قارئین کی اکثریت گلہ کررہی ہے کہ دو ہفتے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے کے بعد میں نے وعدہ کیا تھا کہ وہاں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ نے جو تقریر کی وہ تفصیلی کالم کا تقاضہ کرتی ہے۔ یہ بات لکھنے کے بعد میں نے اس تقریر کو تقریباََ بھلادیا۔ دیگر موضوعات کی جانب بھٹک گیا۔ حتیٰ کہ "ارطغرل" کی ایک قسط دیکھے بغیر ہی اس کی بابت یاوہ گوئی سے ڈنگ ٹپانے کی کوشش کی۔
قارئین کا گلہ سرآنکھوں پر۔ قومی اسمبلی کا اجلاس میں نے گھر بیٹھ کر یوٹیوب کی Live Stream کی بدولت دیکھا تھا۔ اس کے آخری دن اسد عمر کی اختتامی تقریر سے قبل ڈاکٹر صاحبہ نے خطاب فرمایا تھا۔ ان کی تقریر ہر صورت بھرپور توجہ کی مستحق تھی۔
ذاتی تعلق ڈاکٹر صاحبہ کا سندھ کے قاضی خاندان سے ہے۔ والد ان کے سندھی زبان کا ایک بااثر روزنامہ چلاتے تھے۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے توقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ جونیجو مرحوم نے انہیں وزارت اطلاعات کا مدارالمہام بنایا۔ وزیر اعظم کی "کچن کیبنٹ" کے اہم ترین رکن رہے۔ اسلام آباد کے رپورٹروں سے وہ گہرے تعلقات مگر بنا نہیں پائے۔ ان کے اخبار کے نمائندہ دستگیر بھٹی کی وساطت سے میرے ساتھ تعارف ہوا تو ذاتی تعلق گہرا ہونا شروع ہوگیا۔ بعدازاں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔
ان کی دُختر کا اس جماعت سے تعلق اپنے والد کے بجائے شوہر کے ذریعے مزید استوار ہوا۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ان کا نام ہے۔ آصف علی زرداری کے بہت ہی گہرے دوست رہے ہیں۔ 2011 کے وسط میں لیکن ان دونوں کے مابین بدگمانیاں گہری ہونا شروع ہوگئیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ان دنوں قومی اسمبلی کی سپیکر ہوا کرتی تھیں۔ 1990کے انتخابات کے ذریعے اس ایوان میں پہلی بار آئی تھیں۔ نواز شریف کے پہلے دورِ اقتدار میں ان کے "احتساب الرحمن" ذوالفقار مرزا کو گرفتار کرکے آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کو ہمہ وقت بے چین رہے۔ مرزا مگر ان کے ہاتھ نہیں آئے۔ زیر زمین چھپے رہے۔ انہیں منظرِ عام پر لانے کو مجبور کرنے کے لئے سیف الرحمن کا چلایا احتساب بیورو ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی زندگی اجیرن بنائے رکھتا تھا۔ اکثر ان کے F-10 والے گھر پر چھاپے پڑتے۔ ڈاکٹر صاحبہ اپنے کم سن بچوں کے ساتھ وہاں اکیلی رہتی تھیں۔ میں اکثر ان کے ہاں جاکر احتساب بیورو کی پھرتیوں کی تفصیلات جان کر انہیں سخت زبان میں اپنے کالم میں بیان کردیتا۔ سیف الرحمن میرے رویے سے بہت سیخ پا ہوئے۔ سامنا ہوجاتا تو تڑی لگاکر خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے۔ آتش ان دنوں جوان تھا۔ جی خواہ مخواہ "میرا وی کوئی دشمن?" ڈھونڈنے کو بے قرار رہتا تھا۔ بالآخر سیف الرحمن کے کارندوں نے میری بیوی کی گاڑی کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ وہ اپنی والدہ سمیت شیرخوار بچی کو لے کر سودا سلف خریدنے بازار جاتی تو سفید ٹیوٹاگاڑی میں بیٹھے افراد اس کا تعاقب کرتے۔ طیش میں آکر میں نے اس کی بابت 5فروری1999کے اخبار میں For the Record کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔ مشاہد حسین سید صاحب نے وہ کالم نواز شریف صاحب کو پڑھایا۔ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ بھی میرے ساتھ ہوئی واردات کی بابت بہت پریشان ہوئیں۔ ان کی مہربانی سے سیف ا لرحمن میرے "دوست" ہونے کی کوشش کرنا شروع ہوگئے۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے عرصہ ہوا میری ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ وہ پیرپگاڑا کی سربراہی میں بنائی جی ڈی اے کی ٹکٹ پر بدین سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ عمران حکومت کی صوبوں سے تعلقات کومتحرک اور "دوستانہ" بنانے کے ذمہ دار ادارے کی وزیر ہیں۔
