تحریک انصاف کے شدید ترین مخالفین کو بھی اب یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہیے کہ ریگولر اور سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے ذریعے اس جماعت کو اپنا بیانیہ پھیلانے کا ہنر خوب آتاہے۔ بدترین حالات میں بھی اس جماعت کے میڈیا منیجرز ایسا نکتہ دریافت کر ہی لیتے ہیں جو فوری مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹا دیتا ہے اور ان کے لیڈر یعنی عمران خان صاحب کو "مردِ بحران" کی صورت پروموٹ کرتا ہے۔
مارچ 2020 کے آغاز سے دُنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان بھی کرونا وائرس کے خوف میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس مرض کا مؤثر علاج موجود نہیں۔ طبی ماہرین بہت بے بسی سے ا عتراف کررہے ہیں کہ اس وباء کی مدافعت کے لئے ویکسین دریافت کرنے میں کم از کم ایک سال کی جان گسل تحقیق درکار ہے۔ ویکسین اور مؤثر علاج کی دریافت تک اس مرض کی زد میں آئے لوگوں کو عمومی نزلہ زکام کے علاج والی دوائیں دی جارہی ہیں۔ چند افراد اس دوا کے استعمال سے بھی صحت یات ہوتے دکھائی دئیے جو ملیریا کے علاج کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس امر پر بھی غور ہورہا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں یہ مرض اس شدت سے کیوں نہیں پھیلا جو یورپ کے مختلف ممالک خاص طورپر اٹلی میں دیکھنے کو ملی۔ یہ باور کیا جارہا کہ مختلف بیماریوں کے تدارک کے لئے پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں بچوں کو پیدائش کے بعد جو ٹیکے لگائے جاتے ہیں وہ شاید یہاں کے باسیوں کی وائرس کی وجہ سے پھیلتی دیگر بیماریوں کے خلاف بھی قوتِ مدافعت بڑھادیتے ہیں۔ پیدائش کے فوری بعد لگائے ٹیکے ہی غالباََ پاکستان کے شہریوں کی بے پناہ اکثریت کو اس مرض سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ حتمی فیصلے کے بجائے بات مگر "غالباََ" پر اٹکی ہوئی ہے۔
کروناکے تدارک یا علاج کے لئے مؤثر شمار ہوتی ویکسین اور دوا کی عدم موجودگی میں خلقِ خدا کی اکثریت کو محفوظ بنانے کے لئے سماجی دوری ہی واحد راستہ ہے۔ اسے یقینی بنانے کے لئے شہریوں پر لاک ڈائون مسلط کرنے کا فیصلہ ہوا۔ لاک ڈائون کی اہمیت کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہوئے بھی پاکستان جیسے ممالک میں اس کے منفی اثرات پر نگاہ رکھنا ضروری ہے۔ ہماری معیشت وسیع تر معنوں میں Informal ہے۔ دیہاڑی دار اسے رواں رکھتے اور روز کی روٹی کماتے ہیں۔ طویل لاک ڈائون دیہاڑی داروں اور چھوٹے کاروبار سے متعلق سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ لاک ڈائون کو طویل عرصے تک برقرار رکھنا اب ناممکن دکھائی دے رہاہے۔ عمران خان صاحب اس تناظر میں غریب دیہاڑی داروں کے بلند آہنگ ترجمان ثابت ہوئے۔ ان کی تقاریر اور بدن بولی مسلسل یہ پیغام دیتی رہی کہ دیہاڑی داروں اور چھوٹے کاروباری افراد کو فاقہ کشی سے بچانے کے لئے لاک ڈائون میں نرمی لانا ضروری ہے۔ شہروں کو بتدریج کھولنے پر غور ہونا چاہیے۔ معیشت کو ہر صورت رواں رکھنے کی راہیں تلاش کی جائیں۔ ربّ کریم کی شفقت کی امید رکھتے ہوئے بیشتر کاروبار کھول دئیے جائیں۔
ان کی "جی دار" سوچ کے برعکس تاثر مگر یہ پھیلاکہ ریاستِ پاکستان کے دائمی اداروں میں موجود فیصلہ سازوں کی اکثریت ان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتی۔ ان کی رائے کو خاموشی سے نظرانداز کرتے ہوئے لاک ڈائون مسلط کردیا گیا۔ کورونا کے موسم میں "حتمی فیصلہ سازی" عمران خان صاحب نہیں بلکہ "ادارے" کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ عمران خان صاحب نے مذکورہ تصور کو براہِ راست جھٹلانے سے گریز کیا۔ ان کے مشیروں نے البتہ بہت ہوشیاری سے ایک اور معاملے پر توجہ مبذول کروادی۔
