اپنے پیشرو کی طرح نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب بھی اپنا منصب سنبھالنے کے تین ماہ بعد ہی صنعت کاروں کے وفد سے ملاقات کو مجبور ہوئے۔ مذکورہ ملاقات کی خبر پڑھی اور اس کے تناظر میں روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں کے تبصرے سنے تو میری جوانی میں مشہور ہوئے ایک فلمی گیت کا مصرعہ یاد آگیا: "یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے"۔
نواز شریف کی تیسری حکومت کے اختتامی ایام میں ہمارے ملک کے چند اجارہ دار سیٹھوں نے ان دنوں کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ آرمی چیف سے براہ راست شکوہ کنائی مسلم لیگ (نون) کے لئے پریشانی کا باعث ہونا چاہیے تھی۔ اس ضمن میں میری رائے کو خدارا "سول سپریمیسی" کی وکالت تصور نہ کیا جائے۔ اس معاملے کو میں قطعاََ مختلف تناظر میں زیر بحث لانا چاہ رہا ہوں۔
1985ء کے بعد سے ہمارے کئی ذہن ساز تواتر سے یہ دعویٰ کرنا شروع ہوگئے تھے کہ ہماری سیاست اور معیشت کو مستحکم اور خوش حال بنانے کے لئے ریاست پاکستان کو بالآخر ایک منکسرالمزاج رہ نما مل گیا ہے۔ نام ہے اس کا نواز شریف۔ وہ لاہور کے ایک معروف اور انتہائی کامیاب تصور ہوتے صنعت کار گھرانے سے ابھرے ہیں۔ ایکڑوں تک پھیلے زرعی رقبوں کے مالک جاگیردار خاندانوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ مذکورہ خاندانوں میں سے برطانوی سامراج نے اپنی معاونت کے لئے چند سیاستدانوں کی سرپرستی کا چلن متعارف کروایا تھا۔
یہ "سرکار" کو "مائی باپ" تسلیم کرتے ہوئے اپنے زیر نگین علاقوں میں"باغیانہ خیالات" ابھرنے نہیں دیتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ روش جاری رکھی۔ وطن عزیز کو جمہوری آئین دینے کے بجائے محلاتی سازشوں کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہے۔ اسی باعث 1958ء میں فوج کو مارشل لاء لگانا پڑا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بلدیاتی نظام کے ذریعے "نئے سیاستدان" ڈھونڈنا شروع کردئے۔ وہ "مقامی" مسائل کے حل کے لئے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو متوجہ رکھتے۔
پاکستان کو "جدید" بنانے کے لئے مگر "جاگیر دارانہ نظام" کا خاتمہ بھی لازمی قرار پا یا۔ "زرعی اصلاحات" ہوئیں۔ اس کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کو متعارف کروانے کے لئے "صنعت کاروں" کی سرپرستی درکار تھی۔ ملک میں صنعت کاری کے فروغ کے لئے لہٰذا چند خصوصی ادارے قائم ہوئے۔ آسان شرائط پر چند مخصوص صنعت کار اور کاروباری گھرانوں کو بھاری رقوم قرضوں کی صورت فراہم کرتے ہوئے انہیں مزید صنعتیں لگانے کی ترغیب دی گئی۔ اس کی بدولت 1958ء سے 1968ء کے دس سالوں کو "عشرہ ترقی"ٹھہرایا گیا۔
ملک میں"شہری متوسط طبقے" کی تعداد بڑھانے کے لئے جو منصوبہ سازی ہوئی اسے تشکیل دینے میں عالمی سطح پر مشہور ہمارے ایک ماہر معیشت ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی منصوبہ ساز نے مگر گہری تحقیق کے ذریعے "عشرہ ترقی" کا جائزہ لیا۔ بالآخر نتیجہ یہ نکالا کہ ملک میں صنعتی نظام کو فروغ دینے کے لئے جاری رکھی سرکاری سرپرستی نے محض 22خاندانوں ہی کو ہمارے ہاں قائم تمام صنعتوں اور کاروبار کا اجارہ دار بنادیا ہے۔ ان کے بھاری بھر کم منافع کا کچھ حصہ بھی نچلے طبقات تک نہیں پہنچ پایا۔ غریب بلکہ غریب تر ہورہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحقیق نے عوام کی کماحقہ تعداد کو مشتعل بنادیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت سے مستعفی ہوکر ان کے جذبات کے ساتھ جڑگئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی جس نے اجارہ دار سیٹھوں کو قابو میں لانے کا عہد باندھا۔ "سوشلزم" کو معیشت کے لئے بہتر سمجھتے ہوئے "مساوات" کے حصول کی جدوجہد شروع کردی۔ دریں اثناء اجارہ دار سیٹھوں سے اکتا کر سابقہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جذبات شدید تر ہونا شروع ہوگئے۔ 1970ء میں ہوئے انتخابات نے انہیں مزید بھڑکایا اور پاکستان بالآخر دولخت ہوگیا۔
بقیہ پاکستان کو "نیا پاکستان"بنانے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے بھاری صنعتوں اور بینکوں کو "قومیا" لیا۔ کاروباری طبقہ اس کی وجہ سے ان کا شدید مخالف ہوگیا۔ چھوٹے صوبوں کے "قوم پرست" بھی ان سے نالاں رہے اور مذہب کے نام پر قائم ہوئی سیاسی جماعتیں ان کے متعارف کردہ "سوشلزم" کو "کفر" کے مترادف ٹھہراتی رہیں۔ ان تمام قوتوں نے باہم مل کر 1977ء میں"نظام مصطفیٰﷺ" کے قیام کی تحریک چلائی۔ وہ جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لاء کا سبب ہوئی۔
جنرل ضیابھی ایوب خان کی طرح ملک میں"صنعت کاری" کوفروخت دینے کے خواہش مند تھے۔ ایک بار پھر صنعت کار گھرانوں کی سرپرستی شروع ہوئی۔ ان گھرانوں میں سے چند نے عملی سیاست میں حصہ بھی لینا شروع کردیا۔ نواز شریف ان میں سے نمایاں ترین رہے۔ ہمیں یہ خواب دکھایا گیا کہ ان کی قیادت میں پاکستان بالآخر جاگیرداری اور نوکر شاہی کی گرفت سے آزاد ہوکر جدید اور خوش حال ملک بن جائے گا۔
1990ء میں وہ بالآخر ہمارے وزیر اعظم بھی منتخب ہوگئے۔ نہایت عجلت میں کئی ایسے اقدامات لئے جنہوں نے یہ باور کروایا کہ وہ ملک میں جدید معاشی نظام متعارف کروانے کو تلے ہوئے ہیں۔ "نظام کہنہ" مگر انہیں پرواز بھرنے نہیں دے رہا تھا۔ اسی باعث "فرسودہ نوکر شاہی" کے نمائندے صدر غلام اسحاق خان نے ا ن کی حکومت کو 1993ء میں برطرف کردیا۔ وہ اگرچہ 1997ء میں ایک بار پھر وزا رت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئے۔ ان کے دونوں ادوار میں"بازار" اور کاروباری افراد نواز حکومت کی بابت عمومی طورپر مطمئن دکھائی دیتے رہے۔ نواز شریف کی تیسری حکومت کے ساتھ بھی تقریباََ ایسا ہی عالم رہا۔
عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپریل 2022ء میں وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد شہباز شریف اس منصب پر فائز ہوئے تو بہت تیزی سے "کاروبار دوست" ہونے والی پہچان کھونا شروع کردی۔ ان کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا تعلق بھی ایک کامیاب کاروباری گھرانے سے ہے۔ وہ مگر چند ہی دن اپنے منصب پر فائز رہ پائے۔ ان کی جگہ اسحاق ڈار تشریف لائے۔ تعلق ان کا بھی لاہور کے ایک کاروباری گھرانے سے ہے۔ ڈار صاحب خود بھی کاروباری ہیں۔ لاہور سٹاک ایکس چینج کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
مجھے ہرگز سمجھ نہیں آرہی کہ صنعت کار ا ور کاروباری گھرانوں سے تعلق کے باوجودشہباز شریف اور اسحاق ڈار اپنی ہی "برادری" کو مطمئن کیوں نہیں کرپارہے۔ ان کی برادری میں"عدم تحفظ اور مایوسی" کا احساس کیوں شدید تر ہورہا ہے اور پریشان ہوکر وہ پہلے جنرل باجوہ اور اب جنرل عاصم منیر سے حوصلہ لینے کو مجبور کیوں ہوجاتے ہیں۔ دو ٹکے کا رپورٹر اور معاشی امور سے نابلد ہوتے ہوئے میں اس سوال کا تسلی بخش جواب ڈھونڈ نہیں سکتا۔ اس ضمن میں مؤثر رہ نمائی کا شدت سے طلب گار ہوں۔