کئی مہینوں سے اس کالم کے باقاعدہ قارئین کی اکثریت اصرار کررہی ہے کہ محض اخبارات کے لئے لکھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ دورِ حاضر کا مؤثر ترین ذریعہ اظہار یوٹیوب ہے۔ مجھے اپنی کاہلی پر قابو پاتے ہوئے اس سے رجوع کرنا چاہیے۔ ذہن بنجر ہوا محسوس ہورہا ہے تو کم از کم اخبار میں چھپے کالم کو اپنی تصویر اور آواز سمیت یوٹیوب چینل پر دہرادوں۔ یوں میرے خیالات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔ جی مگر اس جانب مائل ہی نہیں ہوا۔ یوٹیوب پر چھائے کئی افراد کو اس تناظر میں نہایت توجہ سے سننے کی عادت اپنائی تو دریافت یہ بھی ہوا کہ وہ "صحافت" نہیں کررہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں اس ہنر سے بے وفائی کی جرأت نہیں ہوئی۔
دورِ حاضر میں عقل سے قطعاََ محروم ہوا شخص ہی سوشل میڈیا کی اہمیت کا منکر ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت بھی تاہم بتدریج عیاں ہورہی ہے کہ اس کی بدولت اندھی نفرت وعقیدت شدید تر ہورہی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں نسلوں سے جاگزیں تعصباتFake Newsکے فروغ سے بالآخر ابتری اور خلفشار کے وہ مناظر دکھاتے ہیں جو اس برس کی 6جنوری کے دن "دنیا کی سب سے طاقت ور جمہوریت" یعنی امریکہ کے دارالحکومت میں نظر آئے تھے۔ منافرت پھیلانے کے الزام میں ٹرمپ جیسا بااثر شخص فیس بک اور ٹویٹر پر Banہوا۔ ماہرین نفسیات ٹھوس حقائق کے ذریعے فریاد کرنا شروع ہوگئے کہ اطمینانِ قلب کو یقینی بنانا ہے تو سوشل میڈیا سے رخصت لے کر اپنے اذہان کو Detoxکرو۔
"صحافت" کے چند اصول ہیں۔ انہیں صحافت کی اس صنف ہی نے ز ندہ رکھا ہوا ہے جسے Long Form Journalismکہا جاتا ہے۔ اخبارات اسی صنف کے طے شدہ قواعد کی پابندی کرتے ہیں۔ اخبارات پریس کے ذریعے شائع ہونے کے بعد آپ کے گھروں تک نہ بھیج پہنچیں تو سوشل میڈیا کے لئے بھی ان قواعد کے تحت ہوئی "صحافت" ہی مناسب انداز میں "خبر" فراہم کرسکتی ہے۔ روزمرہّ مسائل کی بابت سنجیدگی سے غور کو ایسے ہی اندازِ صحافت کے ذریعے "ہوا تجزیہ" راغب کرتا ہے۔
کم از کم دوبرس سے میں فیس بک یا ٹویٹر پرکوئی شے پوسٹ کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ فقط نوائے وقت اور The Nationمیں چھپے کالم اپنے اکائونٹس پر ڈالنے پر اُکتفا کرتا ہوں۔ ہنر ابلاغ کا طالب علم ہوتے ہوئے مشاہدے کی عادت اپنا رکھی ہے۔ اسی باعث ایک ایسی Appبھی استعمال کرتا ہوں جو ہر پیرکی صبح مجھے مطلع کردیتی ہے کہ گزرے ہفتے کے دوران ٹویٹر پر میرے Followersکی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا۔ کتنے لوگوں نے Unfollowکرنے کو ترجیح دی۔ اس Appکی بدولت جمع ہوئے اعدادوشمار پر غورکیا تو علم ہوا کہ فقط اپنے ہی لکھے اور اخبار میں چھپے کالم کو ٹویٹر پر پوسٹ کرنے کے باوجود اوسطاََ میرے Followersکی تعداد میں ہر ہفتے 250سے زیادہ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ یہ اعدادوشمار ایک حوالے سے ثابت کرتے ہیں کہ Long Form Journalismکے قواعد اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے کیمرے کے روبرو بیٹھ کر یاوہ گوئی میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ گوشے میں قفس والے آرام سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔
گوشہ تنہائی میں لکھے کالم سے ایک ذاتی فائدہ بھی ہوگیا۔ 31مارچ کی صبح اُٹھ کر بہت مایوسی کے عالم میں اطلاع دی تھی کہ 27فروری کے روزمیری بیٹی نے میرے زیر استعمال فون نمبر استعمال کرتے ہوئے مجھے کرونا سے تحفظ کو یقینی بنانے والی ویکسین لگوانے کے لئے رجسٹر کروایا تھا۔ تقریباََ ایک ماہ گزرجانے کے باوجود مگر کسی نے مجھے مطلع نہیں کیا کہ میں کونسے سینٹر جاکر خود کو ٹیکہ لگوائوں۔
