اس کالم کے باقاعدہ قاری جس خلوص سے مجھے چاہتے ہیں اس کا میں ہرگز حقدار نہیں۔ احسان مندی کے بوجھ تلے دبارہتا ہوں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آج کے لکھے کالم کے توسط سے وہ یہ جاننا چاہیں گے کہ پرویز مشرف کی بابت آئے فیصلے کے بارے میں کیا محسوس کررہا ہوں۔"حساب دوستاں" چکانا لہٰذا لازم ہے۔
آغاز ہی میں اعتراف کئے دیتا ہوں کہ میں اس ضمن میں ہرگز حیران وشاداں نہیں ہوا۔ میری آنکھیں "تاریخ"کو بنتاہوا دیکھنے کی سکت سے محروم ہوچکی ہیں۔ یہ ایک "علامتی" فیصلہ ہے جس پر عملدرآمد نہیں ہو پائے گا۔ عدالتی فیصلے کے ذریعے پھانسی پر لٹکائے جانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس ملک کے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وزیر اعظم رہے ہوں۔ اس منصب سے عدالت ہی کے ذریعے یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف فارغ ہوئے تھے۔ دیگر مناصب کے ضمن میں "عدالتی تحمل" برتا جاتا ہے۔
منگل کی سہ پہر سے سوشل میڈیا پر چھایا اُبال وقتی ہے۔ چند دن گزرنے کے بعد ہوا ہوجائے گا۔ اس کے بارے میں شاداں یا چراغ پا ہونے کے بجائے میری التجا ہے کہ ابن خلدون کا "مقدمہ" غور سے پڑھ لیں۔ اس میں بیان کردہ "عصبیت" کے تصور پر غور کریں۔ دورِ حاضر میں مذکورہ "عصبیت" کا اظہار ٹویٹر کی بدولت بھرپور انداز میں ہورہا ہے۔ اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم ہے۔ جنونی تقسیم کے اس موسم میں مکالمے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ہر شخص گروہی تعصبات کا شکار ہوچکا ہے۔"معروضی حقیقت" نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی۔ نہ ہی اسے ڈھونڈنے کی خواہش نظر آرہی ہے۔"عصبیت" کا ذکر کرتے ہوئے یہ اضافہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں کئی برسوں سے اب "عدالتی عصبیت" بھی متعارف ہوچکی ہے۔ اپنے اس دعوے کو مثالوں کے ذریعے بیان کرنے کی ہمت مجھ میں موجود نہیں ہے۔
بطورصحافی آپ کو یہ خبر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ منگل ہی کے روز ہمارے یار چین نے 5 اگست 2019 کے بعد ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات پر غور کرنے کو وقت طلب کیا تھا۔ فرانس نے اس خواہش کی بھرپور مخالفت کی۔"کشمیر" کو پاکستان اور بھارت کا "باہمی مسئلہ" قرار دینے پر مصر رہا۔ سلامتی کونسل لہذا اس معاملے کو بند کمرے میں بھی زیر بحث نہ لاسکی۔ فارن افیئرز کے مہاگرو تصور ہوتے منیر اکرم صاحب جنہیں بہت چائو سے ہم نے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی جگہ ایک بار پھر اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمائندہ لگایا تھا اس ضمن میں ہماری مد دنہ کر پائے۔ چین نے بھی اصرار نہیں کیا۔ ہمارے میڈیا نے یہ خبر مگر نظرانداز کردی۔
ہم اس "خبر" کو بھی تقریباََ فراموش کرچکے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم اپنے چہیتے مہاتیر محمد کی خواہش پر ملائیشیاء میں منعقد ہوئی "اسلامی ممالک"کی کانفرنس میں شرکت نہیں کرپائیں گے۔ ترکی کے رجب اردوان البتہ وہاں جارہے ہیں۔ ایرانی قیادت بھی وہاں موجودہوگی۔ قطر والے بھی نمایاں نظر آئیں گے۔ مہاتیر محمد اور اردوان نے 5 اگست 2019 کے بعد مودی سرکار کو اپنی اصول پسندی سے ناراض کیا۔ اس کی بدولت ملائیشیاء کو بھارت کے ساتھ تجارت میں گھاٹا بھی برداشت کرنا ہوگا۔ اردوان پر بھارتی میڈیا میں تواتر کے ساتھ الزام لگایا جارہا ہے کہ اس نے ترکی میں مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو "دہشت گردی" پر اُکسانے والے طالب علموں کو وظیفوں پر اعلیٰ تعلیم دلوانا شروع کردی ہے۔ اس کے انگریزی زبان میں چلائے ٹی وی نیٹ ورک اور خبررساں ایجنسی میں کشمیری صحافیوں کو "فراخدلی" سے نوکریاں دی جارہی ہیں۔ مہاتیر محمد اور اردوان ہمارے بارے میں یقینا"وہ رہے وضو کرتے?"والا گلہ محسوس کررہے ہوں گے۔ احمد ندیم قاسمی نے اپنے ایک شعر میں لیکن "بے وقار آزادی" والی حقیقت بیان کررکھی ہے۔ اسے یاد کرتے ہوئے "وقار" پر لگے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کیجئے۔
