 2019میں خفیہ رائے شماری کے دوران سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا تھا۔
گیلانی صاحب کے مسترد ہوئے ووٹوں کی بابت عدالت سے رجوع کرنے سے قبل بھی سوبار سوچنا ہوگا۔ یہ "سب پر بالادست" شمار ہوتے ادارے -پارلیمان- کی نام نہاد "خودمختاری" کو کمزور بناسکتا ہے۔ فرض کیا عدالت کی جانب سے بالآخر گیلانی صاحب کی کامیابی کا فیصلہ آبھی گیا تو آفریدی صاحب کو ملے 54ووٹوں کی اہمیت اپنی جگہ برقرار رہے گی۔
سیاسی عمل بنیادی طورپر کسی "بیانیے" کی بنیاد پر کھیلاجاتا ہے۔ اس کی تشکیل کے لئے سادہ سوال اٹھاتے ہوئے ان کا مؤثر جواب ڈھونڈنے کا تقاضہ ہوتا ہے۔ گزرے جمعہ کی صبح مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کمال مہارت سے اپوزیشن جماعتوں کو ایک اہم ترین سوال فراہم کردیا تھا۔ پولنگ بوتھ کا ماہر سراغ رسانوں کی طرح جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے ایک نہیں چھ کیمرے ڈھونڈ لئے۔ خفیہ طورپر نصب ہوئے ان کیمروں کے ذریعے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش ہوئی کہ بآسانی پتہ چلایا جاسکے کہ کونسے سینیٹر نے کس امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔ خفیہ رائے شماری کے آئینی حق کی یوں کھلی تضحیک وتوہین ہوئی۔ اپوزیشن جماعتوں کے سنجیدہ اورتجربہ کار لوگوں نے مگر نومنتخب اراکین کے حلف اٹھانے کا عمل عجلت میں مکمل کرنے کو ترجیح دی۔ حلف اٹھالینے کے بعد تاہم اصرار ہونا چاہیے تھا کہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب سے قبل ایوان کی بنائی کمیٹی کے ذریعے پتہ چلایا جائے کہ پولنگ بوتھ میں کیمرے کیسے نصب ہوئے تھے۔
باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جمعرات کی رات پیپلز پارٹی کی محترمہ شیری رحمن کو سینٹ کے عملے کی جانب سے یہ اطلاع دی گئی کہ سینٹ کے ہال میں چند "غیر" لوگ درآئے ہیں۔ انتہائی راز داری سے کوئی "انوکھی" بات ہورہی ہے۔ مذکورہ اطلاع کی بنیاد پر مصدق ملک اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بہت لگن سے کیمروں کا سراغ لگایا۔ کیمروں کی برآمدگی امریکہ میں تین دہائیاں قبل نمودار ہوئے "واٹرگیٹ" جیسا سکینڈل تھی۔ نکسن جیسے طاقت ور ترین اور چین کے ساتھ روابط استوار کرنے کی بنا پر "تاریخ ساز" تصور ہوتے صدرکو اس کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ ہمارے ہاں نمودار ہوا "واٹر گیٹ" اپوزیشن جماعتوں نے گیلانی صاحب کے مسترد قرار پائے سات ووٹوں پر دہائی مچانے کی نذر کردیا ہے۔"لوزبال" پر چھکا لگانے کی ہمت وجرأت سے محروم رہے۔
حفیظ شیخ کی شکست کے بعد عمران خان صاحب البتہ نہایت استقامت اور تسلسل سے ہمت وجرأت دکھاتے چلے جارہے ہیں۔ کئی صحافیوں کا خیال ہے کہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب سے ایک رات قبل لندن میں مقیم نواز شریف صاحب نے ایک وڈیو بیان کے ذریعے انہیں دانستہ یا نادانستہ "کمک" بھی فراہم کی ہے۔"نیوٹرل" ہوئے افراد کو اس کی بدولت پیغام ملا کہ موصوف ماضی بھلانے کو ہرگز تیار نہیں ہورہے۔ عمران خان صاحب اس تناظر میں "ان" کی ضرورت ومجبوری بن گئے۔ وزیر اعظم کو اب "بردباری" کے مشورے دئیے جارہے ہیں۔ ہماری ذہن سازی پر اپنے تئیں مامور حق گو تقاضہ کررہے ہیں کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بجائے "گڈگورننس" پر توجہ دی جائے۔ عمران خان صاحب اگرچہ "کرپشن" کے خلا ف اپنے بیانیے پر ڈٹے رہیں گے۔ نیب کو مزید متحرک ہونا پڑے گا۔ مریم نواز صاحبہ کو 26مارچ کے لانگ مارچ کا جارحانہ ماحول یا Momentumبنانے سے ہر صورت روکنا پڑے گا۔ پی ڈی ایم میں یکجا ہوئی جماعتوں کے مابین بدگمانیوں کو ہوا دینا ہوگی۔ چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران "ریاست" نے اپنی قوت کا ٹریلر چلادیا ہے۔ میں ذاتی طورپر اس میں مزید شدت نمایاں ہوتی دیکھ رہا ہوں۔