اپنے جارحانہ اندازِ سیاست کی وجہ سے عمران خان صاحب یقینا عالمی میڈیا کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان ان دنوں کامل انتشار کی ز دمیں ہے۔ سیاسی حکومتوں کی "اوقات"ہمارے دوست اور دشمن عرصہ ہوا مگر خوب جان چکے ہیں۔ رواں برس کے آغاز تک اگرچہ انہیں یہ اعتماد بھی رہا کہ پاکستان کے عسکری ادارے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے موثر نظام کی بدولت معاملات کو ایک حد سے زیادہ بگڑنے نہیں دیتے۔
ان کے ہوتے ہوئے اس ملک کے ساتھ طویل المدت بنیادوں پر ہوئے فیصلوں پر عملدرآمد کی بابت پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ خود پر ہوئے قاتلانہ حملے کے بعد تاہم عمران خان صاحب تواتر سے یہ تاثر پھیلارہے ہیں کہ حالات "وہاں" بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ امریکہ کے معروف اخبار "وال سٹریٹ جرنل" میں حال ہی میں شائع ہوا ایک "تجزیاتی مضمون" مذکورہ پہلو اجاگر کرتا محسوس ہوا۔
ٹویٹر اور فیس بک کی بدولت پھیلے ہیجان کی علت میں مبتلا اذہان ایسے مضامین پر توجہ نہیں دیتے۔ انہیں یہ خبر نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی نگہبان یعنی عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے "وال سٹریٹ جرنل" میں چھپے ایسے مضامین کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کرتا دھرتا اور دنیا میں سرمایہ کاری کے مواقعہ ڈھونڈنے کو بے چین افراد بھی مذکورہ اخبار میں چھپے مضامین سے رہ نمائی کے طلب گار رہتے ہیں۔
عمران خان صاحب مگر یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ پاکستان پر گہری نگاہ رکھنے والے انہیں ہمارے عوام میں مقبول ترین سیاستدان تصور کرتے ہیں۔ وہ اس امکان کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ جلد یا بدیر تحریک انصاف کے قائد آئندہ انتخاب کے بعد ایک طاقت ور ترین وزیر اعظم کی حیثیت میں ایک بار پھر اقتدار میں لوٹ سکتے ہیں۔ ایسے افراد کے دلوں میں جمع ہوئے خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے برطانیہ کے بااثر اخبار "فنانشل ٹائمز" کو انٹرویو دیا۔
اس کے ذریعے وہ امریکہ کی بابت نسبتاََ "دوستانہ" رویہ اختیار کرتے نظر آئے۔ عسکری قیادت کے ساتھ پیدا ہوئی بدگمانیوں کا اثر بھی زائل کرنے کی کوشش کی۔ خوش آئند ہوتے ہوئے بھی مذکورہ انٹرویو نے اگرچہ مجھے انگریزی کا "Too little too late"والا محاورہ یاد دلادیا۔ غالباََ اس کا مترادف، "دیرآید مگر کافی نہیں" ہوسکتا ہے۔ "فنانشنل ٹائمز" کو انٹرویوکے ذریعے انہوں نے جو پیغام دینے کی کوشش کی وہ فی الوقت سی این این اور جرمن ٹی وی کو دئے انٹرویو کی بدولت ابھری سخت گیری کا مناسب توڑ نہیں۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے نظرآنے والے ٹھوس حقائق پر توجہ مرکوز نہیں رکھتے۔ دو اور دو کو جمع کرنے کے بعد فقط چارہی نکالا جاسکتا ہے۔ "دو اور دو" مگر ہم دیکھنے کے قابل نہیں رہے۔ برادر ملک سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان کے متوقع دورئہ پاکستان میں تاخیر کو بھی اسی رویے کی وجہ سے بے بنیاد کہانیاں پھیلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
