پیر کی شام جب قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا تو شہباز شریف صاحب اسلام آباد ہی میں موجود تھے۔ ایوان میں لیکن تشریف نہیں لائے۔ قائدِ حزب اختلاف کی حیثیت میں ان کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی بھی موضوع پر گفتگو کے لئے ایوان میں کھڑے ہوجائیں۔ قائدِ ایوان اور قائدِ حزب اختلاف کی تقاریر عموماََ خاموشی سے سنی جاتی ہیں۔ شورشرابہ ہو بھی تو سیاست دان اس سے گھبراتے نہیں ہیں۔ جو بات بیان کرنا ہوتی ہے اسے مکمل کئے بغیر نہیں رہتے۔
پیر کی شام شہباز شریف صاحب قومی اسمبلی میں تشریف لاکر سپیکر سے مائیک حاصل کرنے کے بعد ہم عام پاکستانیوں کو تفصیل سے بتاسکتے تھے کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اپنی گرے لسٹ پر کیوں ڈالا تھا۔ اس لسٹ پر ڈالنے سے قبل حکومتِ پاکستان کو کونسے اقدامات لینے کو مجبور کیا جارہا تھا۔ مسلم لیگ کی سابقہ حکومت نے وہ اقدام لینے سے کیوں گریز کیا۔ عمران حکومت اس کے لئے کیسے رضا مند ہوگئی۔ شہباز صاحب ایسا خطاب فرمادیتے تو میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوجاتی کہ ہمیں گرے لسٹ پر "دہشت گردی" کی وجہ سے ڈالا گیا تھا یا اس کی وجہ محض وہ "منی لانڈرنگ" تھی جو عمران حکومت کے ترجمانوں کے بقول آصف علی زرداری اور شریف خاندان کے "فالودے" اور "پاپڑ" بیچنے والوں کے نام سے کئی برس سے جاری رکھی ہوئی تھی۔ قائدِ حزب اختلاف نے مگر اس موضوع پر ہماری رہ نمائی کا تردد ہی نہیں کیا۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں تشریف لانے کے بجائے انہوں نے اپنی جماعت کے سرکردہ رہ نمائوں کو ڈائس پر اپنے ساتھ بٹھاکر ایک طویل پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ وہاں 41صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ بھی جاری ہوا۔ یہ کتابچہ اور پریس کانفرنس اعدادوشمار کی مدد سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ عمران حکومت نے اپنے دو سالہ اقتدار کے دوران پاکستانی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ معیشت کی بحالی اور نموکے امکانات دور دور تک نظرنہیں آرہے۔ اس کے علاوہ شکایت یہ بھی تھی کہ شاہ محمود قریشی نے اپنے حالیہ بیانات کے ذریعے "برادر ممالک" کو ناراض کردیا ہے۔
ان ممالک میں 40لاکھ سے زائد پاکستانی خون پسینہ ایک کرتے ہوئے رزق کمانے میں مصروف ہیں۔ ان کی بھیجی رقوم ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔ ان حقائق کو مگر بہت بے رحمی اور غیر ذمہ دارانہ انداز میں نظرانداز کردیا گیا۔ مذکورہ پریس کانفرنس کا ماحول اگرچہ "سیاسی" نظر نہیں آیا۔ یوں گماں ہورہا تھا کہ کسی NGOنے "عمران حکومت کے دوسال" کے بارے میں کسی سیمینار کا اہتمام کررکھا ہے۔ فقط ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے ان دو سالوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا۔ شہباز صاحب جوش خطابت میں اپنے سامنے رکھے مائیکروفون زمین پر پھینکنے کے عادی رہے ہیں۔ پیر کی شام وہ کسی سادھو کی مانند بہت شانت نظر آنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے چہرے پر فکرمندی مگر بہت نمایاں رہی۔ ان کی سیاست عموماََ میرے پھکڑپن کی زد میں رہتی ہے۔ پیر کی شام انہیں دیکھتے ہوئے لیکن مجھے واقعتا دُکھ ہوا۔ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو شہباز صاحب کے رویے پر ان دنوں چھائی اداسی آپ کو وہ بے شمار کردار یاد کروادیتی ہے جو شیکسپیئر نے اقتدار کے کھیل سے جڑی تنہائی کو اجاگر کرنے کے لئے تخلیق کئے تھے۔ 1990کی دہائی سے ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہوئی کہ "مقتدر حلقے" نواز شریف کے مقابلے میں ان کی سوچ کو بہت "معقول اور مثبت" شمار کرتے ہیں۔ بارہا یہ افواہیں پھیلیں کہ نواز شریف صاحب کو پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ اقتدار سے دست بردار ہوکر اپنے چھوٹے بھائی کو حکومت چلانے کا موقعہ دیں۔ نواز شریف مگر آمادہ نہ ہوئے۔ تین مرتبہ وزیر اعظم کی آئینی مدت مکمل کئے بغیر اس دفتر سے فارغ ہوگئے۔
