چند روز قبل وزیر اعظم صاحب نے مخلص نوجوانوں کے ایک گروپ سے طویل ملاقات کی۔ اقبالؔ کی تمنا کے اتباع میں ستاروں پر کمند ڈالنے کو بے چین نوجوانوں کا یہ گروپ ان دنوں یوٹیوب کے ذریعے قوم کی رہ نمائی فرمانے کے مشن میں جتا ہوا ہے۔ ریگولر میڈیا پر چھائے "لفافہ اینکروں "کے پھیلائے جھوٹ کو مسلسل بے نقاب کرتا ہے۔ عمران خان صاحب ان کی رضا کارانہ لگن سے بہت متاثر ہیں۔ انہیں صدقِ دل سے یقین ہے کہ مذکورہ نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو "انفارمیشن" یعنی ٹھوس حقائق پہنچاتے رہے تو Ratings کی وجہ سے سیلیبرٹی ہوئے اینکر خواتین وحضرات ویسی ہی گمنامی کا شکار ہوجائیں گے جو میری جوانی میں بہت عرصے تک "چاکلیٹ ہیرو" کے طورپر مشہور ہوئے وحید مراد کا بالآخر مقدر ہوئی تھی۔
وزیر اعظم صاحب نے یوٹیوب پر چھائے شاہینوں سے جو خطاب فرمایا میں نے اسے بہت غور سے سنا۔ عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا ہوں جہاں نئے کرتب سیکھ نہیں سکتا۔ مجھے تو اُردو میں ٹائپ کرنا بھی نہیں آتا۔ یوٹیوب جیسے جدید ترین ذریعہ ابلاغ کے ذ ریعے لوگوں تک اپنے خیالات پہنچانے کی مہارت مجھے نصیب ہو نہیں سکتی۔ متحرک صحافت سے تقریباََ ریٹائر ہوا فقط نئے زمانے میں تیزی سے نمودار ہوتی اظہار کی نئی تراکیب کو اسی حسرت سے دیکھتا رہتا ہوں جو غالبؔ نے بھاپ کے بارے میں محسوس کی تھی۔ انگریزوں نے گرم پانی سے اُٹھی بھاپ سے بحری جہاز اور ریل چلادئیے تھے۔ غالبؔ اس دریافت سے بہت متاثر ہوا۔
سرسید احمد خان ان کے مقابلے میں بہت جوان تھے۔ انہوں نے بہت لگن سے اکبر اعظم کے نورتنوں میں سے ایک -ابولفضل- کے مرتب کردہ "آئینِ اکبری" کا مستند متن تیار کیا۔ سرسید کی خواہش تھی کہ غالبؔ اس کا دیباچہ لکھیں۔ غالبؔ کواس جانب مائل کرنے میں لیکن ناکام ہوگئے۔ بجائے "آئین اکبری" کا دیباچہ لکھنے کے غالبؔ نے فارسی میں ایک نظم لکھ ڈالی۔ اس نظم میں انہوں نے خیالات سے مالا مال سرسید احمد خان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی تحقیقی صلاحتیں اس تخلیقی ذہانت کی مبادیات کو دریافت کرنے پر مرکوز کردیں جو انگریزوں کو ان کے دور کی سپرطاقت بنارہا تھا۔
تاریخ کو بھلاکر انگریزی زبان والے Here and Now کی جانب لوٹتے ہیں۔ پیر کی شام "اچانک" خبر آئی کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو مشیر برائے اطلاعات کے منصب سے ہٹادیا گیا ہے۔ ان کی جگہ احمد فراز کے فرزند جو تحریک انصاف کے بنیادی فلسفے سے ثابت قدمی کے ساتھ وفاداری کی بدولت سینیٹ کے رکن بنائے گئے تھے وفاقی وزارتِ اطلاعات کا حلف اٹھائیں گے۔ شبلی فراز مگر عمران حکومت کے میڈیا محاذ کے واحد نگہبان نہیں ہوں گے۔ وزیر اعظم صاحب نے اطلاعات ونشریات کے شعبے میں اپنی معاونت کے لئے پاک فوج کے ادارئہ ابلاغ کو جدید ترین بنانے والے عاصم سلیم باجوہ صاحب کو بھی اپنا خصوصی مشیر برائے اطلاعات بنادیا ہے۔