ان کی تقریر کو توجہ سے سننا اس لئے بھی ضروری تھا کہ کیونکہ اس ماہ کے آغاز میں اسلام آباد میں یہ افواہیں بہت گرم رہیں کہ ان کے شوہر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اس شہر میں موجود ہیں۔ رات کی تاریکی میں ان کی اہم لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں سندھ میں "کچھ نیا" کرنے کی کھچڑی پکائی جاتی ہے۔ ان افواہوں کے سبب یہ "خبر" بھی مشہور ہوگئی کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو سندھ کا نیا گورنر لگایا جارہا ہے۔ ان کی ممکنہ تعیناتی اس صوبے میں "گورنر راج" کو یقینی بنادے گی۔
دورِ حاضر کے حتمی فیصلہ سازوں تک مجھ عملی صحافت سے ریٹائر ہوئے رپورٹر کو رسائی حاصل نہیں۔"سچی خبروں " کی تلاش میں نہایت خلوص سے ان حق گو افراد کے یوٹیوب چینلوں سے رجوع کرتا ہوں جنہیں عمران حکومت کی شفقت وسرپرستی میسر ہے۔"بکائوصحافت" کے ذریعے جو قیاس آرائیاں پھیلانے کی کوشش ہوتی ہے انہیں اپنے"تجربے" کی بنیاد پر جانچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ میرا تمام تر "تجربہ" پرانے پاکستان میں جاری رہی سیاست سے اخذ کردہ نتائج پر مبنی ہے۔"نیا پاکستان" میں کارآمد نظرنہیں آتا۔
کھوٹے سکے کی مانند بے سود ہوئے اس "تجربے" کی بنیاد پر میں نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی بطور گورنر سندھ تعیناتی کے امکانات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ عمران حکومت کے مراد علی شاہ کی حکومت سے اختلافات بنیادی طورپر اس حقیقت کی بنیاد پر ہورہے ہیں کہ 2018کے انتخاب میں تحریک انصاف نے کراچی سے قومی اسمبلی کی دس سے زیا دہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس جماعت کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں کو گلہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کاموں کا آغاز نہیں کر پائے۔ سندھ حکومت ان کے حلقوں کو نظرانداز کرتی ہے اور وفاقی حکومت اس ضمن میں بے بس نظر آرہی ہے۔ اپنے "بانی" سے الگ ہوکر جو محبانِ وطن ایم کیو ایم (پاکستان) بناکر عمران حکومت کے حلیف ہوئے ہیں ان کی شکایات بھی تحریک انصاف والوں جیسی ہیں۔
اس حقیقت کو نگاہ میں رکھیں تو وفاقی حکومت "کراچی کی تسلی" کے لئے سندھ حکومت پر دبائو ڈالنے کو مجبور ہوگی۔"کراچی کی تسلی" مقصود ہے تو ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کو تحریک انصاف میں شامل ہونا ہوگا۔ وہ اس جماعت کا حصہ بن گئے تو جو بدگمانیاں ان کی ذات کے بارے میں کراچی میں 2008سے 2010کے درمیان گہری اور سنگین تر ہوتی رہیں یکایک ہوا میں تحلیل نہیں ہوپائیں گی۔ اسی باعث میں نے ڈاکٹر ذوالفقارمرزا کی تعیناتی کے امکانات کوسنجیدگی سے نہیں لیا۔
