کچھ لوگوں سے زندگی بھر ایک ملاقات بھی نہیں ہوئی ہوتی۔ رسمی تعارف کا موقعہ بھی میسر نہیں ہوتا۔ بے شمار حوالوں سے مگر ان کے ساتھ شناسائی کا رشتہ گہرا ہوتا چلاجاتا ہے۔ محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ کے ساتھ بھی میرا ایسا ہی معاملہ رہا۔ تین روز قبل ان کے انتقال کی خبر آئی تو بہت کچھ یاد آگیا۔
لاہور کی دیال سنگھ لائبریری اور مال روڈ پر بی این آر کی لائبریری میں رکھے ادبی جریدے"فنون" اور "نقوش" جن میں "نگری نگری پھرا مسافر" اور "نے چراغے نے گلے" کے اشتہارنمایاں چھپے ہوئے تھے۔ یہ دو ناول انہوں نے لکھے تھے۔ ان کے عنوان مجھے ہمیشہ حیران کرتے۔ انہیں پڑھنے کا مگر موقعہ نہیں ملا۔
ہوا یہ تھا کہ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد اُردو ادب کی طرف راغب ہوا تو منٹو نے دیوانہ بنادیا۔ بعدازاں اس "ادب" کا متعصب حمایتی ہوگیا جسے "ترقی پسند" کہا جاتا تھا۔ کالج پہنچا تو احساس ہوا کہ اُردو ادب آپ کو "دانشور" نہیں بناتا۔ کامیو اور ژاں پال سارتر کوپڑھنا ضروری ہے۔ روسی ادیبوں کی تمام تحریریں ازبرہونا لازمی ہیں۔ اپنے "انقلابیوں" کی بدولت "دریافت" یہ بھی ہوا کہ ترقی پسند ادب کو "ناکام" بنانے کے لئے قدرت اللہ شہاب جیسے افسروں نے سرکاری سرپرستی میں "پاکستانی ادب" متعارف کروانے کی تحریک چلائی تھی۔ محمد حسن عسکری اس تحریک کے فکری گروتھے۔ کچھ عرصے کے لئے انہوں نے سعادت حسن منٹو کو بھی اپنے حلقہ اثر میں گھیرلیا تھا۔ اس تحریک کے لوگ "ادب برائے ادب" کے قائل تھے۔ ان کی اکثریت سرکاری ملازموں پر مشتمل تھی۔ ان ہی افسروں کی چند بیگمات بھی بتدریج افسانے اور ناول وغیرہ لکھ کر "جدید ادب" لکھنا شروع ہوگئیں۔
محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ کو بھی نجانے کیوں اس صف میں ڈال دیا گیا۔ ان کی تحریر کی ایک سطر پڑھے بغیر ہی میں نے خود کو ان کے مخالف کیمپ میں موجود پایا۔ فلم کی زبان میں فاسٹ فارورڈ کرتے ہوئے 2005 میں آجاتے ہیں۔ اس برس محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ نے "گئے دنوں کا سراغ" کے عنوان سے آپ بیتی لکھی۔ یہ چھپی تو اسے اپنے ہاتھ سے "بھائی سلیم اور کلثوم کے لئے -خلوص کے ساتھ" 5 مئی 2005 کی تاریخ سمیت لکھ کر لاہور سے میرے سسرال بھجوائی۔"بھائی سلیم" ڈاکٹر محمودسلیم جیلانی میرے سسر اور "کلثوم" میمونہ کلثوم جیلانی میری ساس تھے۔ سسر لاہور کے گورنمنٹ کالج کے مشہور جریدے "راوی" کے ایڈیٹر رہے تھے۔ اس رسالے کے لئے میری ساس بھی کہانیاں لکھتی رہی تھیں۔ جیلانی صاحب نے پلاننگ ڈویژن میں نثار عزیز صاحبہ کے شوہر اصغر بٹ صاحب کے ساتھ کئی برس اکٹھے گزارے تھے۔ ان دونوں کا تذکرہ ہمارے ہاں سرتاج عزیز صاحب کی وجہ سے بھی اکثر ہوتا۔ مجید نظامی صاحب سے ان تینوں کا جو رشتہ تھا وہ بھی ساس اور سسرکی بدولت ہی دریافت ہوا۔ میری مرحومہ ساس کتابوں کے معاملے میں بہت Possessive تھیں۔ انہیں بہت سنبھال کر اپنی الماری میں رکھتیں جسے چابی لگاکر بند کیا جاتا تھا۔ جس احتیاط سے وہ اپنی کتابوں کی حفاظت کرتیں اسے دیکھتے ہوئے ان سے کبھی کوئی کتاب پڑھنے کے لئے مانگنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا تھا۔
