تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے جو میری اس سوچ کو درست ثابت کرتا ہے کہ دنیا بڑی ظالم اور خود غرض ہے۔ فقط چند ہی رشتوں پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اکتوبر1999ءسے 2008ءکے ابتدائی مہینوں کے درمیان ہماری اشرافیہ کے بے تحاشہ پھنے خان شمار ہوتے افراد طارق عزیز صاحب سے ملاقات کے وسیلے ڈھونڈنے کو بے چین رہا کرتے تھے۔ اتوار کے دن اس کا انتقال ہوگیا۔ میں بہت جائز وجوہات کی بنیاد پر ان کی تدفین کے مراحل میں شریک نہیں ہوپایا۔ جو لوگ شریک ہوئے ان سے گفتگو کے بعد اگرچہ یہ جان کر بہت دُکھ ہوا کہ نماز جنازہ پڑھنے مرحوم کے قریب ترین دوست اور عزیز ہی قبرستان گئے تھے۔
اکتوبر1999ءسے قبل میری طارق عزیزصاحب سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دوسری حکومت کے دوران البتہ علم ہوا کہ وہ ایک سی ایس پی افسر ہیں۔ وزارت ماحولیات میں ایڈیشنل سیکرٹری کی حیثیت میں تعینات تھے۔ اس وزارت کے سیکرٹری جو بہت ہی دھانسو افسر شمار ہوتے تھے ان دنوں بیرون ملک گئے ہوئے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں طارق صاحب مذکورہ وزارت کے انچارج سیکرٹری کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی ان دنوں اسلام آباد میں بہت دہشت تھی۔ وہ آصف علی زرداری صاحب کے قریب ترین دوست مانے جاتے تھے۔ ان کے حکم کی فوری تعمیل ہر سرکاری افسر اپنے لئے واجب تصور کرتا۔ طارق صاحب کو بھی اس تناظر میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایک حکم صادر کیا۔ طارق صاحب نے عاجزانہ تعمیل کے بجائے قواعد وضوابط کے حوالے دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ جو حکم صادر کررہے ہیں اس پر عمل ممکن نہیں۔ طارق صاحب کے انکار نے ڈاکٹر صاحب کو مشتعل کردیا۔ انہیں"سنگین نتائج" کی تڑی لگائی۔ طارق صاحب مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔
چودھری شجاعت حسین صاحب کو مگر ان تڑیوں کی خبر ملی تو ترنت اسلام آباد آئے۔ طارق صاحب کو مجبور کیا کہ وہ فوراََ سرکار کے دیے گھر کو چھوڑ کر بچوں سمیت ان کے اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں بنائے گھر منتقل ہوجائیں۔ مزید "احتیاط" یقینی بنانے کے لیے چودھری صاحب کئی دنوں تک خود بھی باقی امور کو نظرانداز کرتے ہوئے وہاں مقیم رہے۔ یہ واقعہ میرے علم میں آیا تو میں نے انگریزی اخبار کے لئے لکھے کالم میں اس کا ذکر کردیا۔ چودھری صاحب کو اس کا علم ہوا تو فون کے ذریعے خود سے مختص سادگی کے ساتھ پنجابی میں محض یہ سوال اٹھایا کہ مجھ تک یہ خبر کیسے پہنچی۔ میں نے پھکڑپن سے ٹال دیا۔
میری خبر کی تاہم مذکورہ فون کی بدولت تصدیق ہوگئی۔ اس کے چند دن بعد میری ایک اور سینئر سرکاری افسر سلمان فاروقی صاحب سے بھی اتفاقیہ ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے نہایت نفیس انداز میں مجھے مائل کرنا چاہا کہ آصف علی زرداری سے ذاتی تعلقات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے انہیں سمجھانا چاہیے کہ موصوف کے دوست یعنی ذوالفقار مرزا سرکاری افسروں کو بے نظیر حکومت سے بدظن کررہے ہیں۔ میں نے بہت احترام سے ان کی گفتگو سنی۔ حاکموں کو مشورے دینے کی تاہم مجھے عادت نہیں۔ بعدازاں محترمہ کی دوسری حکومت بھی ان ہی کے لگائے صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں فارغ ہوگئی اور میں ذوالفقار مرزا کو بھی بھول گیا۔