خود غرضی اس کالم کا حقیقی سبب نہیں تھی۔ بنیادی طورپر حیرت کا اظہار تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسلام آباد جیسے "ماڈل شہر" میں ویکسین کی رجسٹریشن والا نظام اتنا مؤثر نظر کیوں نہیں آرہا جو لاہور اور اسلام ا ٓباد میں شاندار حد تک کارفرما ہے۔ یہ کالم لکھنے کے بعد ذاتی طورپر میں کابینہ کے اجلاس کا منتظر تھا۔ امید تھی کہ وہ روس کی تیارکردہ ویکسین کو ہماری مارکیٹ میں لانے کی اجازت دے گی۔ متوقع اجازت اب مل چکی ہے۔ بارہ ہزار روپے خرچ کرو اور ویکسین لگوالو۔ اسلام آباد کے کئی Celebrityخواتین وحضرات یہ ویکسین لگواکر سوشل میڈیا کے ذریعے اب یہ پیغامات دے رہے ہیں کہ جو لوگ مطلوبہ رقم خرچ کرسکتے ہیں وہ روسی ویکسین سے استفادہ کریں۔ چین کی فراہم کردہ ویکسین جسے حکومتِ پاکستان نے بڑھتی عمر کے شہریوں کو بتدریج مگر مفت لگانا ہے اسے"مستحق" افراد کے کام آنا چاہیے۔
مسئلہ میرے ساتھ مگر یہ ہوا کہ 31مارچ کے دن چھپا کالم سینیٹر ولید اقبال نے بھی پڑھا تھا۔ علامہ اقبال کے پوتے نے وہ کالم اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان کو Forwardکردیا۔ یہ دونوں صاحبان کرونا سے نبردآزما ہونے والی سرکاری کاوشوں کے مدارالمہام ہیں۔ ولید اقبال کو اُمید تھی کہ ان تک پہنچائی میری روائیدد کارآمد ثابت ہوگی۔ حسین اتفاق یہ بھی ہوا کہ گزرے جمعہ کی شام مجھے ٹیلی فون کے ذریعے ایک پیغام بالآخر وصول ہوگیا۔ اس پیغام میں ایک کوڈنمبردیا گیا ہے۔ اپنے شناختی کارڈ کے ہمراہ اپنے قریبی ویکسین سینٹر پر جانے کے بعد یہ کوڈنمبر دکھاتے ہوئے میں خود کو کرونا سے تحفظ والی ویکسین لگواسکتا ہوں۔ میں نے ارادہ باندھا کہ پیر کے روز اس سہولت سے رجوع کیا جائے گا۔ پیر کی صبح اٹھا تو آئی ایس پی آر کے کرنل شفیق صاحب کی Missed Callsبھی آئی ہوئی تھیں۔ انہیں جوابی فون کیا تو نہایت دردمندی سے انہوں نے میرے لکھے کالم کا ذکر کیا۔ وہ عوا م کو ویکسین لگانے والے نظام پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ میں نے ٹیلی فون کے ذریعے رجسٹریشن کرواتے ہوئے عجلت میں تفصیلی معلومات فراہم نہیں کی ہوں گی۔ میں نے انہیں اطمینان دلایا کہ مجھے اب کوڈ نمبر مل چکا ہے اور پیر ہی کے دن اسے استعمال میں لانے کا ارادہ بھی باندھ رکھا ہے۔ ان کی اس ضمن میں فکر مندی کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا۔
اپنے ارادے کے باوجود تھوڑا احساس جرم اب یہ سوچتے ہوئے محسوس ہورہا ہے کہ میں مفت ویکسین کا "مستحق" ہوں بھی یا نہیں۔ ایک حوالے سے سوچوں تو کئی برسوں سے باقاعدہ ٹیکس گزارہوتے ہوئے ایک سینئر شہری کی حیثیت میں پنشن نما مالی معاونت کا مستحق نہ بھی ہوں تب بھی مفت ویکسین کا حقدار تو یقینا ہوں۔ معاشی اعتبار سے ان دنوں خود کو "خوش حال" طبقے میں اگرچہ شمار نہیں کرسکتا۔ ویکسین کی قیمت البتہ اب بھی ادا کرسکتا ہوں۔"مفت خوری" یا "خیرات" سے اجتناب کیوں نہ برتا جائے۔ یہ خیال بھی لیکن پریشان کئے ہوئے ہے کہ ویکسین کے حوالے سے اپنی باری نہ آنے کا رونا روتے ہوئے میں نے جو کالم لکھا تھا اس نے سینیٹر ولید اقبال اور کرنل شفیق صاحب جیسے دردمند مہربانوں کو فکر مند بناڈالا۔ مفت ویکسین ہی سے لہٰذا رجوع کیا جائے۔ ویسے بھی یہ ویکسین ہمارے یار "جس پر جان بھی نثار ہے" یعنی عوامی جمہوریہ چین نے تیار کی ہے۔ نسبتاََ جواں سال Celebrityہوتا تو بارہ ہزار روپے خرچ کرتے ہوئے روسی ویکسین لگواتا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو تلقین کرتا کہ وہ مفت ویکسین والی سہولت "مستحق" افراد کے لئے بچالیں۔ عمر کے ساتھ نازل ہوئی گمنامی مگر اُکسارہی ہے کہ "مفت میں ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے؟ "۔