مذکورہ دورے کے التواءکی خبر منظر عام پر آئی تو عمران خان صاحب کے متعصب مخالفین کو فوراََ2014میں ان کی جماعت کی جانب سے اسلام آباد میں دیا "دھرنا"یاد آگیا۔ اس کی وجہ سے چین کے صدر پاکستان تشریف نہیں لاپائے تھے۔ جو دن انہوں نے ہمارے لئے مختص کررکھا تھا اسے بھارت میں صرف کرنے کو ترجیح دی۔ ان کی جنوبی ایشیاءآمد سے قبل طویل مشاورت کے بعد بھارت میں ان کے قیام کے ضمن میں جو بندوبست طے ہوا تھا اس میں چینی صدر کے مزید ایک دن قیام کی تیاری نہیں تھی۔
چینی صدرکو مصروف رکھنے کے لئے بھارتی وزیر اعظم نے بالآخر انہیں اپنے آبائی گھر مدعو کرلیا۔ وہ دلی سے گجرات کے شہر احمد آباد چلے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ چینی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کے مابین دور ہ گجرات کی وجہ سے "گہری" نظرآتی "دوستی" لداخ کے حوالے سے موجود قضیہ کا حل ڈھونڈنے میں مددگار ثابت نہ ہوئی۔ معاملہ بلکہ مزید بگڑگیا۔
خارجہ امور کا طالب علم ہوتے ہوئے مصر رہوں گا کہ سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان کے دوئہ پاکستان کاجو التو ہوا ہے اس کی کلیدی وجہ عمران خان صاحب کا لانگ مارچ ہرگز نہیں ہے۔ اسے 2014ءمیں چینی صدر کے دورئہ پاکستان کی منسوخی سے جوڑنا ہرگز درست نہیں۔ یاد رہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان فقط پاکستان ہی نہیں آرہے تھے۔ سعودی عرب سے روانگی کے بعد انہیں بھارت بھی جانا تھا۔
بھارت کی ایک معروف صحافی ہیں -سوہسنی حیدر -1990ءکی دہائی سے بھارت کی وزارت خارجہ کے جڑے معاملات پر گہری نگاہ رکھتی ہیں۔ وہ "کہانی گیر" نہیں خالص رپورٹر ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے اپنے اخبار "دی ہندو" کے لئے خبر دی تھی کہ شاید شہزادہ محمد بن سلمان فی الحال دلی نہیں آپائیں گے۔ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ اگرچہ ان کی انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں ایک باہمی ملاقات ہوسکتی ہے۔ بالی میں G-20نامی تنظیم کا سربراہی اجلاس ہورہا ہے۔
مذکورہ تنظیم میں دنیا کے امیر ترین ممالک کے علاوہ "تیزی سے ابھرتی معیشت" والے چند دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن بھی وہاں موجود ہوگا۔ وہ ان دنوں سعودی عرب سے خوش نہیں۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کا جو بحران نمودار ہوا ہے اس کا اثر ثرائل کرنے کے لئے سعودی عرب اپنے تیل کی پیدا وار بڑھائے۔ اپنے ہاں جمع ہوئے ذخائر کو منڈی میں لاکر تیل کی قیمتوں کو بڑھنے نہ دے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اگر بالی نہ گئے تو امریکہ اور سعودی عرب میں مزید بدگمانیاں جنم لیں گی۔ ٹھوس حقائق سے بے خبری کے باوجود صحافتی تجزیہ مجھے یہ سوچنے کو اُکسارہا ہے کہ شاہزادہ محمد بن سلمان کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر فی الحال جنوبی ایشیاءنہیں آرہے۔ شاید انہیں فضائی سفر سے پرہیز کا مشورہ ملا ہے۔ مذکورہ مشورے کے باوجود غالباََ وہ کچھ دیر کو بالی کانفرنس میں شمولیت کو ترجیح دیں اور وہاں کے مختصر دورے کے بعد وطن لوٹ جائیں۔ فی الحال ان کا "دورئہ پاکستان" نہیں بلکہ "دورہ جنوبی ایشیاء" ملتوی ہوا ہے۔