طویل عرصہ گزرجانے کے بعد اکتوبر1999ءآگیا۔ اس مہینے کی 17تاریخ کو مجھے سرکاری نمبر سے ایک فون آیا۔ اسے اٹھایا تو دوسری جانب سے شائستہ پنجابی میں میرا نام پوچھا گیا۔ میں نے بتایا تو طارق صاحب نے اپنا تعارف کروایا اور نہایت خلوص سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہماری ملاقات جلد از جلد ہونی چاہیے۔ اقتدار سنبھالتے ہی جنرل مشرف نے طارق صاحب کو اپنا اہم ترین سرکاری معتمد تعینات کیا تھا۔ ذات کے رپورٹر کے لئے ان سے شناسائی لازمی تھی۔ اسی دن لہٰذا ان کے دفتر پہنچ گیا اور ہم دونوں کے درمیان ڈیڑھ گھٹنے تک پھیلی ون آن ون ملاقات ہوئی۔ اس کے دوران انہوں نے فقط ایک فون وصول کیا جو جنرل مشرف کی جانب سے آیا تھا۔
ملاقات کا آغاز ہوتے ہی طارق صاحب نے میری ان کے ساتھ ہوئے واقعہ کی بابت خبر کا ذکر کیا۔ حقیقی انکساری سے یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ ذاتی ملاقات کے ذریعے میرا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے مگر چودھری شجاعت صاحب نے انہیں بتایا تھا کہ میں شکریہ وصول کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ ویسے بھی ان کی میرے ساتھ بات ہوچکی ہے۔ مذکورہ خبر کے ذکر کے بعد طارق صاحب نے نہایت تفصیل سے اپنے اور چودھری شجاعت صاحب کے مابین گہرے تعلقات کی وجوہات بتانا شروع کردیں۔ طارق صاحب کے والد گجرات میں سیشن جج تعینات ہوئے تھے۔ آبائی تعلق ان کا سرگودھا سے تھا۔ وہ ریٹائر ہوئے تو چودھری ظہور الٰہی نے انہیں مجبور کیا کہ سرگودھا لوٹنے کے بجائے وہ گجرات ہی میں قیام پذیر رہیں۔ طارق صاحب اور چودھری شجاعت لاہور کے ایف سی کالج بھی ایک ساتھ گئے تھے۔ وہاں تعلیم کے دوران طارق صاحب پرویز مشرف کے بھی گہرے دوست بن گئے۔ اوکاڑہ کے راؤ سکندر مرحوم بھی ان کے بہت قریب ہوگئے۔
مذکورہ ملاقات کی بدولت ہی میں نے طے کرلیا کہ چودھری شجاعت حسین اور راؤسکندر جنرل مشرف کے دور میں سیاسی اعتبار سے توانا تر ثابت ہوں گے۔ "اندر کی خبر" رکھنے کے دعوے دار میرے چند دوست اگرچہ مصر رہے کہ گجرات کے چودھری نیب کے جنرل امجد کے لگائے شکنجے کی زد میں ہر صورت آئیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ "گڈی" چودھری صاحب ہی کی فضا میں بلند سے بلند تر ہوتی رہی۔
جنرل مشر ف کے اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن سے میں ان کی تنقید کے لئے استعارے ڈھونڈنا شروع ہوگیا تھا۔ طارق صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ فقط "تسی میرے یار دے پچھے ای پے گئے ہو(آپ میرے دوست کو معاف ہی نہیں کرتے)"کہتے ہوئے اہم امور کی بابت میری رائے جاننے کو سوالات اٹھانا شروع کردیتے۔ جس انگریزی اخبار سے میں منسلک تھااس کے لئے پارلیمانی کارروائی کی بابت کالم لکھتا تھا۔ پارلیمان نہ رہی تو میں تواتر سے بھارت میں کئی ہفتے گزارتے ہوئے وہاں کی سیاست اور خارجہ امور کے بارے میں خبریں جمع کرنا شروع ہوگیا۔ طارق صاحب قومی سلامتی کمیٹی کے سیکرٹری جنرل بنادئیے گئے تھے۔ ان کے ذریعے بھارت کے ساتھ بیک ڈور سفارت کاری کا عمل بھی شروع ہوا۔ بھارت سے میں جب بھی وطن لوٹتا تو طارق صاحب نہایت شفقت سے میرے ساتھ ملاقات یقینی بناتے۔ بھارت ہی ہماری ملاقات کا واحد موضوع رہتا۔
طارق صاحب کو ہمیشہ اعتماد رہا کہ ہماری مابین ہوئی گفتگو ہر صورت "آف دی ریکارڈ" رہے گی۔ میں نے ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ خود غرض رپورٹر ہوتے ہوئے اگرچہ ان ہی کی بدولت وقت سے بہت پہلے جان لیا کہ ظفر اللہ جمالی صاحب کی وزارت عظمیٰ سے فراغت ہونے والی ہے۔ 2007ءکا آغاز ہوتے ہی مشرف حکومت نے پیپلز پارٹی سے جو روابط شروع کئے اس کی اصل خبر تو مجھے سفارتی ذرائع سے ملی تھی۔
طارق صاحب مگر تفصیلی تصدیق فراہم کردیتے۔ ہمارے درمیان ہوئی اَن گنت ملاقاتوں میں ایک بار بھی مرحوم نے میری صحافت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے سرکاری سرپرستی کی جانب راغب کرنے کا اشارہ تک بھی نہیں دیا۔ ایسے نفیس شخص کی رحلت نے مجھے بہت دُکھ پہنچایا ہے۔ موت مگر برحق ہے اور دنیا واقعتا بہت ظالم اور خود غرض ہے۔ چڑھتے سورج کی پجاری۔