تحریک انصاف کے لئے Feel Good "حقائق" بتاتے چند یوٹیوب Influencers کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ ان میں سے مستند ترین گردانے ایک صاحب نے دوروز قبل باخبر اعتماد سے یہ "خبر" دی ہے کہ وزیر اعظم صاحب سندھ حکومت کو ہٹانا نہیں چاہ رہے۔ وہ اس کے "مینڈیٹ" کا احترام کرنے کو آمادہ ہیں۔ سندھ میں گورنر کی تبدیلی کو بھی انہوں نے کمال حقارت سے مسترد کردیا۔ میں ان کی باخبررہ نمائی سے مطمئن ہوگیا۔ تھوڑی خوشی بلکہ یہ جان کر بھی ہوئی کہ میرا "تجربہ" اتنا بھی فرسودہ نہیں ہوا۔
یوٹیوب پر فرو غِ حق کے فریضے پر اپنے تئیں مامور باخبر نوجوانوں کے مقابلے میں ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کہیں زیادہ معتبر شمار ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب سے ان کی تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ حال ہی میں انہیں پارلیمان کا رکن نہ ہوتے ہوئے بھی وزیر برائے پارلیمانی امور لگایا گیا ہے۔ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں جو خطاب فرمائے ان کے ذریعے واضح الفاظ میں ان افواہوں کی تردید کردی کہ عمران حکومت اٹھارویں ترمیم میں تبدیلیاں لانے کا ارادہ باندھ چکی ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ اگر سندھ میں گورنر راج نہیں لگانا۔ آئین کی 18ویں ترمیم میں "وفاق دوست" ترامیم بھی متعارف نہیں کروانی تو مراد علی شاہ کی حکومت کو لگام کیسے دی جائے گی؟ اس سوال کے تناظر میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا صاحبہ کی تقریر بہت اہم تھی۔ اس کے ذریعے انہوں نے آئین کی ان شقوں کا جذباتی انداز میں ذکر کیا جو وفاقی حکومت کو تعلیم اور صحت سے متعلق بنیادی حقوق کو بروئے کار لانے کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپتی ہیں۔ ان کی تقریر کی روشنی میں ہم وفاقی حکومت سے چند ایسے اقدامات کی توقع باندھ سکتے ہیں جو مذکورہ شقوں کا اطلاق یقینی بنائیں۔ اس ضمن میں فوری طورپر نئے قوانین متعارف نہ ہوئے تو صدارتی آرڈیننس کا اجراء بھی ہوسکتا ہے۔
"گورنر راج" کے امکانات مگر اس کے باوجود ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر مسترد نہیں کئے جاسکتے۔ عید گزرنے کے فوراََ بعد عمران حکومت کو آئندہ مالیاتی سال کا بجٹ تیار کرنا ہے۔ اس سے قبل ضروری ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے وفاق اور صوبوں کے مابین رقوم کی تقسیم کا فارمولہ طے کیا جائے۔ مراد علی شاہ کی حکومت اگر اس فارمولے کی تیاری میں مشکلات کھڑی کرتی نظر آئی تو "گھی" نکالنے کے لئے اُنگلی کو شاید موڑنا پڑے گا۔ گورنر راج" اس ضمن میں وقتی طورپر کافی سہولت میسر کرسکتا ہے۔
"گورنر راج"کی مگربالآخرپارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظوری لینا ضروری ہوگا۔ عمران حکومت کو یقین ہے کہ وہ سینیٹرز جنہوں نے صادق سنجرانی کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے خلاف خاموشی سے موجودہ چیئرمین سینٹ کی حمایت میں ووٹ ڈالا تھا اس ضمن میں ایک بار پھر "ذمہ داری" کا مظاہرہ کریں گے۔ حال ہی میں شہبازشریف اور اسحاق ڈار نے اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کے مابین "وسائل کی تقسیم" کے حوالے سے جو بردبار گفتگو کی ہے وہ "وفاق دوست" قوتوں کو بہت بھائی ہے۔ کرونا کی بابت ازخود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے آئین کی شق 149(4)کا تفصیلی حوالہ بھی دیا ہے۔ گوگل کے ذریعے اسے ڈھونڈ کر غور سے پڑھیں اور مراد علی شاہ کو دورِ حاضر کا ایوب کھوڑو ہوجانے کا انتظار شروع کردیں۔