"گئے دنوں کا سراغ" انہوں نے بہت لگن سے کئی دن لگاکر ختم کی۔ ختم کرلی تو ایک روز مجھے وہ کتاب دیتے ہوئے کہا "اسے ضرور پڑھو-تمہیں میری نسل کے لوگوں کی سمجھ آجائے گی۔" میں نے منافقانہ گرم جوشی سے یہ کتاب وصول کی۔ اس کے بعد وہ اکثر مجھ سے پوچھتی رہیں کہ میں نے اسے پڑھ لیا ہے یا نہیں۔ چند روز گزرنے کے بعد میں نے "واقعتا" بہت اچھی کتاب ہے" کہتے ہوئے انہیں"گئے دنوں کا سراغ" واپس کردی۔ اس کا ایک صفحہ بھی لیکن پڑھے بغیر۔ میری شفیق ساس نے انتقال سے قبل اپنی اولاد کو صراحتاََ بتادیا تھا کہ ان کے لئے مخصوص کتابوں کی الماری ان کی وفات کے بعد "نصرت کو ملے گی۔ اس کے علاوہ وہاں موجود کتابوں کو شاید کوئی اور پڑھنا نہیں چاہے گا"۔ وہ الماری اب میرے قبضے میں ہے۔ اس کی چابی میں اپنے بستر کے سرہانے رکھی میز کی دراز میں رکھتا ہوں۔ آج سے تقریباََ تین سال قبل میں نے اس الماری سے قرۃ العین حیدر کی "کارجہاں درازہے" نکال کر بہت غور سے دوبارہ پڑھی۔ اس کتاب میں نثار عزیز بٹ کا ذکر انہوں نے کئی مقامات پر بہت احترام اور پیار سے کیا ہے۔ میں قرۃ العین حیدر کے شدید متاثرین میں سے ایک ہوں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ٹھان لی کہ "گئے دنوں کا سراغ" بھی ہر صورت پڑھی جائے۔ اسے پڑھنا شروع کیا تو حیران ومسحورہوگیا۔ شدید دُکھ اور احساسِ جرم ہوا کہ میں نے یہ کتاب 2005 میں اس وقت کیوں نہیں پڑھی جب میری مرحومہ ساس نے مجھے اس کا حکم دیا تھا۔"گئے دنوں کا سراغ" محض آپ بیتی نہیں ہے۔ محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ نے اس کی بدولت مردان، ہری پور، ایبٹ آباد، رزمک، نوشہرہ اور پشاور جیسے شہروں کو دستاویزی فلموں کے ماہرین کی طرح Capture کیا ہے۔ یہ تمام شہر اجتماعی پختون ثقافت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی "گئے دنوں کا سراغ" کی بدولت اپنے جغرافیائی ماحول کے علاوہ وہاں کی مخصوص ثقافت کی بنا پر انفرادی اکائیوں کی صورت نظر آتے ہیں۔ ان شہروں کے فطری لینڈ سکیپ کو اجاگر کرتے ہوئے وہ بتدریج چند کرداروں پر فوکس کرتے ہوئے انسانی رویوں اور اقدار کو عیاں کردیتی ہیں۔ ان رویوں اور اقدار کا تذکرہ "ماضی پرستی" نہیں ہے۔