2018کے آغاز میں "سب کچھ لٹادینے کے بعد" نواز شریف صاحب بالآخر اس امر پر آمادہ ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے ویسے بھی انہیں کسی پبلک آفس کے لئے تاحیات نااہل قرار دیاتھا۔ شاید اس وجہ سے ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ ہی باقی نہیں بچا تھا۔ شہباز صاحب کو پاکستان مسلم لیگ (نون) کی قیادت سونپنا پڑی۔ اس کی بدولت مسلم لیگ (نون) کے حامیوں میں یہ اُمید جاگی کہ "سنجیدہ اور تجربہ کار"مشیروں کی بھرپور معاونت سے شہباز صاحب اپنی جماعت کو اقتدار کے کھیل کا طاقت ور ترین پہلوان بنادیں گے۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا۔ مسلم لیگ (نون) کی قیادت سنبھالنے کے بعد شہباز صاحب نے واحد "کارنامہ" یہ دکھایا کہ کسی نہ کسی طرح اپنے بڑے بھائی کو جیل سے نکلواکر علاج کروانے لندن لے گئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ یہ ان کی اپنے بڑے بھائی سے بے پناہ محبت کا ٹھوس اظہار بھی تھا۔ شہباز صاحب کو لیکن اس کارنامے کی مناسب داد نصیب نہ ہوئی۔ مسلم لیگ (نون) کے حامیوں کی اکثریت نے بلکہ یہ محسوس کیا کہ نواز شریف اور ان کی دُختر کو عملی سیاست سے کنارہ کشی کو مجبور کرنے کے لئے شہباز صاحب نے "مقتدر حلقوں "کے "سہولت کار" کا کردار ادا کیا۔ ذاتی طورپر میں اس تجزیے سے اگرچہ اتفاق نہیں کرتا۔ مسلم لیگ (نون) کے جذباتی حامی نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ کی خاموشی اور عملی سیاست سے کنارہ کشی کے بارے میں پریشان ہوئے اکثر یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ نواز شریف صاحب تو جیل سے نکل کر لندن چلے گئے۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ بھی "گھریلو" ہوگئیں۔ اس کے بعد مگر حمزہ شہباز شریف کی مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔
وہ ابھی تک جیل میں ہیں اور اس دوران عمران حکومت کے ترجمانوں کی توپوں کا رُخ شہباز صاحب کی جانب منتقل ہوچکا ہے۔ تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی سکرینوں پر TTکے ذریعے آئی رقوم کے تذکرے جاری ہیں۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر اب تواتر سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کو شہباز صاحب کا نیب کے ہاتھوں بچنا اب ناممکنات میں شامل ہوچکا ہے۔"منی لانڈرنگ" جیسے سنگین الزامات کے تحت ان کے خلاف ٹھوس مقدمات تیار ہورہے ہیں۔ ان سے نبردآزما ہونے کے لئے شہباز صاحب کو ایک طویل عدالتی جنگ لڑنا ہوگی۔ شاید آئندہ کئی برس جیل میں بھی گزارنا پڑیں گے۔ عملی سیاست کے تناظر میں گویا ان کا انجام نواز شریف صاحب سے بھی زیادہ "بھیانک" دکھایا جارہا ہے۔ گلی کی زبان استعمال کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران حکومت کے ترجمان بہت اعتماد سے ہمیں یقین دلارہے ہیں کہ شہباز صاحب کی "چالاکیاں " بے نقاب ہوچکی ہیں۔ وہ اب کسی چلے ہوئے کارتوس کی مانند ہیں۔ مسلم لیگ (نون) کوان کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔ بہتر تو یہی ہے کہ اس جماعت میں جو "صاف ستھرے" لوگ باقی رہ گئے ہیں "شریف خاندان کی غلامی" سے آزاد ہوکر خلوص دل سے تحریک انصاف کی جانب سے "نیا پاکستان" بنانے کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالنا شروع ہوجائیں۔ آئندہ انتخاب میں اس جماعت کی ٹکٹ لے کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں لوٹنے کی کوشش کریں۔ راولپنڈی کی لال ویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کو اگرچہ اس ضمن میں استثناء حاصل رہے گا۔ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے بغیر ہی اقتدار کے مزے اٹھاتے رہیں گے۔ مذکورہ پیغام کو مزید مؤثر بنانے کے لئے عمران حکومت کے وزیروں نے پیر کی شام قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیا۔
مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ افہام وتفہیم کی بدولت پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے مطلوبہ قوانین سرعت سے منظور کروالئے گئے تھے۔ اس ضمن میں "ہاتھی" نکل چکا تھا۔ فقط "اینٹی منی لانڈرنگ بل" والی "دُم" باقی رہ گئی تھی۔ اس قانون کی چند شقوں پر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے شدید تحفظات ہیں۔ ان تحفظات کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے عمران حکومت نے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر مطلوبہ قانون کو پیر کی شام منظور کروالیا۔"گوٹ" اب سینٹ میں پھنسے گی۔ ایوان بالا میں عمران حکومت کو "سادہ اکثریت" بھی حاصل نہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جاعتیں مگر بالآخر راضی ہوجائیں گی۔ ڈھٹائی نظر آتے اعتماد کے ساتھ میں نے یہ بات اس لئے لکھی ہے کہ پیر کی شام مسلم لیگ (نون) کے قدآور رہ نما خواجہ آصف نے بالآخر اپنی نشست سے کھڑے ہوکر کھلے دل سے یہ بیان کردیا ہے کہ ریاستِ پاکستان کے قومی سلامتی کے نگہبان اداروں نے عظیم تر قومی مفادات کی خاطر عمران حکومت اور اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو ایف اے ٹی ایف کو مطلوبہ قوانین کو افہام وتفہیم سے منظور کرنے کی راہ دکھائی تھی۔ اس سے مفر ممکن نہیں تھا۔