میڈیا پراڈکٹس یعنی خبر کا ایک عام صارف ہوتے ہوئے میں جاننا چاہ رہا تھا کہ محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو ان کے منصب سے "اچانک" کیوں ہٹادیا گیا۔ اس ضمن میں ٹویٹر کی معرفت یہ علم ہوا کہ وزیر اعظم کے دفتر میں ایسی اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ محترمہ اپنے منصب کو مبینہ طورپر چند ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ اس حوالے سے چند معتبر گردانے ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر "بریکنگ نیوز" بھی چل رہی تھیں۔ میں نے مذکورہ "خبر" پر فوری اعتبار کرنے سے گریز کیا۔ نہایت سنجیدگی سے انتظار کیا کہ یوٹیوب کے ذریعے حقیقی معلومات پہنچانے والے Influencers اس ضمن میں کیا "خبر" دیں گے۔
پیر کی رات سونے سے قبل مجھے ان نوجوانوں میں سے چند یوٹیوبرز کے خیالات تک رسائی حاصل ہوگئی۔ ان میں سے ایک صاحب جو ریگولر ٹیلی وژن پر ایک ٹاک شو کی میزبانی بھی کرتے ہیں اور "سٹار" ہونے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں ایک صاحب کا نام لے کر دعویٰ کررہے تھے کہ ان کی بنائی اشتہاری کمپنی عمران حکومت کی جانب سے اخبارات اور ٹیلی وژن کو جاری کئے اشتہارات کے حوالے سے تقریباََ اجاردار بن گئی تھی۔ یہ اجارہ داری مذکورہ شخصیت کو مبینہ طورپر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی سرپرستی کی بدولت میسر ہوئی۔
وزراء کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہ بے غرض سرپرستی کے عادی نہیں ہوتے۔ دو سے دو ملا کر لہذا چار کا عدد نکالتے ہوئے بقیہ کہانی آپ میری جانب سے مزید کچھ لکھے بغیر تصور میں لاسکتے ہیں۔
فرسودہ اور بکائو صحافت میں اپنی عمر کے 30سے زائد برس ضائع کرنے کے باوجود میں اس حقیقت کو بھلا نہیں سکتا کہ میڈیا کے ذریعے Message یعنی پیغام دیا جاتا ہے۔ یوٹیوب کے ذریعے Message لہذا مجھے یہ ملا کہ حکومت کی جانب سے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو دئیے اشتہارات کے ضمن میں چند بے ضابطگیاں دریافت ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ مبینہ طورپر "ذاتی مفادات" کی بدولت انہیں نظرانداز کرتی رہیں۔ عمران خان صاحب تک اطلاع پہنچی تو انہوں نے فی الفور انہیں فارغ کردیا۔
ڈاکٹر صاحبہ اپنے بارے میں پھیلائی باتوں سے اگرچہ پریشان نہ ہوئیں۔ بہت کشادہ دلی سے انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ وطنِ عزیز کے حتمی فیصلہ ساز ہوتے ہوئے عمران خان صاحب کا یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ جسے چاہیں اپنی ٹیم میں رکھیں یا فارغ کردیں۔ محترمہ کا انکساری بھرا بیان یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ شجر سے پیوستہ رہتے ہوئے اپنے دل میں اُمیدِ بہار زندہ رکھیں گی۔
یہاں تک لکھ لیا تو خیال آیا کہ اپنے پڑھنے والوں سے مجھے وہ باتیں پوشیدہ رکھنے کی جسارت نہیں کرنا چاہیے جو ذاتی طورپر میرے علم میں آئی ہوں۔ یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ گزشتہ جمعرات کی شب ایک مشترکہ دوست نے اپنے گھر کے لان میں کرونا کی وجہ سے لاگو ہوئی سماجی دوری کا مکمل احترام کرتے ہوئے کھانے کی میزلگائی تھی۔ وہاں چند قریبی دوستوں کے علاوہ عمران حکومت کے ایک وفاقی وزیر بھی موجود تھے۔ ان دنوں موصوف کا تعلق وزراء کے اس گروپ سے ہے جسے وزیر اعظم صاحب کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔ اسی روز وہ ٹیلی تھان بھی ہوئی تھی جہاں عمران خان صاحب نے ہمارے ریگولر میڈیا کے مقبول ترین اینکروں کے ساتھ بیٹھ کر کرونا کی وجہ سے آئے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے عوام سے چندے کی درخواست کی تھی۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ بھی اس ٹیلی تھان میں نمایاں طورپر موجود نظر آئیں۔
ذاتی حوالے سے میرے دیرینہ دوست اور کئی برسوں سے عمران خان صاحب کے ثابت قدم وفاقی وزیر نے گفتگو کی روانی میں یہ انکشاف کردیا کہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی فراغت ہونے والی ہے۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے ممکنہ فراغت کی وجہ کوئی مالیاتی سکینڈل نہیں بتائی۔ ان کا اصرار البتہ یہ رہا کہ تحریک انصاف کے Grassroots فدائین کی اکثریت فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو اپنی جماعت کا "حقیقی" نمائندہ اور ترجمان تصور نہیں کرتی۔ وزیر اعظم صاحب کے مداحین تقاضہ کررہے ہیں کہ وزارتِ اطلاعات کی نگہبان کوئی ایسی شخصیت ہو جو تحریک انصاف کے "بنیادی فلسفے" کی حقیقی نمائندہ اور ترجمان ہو۔
مذکورہ وزیر کو یہ گلہ بھی تھا کہ ان دنوں پاکستان کا میڈیا "ہماری حکومت" کے پیچھے پڑگیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں اکثر وزراء یہ گلہ کرتے ہیں کہ عمران حکومت کی جانب سے ہوئے اچھے کاموں کی کماحقہ تشہیر نہیں ہورہی۔ حکومت کے بارے میں منفی تاثر ہی پھیلایا جارہا ہے۔ فقط ایک بار میں نے اس محفل میں چند لمحوں کے لئے اپنی عادت سے مجبور ہوکر پھکڑپن کا اظہار کیا۔ اپنے دوست وزیر کو جگت بازی کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ میں نے اپنے 30سال صحافتی کیرئیر کے دوران ایسا "مثبت" اور "فرینڈلی" میڈیا نہیں دیکھا جو ان دنوں نظر آرہا ہے۔ میرے پھکڑپن کو مگر نظرانداز کردیا گیا۔ پھکڑپن ویسے بھی نظر انداز کئے جانے ہی کا مستحق ہوتا ہے۔
فردوس عاشق ا عوان صاحبہ کی ممکنہ فراغت مگر اس محفل میں دیوار پر لکھی نظر آئی۔ اس کے بعد قیاس آرائی کے گھوڑے اس جانب دوڑنا شروع ہوگئے کہ ان کی جگہ کون لے گا۔ اس ضمن میں دو افراد Short List ہوئے محسوس ہوئے۔ پہلا نام لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے حماد اظہر کا تھا۔ میرا ذاتی خیال مگر یہ تھا کہ وہ اس حکومت کے ڈاکٹر مبشر حسن یا ڈاکٹر محبوب الحق کے مقام پر پہنچنے کی لگن میں ہیں۔ معاشی پالیسی سازی کے کلیدی کردار۔ دوسرا نام شبلی فراز کا تھا۔ ان کی مہذب خوش اخلاقی کو محفل میں موجود سب افراد نے سراہا۔ پیر کی شام بالآخر ان کے انتخاب کی خبر آگئی۔ اپنے مرحوم والد کی یاد میں شبلی فراز میرا بہت لحاظ کرتے ہیں۔ انہیں مبارک باد دینے سے مگر جی گھبرارہا ہے۔ وزارتِ اطلاعات میرے کئی سیاست دان دوستوں کے مستقبل کے لئے اکثر خیر کی خبر ثابت نہیں ہوئی۔ یہ دُعا ہی مانگ سکتا ہوں کہ شبلی فراز کے حوالے سے تاریخ خود کو دہرانے سے گریز کرے۔