بے تحاشہ نفیس انسانوں کے ساتھ ہی ساتھ ایسے کردار بھی "گئے دنوں کا سراغ" میں موجود ہیں جن کے دل دھڑکتے نہیں پتھرکے بنے محسوس ہوتے ہیں۔ پختون معاشرے کو انتہائی "قدامت پرست" شمار کیا جاتا ہے۔ پختون عورت کا ذکر کم از کم اُردو ادب میں تو نظر ہی نہیں آتا۔"گئے دنوں کا سراغ" میں لیکن حقیقی زندگی سے اٹھائے اور نمایاں کئے بے پناہ ایسے نسوانی کردار ہیں جنہوں نے بہت استقامت سے اپنی نفرادیت کو برقرار رکھا۔ یوں کرتے ہوئے "انقلابی" ہونے کا ڈھونگ بھی نہیں رچایا۔ قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل پختون شہروں اور دیہاتوں میں سے ایسے نسوانی کرداروں کو ڈھول تاشے بجائے بغیر سادہ زبان کے بہائو میں بیان کردینے کا ہنر فقط نثار عزیز بٹ ہی کو نصیب ہوا تھا۔ بذاتِ خود ایک روایت پسند گھرانے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لاہور آئیں۔ ریاضی ان کا مضمون رہا۔ عموماََ یہ "خشک" علم محض مردوں کے لئے مختص شمار ہوتا ہے۔ اس "خشک" مضمون سے وابستگی کے باوجود انہوں نے داستان گوئی کے ہنر پر بھی کمال مہارت حاصل کی۔ ان کی ذاتی زندگی میں خوشیوں کے ساتھ بے پناہ دُکھ بھی آئے۔ وقت کی سنگ دلی کو مگر وہ زندگی کا لازمی حصہ تصورکرتے ہوئے ہمت ہارے بغیر یوں بیان کرتی رہیں جیسے بُرا وقت ان کی اپنی ذات پر نہیں کسی اور پر آیا ہو۔ اپنی ذات پر آئے بُرے اور اچھے وقت کو جذبات سے قطعی ہٹ کر ایک ناظر کی طرح روزمرہّ حقائق کی صورت بیان کردینے کی صلاحیت بہت کم ادیبوں کو عطا ہوتی ہے۔ ہمارے لکھاریوں میں محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ اس ضمن میں تقریباََ یکتا تھیں۔"گئے دنوں کا سراغ" پڑھتے ہوئے لاطینی امریکہ کا گبرائیل مارسیا مارکوئز بھی بہت یاد آیا۔ اس آپ بیتی کی پُر اسراریت اور انفرادی تشخص کے حامل نسوانی کردار مارکوئز کے Magical Realism کی یاد دلاتے ہیں اور بے پناہ مقامات ورجینا وولف کی Stream of Consciousness والے بہائو میں بھی لے جاتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی کہ ہمارے نقادوں اور تبصرہ نگاروں نے محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ کے تخلیقی جوہر کو اس طرح اجاگر نہیں کیا جس کی وہ مستحق تھیں۔ دورِ حاضر کی پُرخلوص اور سنجیدہ Feminist خواتین شاید ان کے نام کے بارے میں بھی بے خبر ہوں گی۔ ان کی تحریروں سے آگہی میسر ہوتی تو زندگی گزارنے اور اسے بیان کرنے کا جو چلن محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ جیسی خواتین نے اختیار کیا اسے بھرپور انداز میں Own کیا جاتا۔ یوں ہوجاتا تو شاید ان پر "مغرب زدہ" ہونے کا الزام نہ لگایا جاسکتا۔ ہماری عورتوں کو اپنے خیالات اور مشاہدات کے اظہار کی جو روایت محترمہ نثار عزیز بٹ صاحبہ، قرۃ العین حیدر اور ہاجرہ مسرورجیسی لکھاریوں نے "تہذیب نسواں " جیسے رسالوں کے لئے لکھنے والی خواتین سے متاثر ہوکر جس انداز میں اپنے زمانے تک پہنچایا وہ تخلیقی تحقیق کا مستحق ہے۔ ان کے ورثے کو خوب سمجھ کر آگے بڑھاتے ہوئے ہی آج کی لکھاری خواتین دورِ حاضر کا ایک منفرد شناخت کے ساتھ سامنا کرپائیں گی۔ وگرنہ عمیرہ احمد ہیں اور "میرے پاس تم ہو" والے صاحب جن کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا۔