ذاتی حوالوں سے بنیادی حقیقت یہ بھی ہے کہ منگل کی صبح اٹھا تو میرے سرہانے اخبارات کا پلندہ تو موجود تھا۔ ٹی کوزی سے ڈھکی چائے کی چینک موجود نہیں تھی۔ جھلاکر نوکرکوپکارا تو اس نے اطلاع دی کہ صبح چھ بجے سے گیس غائب ہے۔ وہ میرے اٹھنے کا انتظار کررہا تھا۔ اب مائیکروویو میں پانی اُبال کر اس میں ٹی بیگ ڈال کر مجھے پیش کردے گا۔ میرے ناشتے کے لئے وہ پیسوں کا طلب گار بھی تھا۔ میرے گھر کے قریب واقعہ مارکیٹ میں لگی ریڑھیوں سے چنے وغیرہ لائے جاسکتے ہیں۔ ٹی بیگ والی چائے مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ چائے کے بغیر مگر ذہن رواں بھی نہیں ہوتا۔ اس چائے کا انتظار کیا۔ کالم لکھا۔ اسے دفتر بھیجا۔ اس کے بعد لحاف میں دبک کر اخبارات کا پلندہ ختم کیا۔ دوپہر کے کھانے کے لئے بھی نوکر کو بازار بھیجنا پڑا۔ سردی سے نبردآزما ہونے کے لئے گھر کے سٹور میں کئی مہینوں سے رکھے بجلی کے ہیٹر تلاش کئے۔ ان میں سے اکثر استعمال کے قابل نہیں رہے تھے۔ ایک نسبتاَ َ "نئے"ماڈل کا دریافت ہوگیا۔ اسے جلایا تو روشنی زیادہ تھی حرارت نہ ہونے کے برابر۔ کوئی "فیشنی"ساہیٹر تھا۔ اُکتاکر سویٹر پہنا اور دوبارہ بستر میں گھس کر سوگیا۔ آنکھ کھلی تو فون پر نگاہ ڈالنے کے بعد دریافت ہوا کہ پرویز مشرف صاحب کے خلاف فیصلہ آگیا ہے۔"تاریخ" بن گئی۔ میں "تاریخ" بننے سے مگر لطف اندوز نہیں ہوپایا۔
میری ٹویٹر لائن پر "خبر" یہ بھی تھی کہ اوگرانے گھریلو صارفین کے لئے گیس کی قیمت کو 214 فی صد بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ گزشتہ سردیوں میں Slabs کی جگاڑ لگاکر سوئی گیس والوں نے ہم سے تقریباَ اتنی ہی قیمت وصول کرلی تھی۔ ان دنوں گیس کے وزیر غلام سرور خان صاحب تھے۔ انہوں نے گیس کی قیمت میں اس ہوشربا اضافے کا انتہائی ڈھٹائی سے دفاع کیا۔ گیزر کو "عیاشی" قرار دیا۔ عمران خان صاحب نے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے کابینہ کے ہنگامی جلاس بلائے۔ اعلان ہوا کہ ایک خطیر رقم صارفین کو "ریلیف" پہنچانے کے لئے مختص کردی گئی ہے۔ ہمارے گھروں تک یہ "ریلیف" مگر پہنچ نہیں پائی۔ بالآخرسردیاں ختم ہوگئیں۔ ہم مطمئن ہوگئے۔ اب کی بار گیس کی قیمت کے حوالے سے "تاریخ" خود کو ایک اور انداز میں دہرارہی ہے۔
یہ "تاریخ" میرے اور آپ جیسے صارفین کے لئے جان لیوا ہے۔ ٹویٹر پر لیکن آپ کو اس کے بارے میں کماحقہ دہائی سنائی نہیں دے گی۔ آنے والے کئی دنوں تک بلکہ اس "تاریخ" کا ذکر ہوگا جو منگل کے روز سنائے فیصلے کے ذریعے مبینہ طورپر بنائی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس "تاریخ" کا انجام "کھایا پیا کچھ نہیں۔ گلاس توڑا بارہ آنے" ہوگا۔ ہمیں مصروف رکھنے کو بحث اس موضوع پر بھی ہوگی کہ ایک اہم ترین منصب پرتعیناتی اور توسیع کے بارے میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق قانون سازی کیسے ہو۔ اس قانون سازی کے عوض اپوزیشن میں بیٹھے "چوروں اور لٹیروں " کو "NRO" دیا جائے یا نہیں۔"وسیع تر قومی مفاد میں "اپوزیشن "NRO"لئے بغیر ہی قانون سازی کا فریضہ سرانجام کیوں نہیں دے رہی۔
آپ کو اُکتادینے کی حد تک اس کالم میں تواتر سے فریاد کرتا رہا ہوں کہ معیشت کو "بحال" کرکے "توانا" بنانے والے ماہرینِ معیشت نے Cost Recovery والی اصطلاح متعارف کروارکھی ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور آپ کے گھروں تک آئی بجلی اور گیس کی فی یونٹ وہ قیمت ہر صورت وصول کی جائے جو حکومت ادا کرتی ہے۔ ریاست اس ضمن میں کوئی Subsidy ادا نہ کرے۔ آج سے ایک برس قبل اگرچہ میری ذاتی آمدنی فرض کریں سو روپے ماہوار تھی تو ان دنوں 25روپے کی حد تک گرچکی ہے۔ ماہانہ خرچ تقریباََ80روپے تھا تو 20فیصد بچت بھی ہوجاتی تھی۔ آپ میں سے جو افراد ابھی تک آمدنی اور خرچ کے ایسے تناسب سے لطف اندوز ہوتے خوش نصیب رہ گئے ہیں اپنی ماہانہ بچت اب بجلی اورگیس کے اضافی بلوں کی نذر کردیں گے۔ ہمارے متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت IMF کا مسلط کردہ Bailout Package ستمبر2022 میں مکمل ہوجانے تک خطِ غربت کو چھورہی ہوگی۔ خط غربت کی جانب تیزی سے لڑھکتے ہم بدنصیب "تاریخ" بننے کے گماں میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کی حس سے محروم ہوچکے ہیں۔