گزشتہ برس وطنِ عزیز کئی ہفتوں تک آٹے اور چینی کے "بحران" میں مبتلا رہا۔ اس "بحران" کے دوران "بکائو میڈیا" میں گھسے "تخریب کاروں " نے تحقیقاتی صحافت کے تمام تقاضوں کا احترام کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چند سرکردہ رہ نمائوں کی "نشاند ہی" کی جو اس "بحران " کے مبینہ طورپر ذمہ دار ٹھہرائے گئے۔ وزیر اعظم صاحب نے ایک بار نہیں کم از کم تین مرتبہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے نام لے کر انہیں مذکورہ "بحران" کے تناظر میں بری الذمہ قرار دیا۔ عوام کی تشفی کے لئے اگرچہ تحقیقات کا حکم بھی صادر فرمادیا۔
تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کرونا کے خوف سے گھروں میں دبک کر بیٹھے عوام کی اکثریت آٹے اور چینی کے "بحران" کو بھول چکی تھی۔ اس "بحران" کے بارے میں رپورٹ مگر وزیر اعظم کے دفتر پہنچی تو اسے پبلک کردیا گیا۔ منظرِ عام پر آئی رپورٹ نے تحریک انصاف کے چند کلیدی رہ نمائوں کو جو عمران صاحب کے قریب ترین مصاحب بھی شمار ہوتے ہیں گزشتہ "بحران" کا حقیقی ذمہ دار ٹھہرایا۔ وہ رسوا ہوگئے۔ وزیر اعظم صاحب کی مگر واہ واہ ہوگئی۔ بنیادی پیغام ایک بار پھر یہ ملا کہ عمران خان اپنی بات پر ڈٹ جاتے ہیں۔ وباء کے دنوں میں بھی ان کے ہاتھ پائوں خوف سے نہیں پھولے۔ کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے آٹے اور چینی کے "بحران" کی بابت تیار ہوئی رپورٹ کو منظرِ عام پر لانے کا حکم صادر کیا۔ یہ حکم صادر کرتے ہوئے اس امکان سے ہرگز نہ گھبرائے کہ مذکورہ رپورٹ کا پبلک ہونا ان کی جماعت کے چند اہم ترین رہ نمائوں کی رسوائی کا باعث ہوگا۔ اپنی "بدنامی" سے خفا ہوکر یہ رہ نما "اتحادیوں " کی بیساکھیوں پر کھڑی عمران حکومت کی بقاء کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب بہادری سے یہ دہراتے نظر آرہے ہیں کہ حکومت جاتی ہے تو جائے وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔ کرپٹ مافیا کے خلاف ان کے دل میں رحم کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس مافیا کے مقابلے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ عمران خان صاحب کے سیاسی مخالفین کے پاس آٹے اور چینی کے بحران سے متعلق رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد بنائے بیانیے کا مؤثر جواب موجود نہیں۔ ان کے اذہان سادہ زبان میں مؤثر Counterspin ایجاد کرنے سے محروم رہے۔ جھلاہٹ میں چند افراد اب فقط یاد دلارہے ہیں کہ چینی پیدا کرنے والے اجارہ داروں کو اپنے گوداموں میں ذخیرہ ہوئی چینی بیرون ملک فروخت کرنے کی اجازت وفاقی کابینہ نے دی تھی۔ عمران صاحب اس کابینہ کے "کپتان" ہیں۔ کابینہ کے ہر فیصلے کی منظوری اس کے تمام تر اراکین کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کابینہ کی جانب سے ہوئے فیصلوں سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کرسکتے۔ چینی کی بیرون ملک فروخت کی اجازت کا فیصلہ ان کی منظوری کے بغیر ہوہی نہیں سکتا تھا۔
کابینہ کی "اجتماعی ذمہ داری" اور اس کے "کپتان" کا کردار مگر خلقِ خدا کی اکثریت کے لئے محض تفصیلات ہیں۔ فروعی موشگافیاں۔ اخبارات کے تمام قاری اور ٹی وی کے عمومی ناظرین کے لئے آٹے اور چینی سے متعلق "بحران" کے اصل ذمہ دار جہانگیر ترین، خسروبختیار اور دیگر اجارہ دار ہیں۔ وزیر اعظم نے ان لوگوں کے کردار کو بے نقاب کرتی رپورٹ کو منظرِ عام پر لانے کا حکم دے کر خود کو رسوا ہوئے لوگوں سے کوئی لحاظ رکھے بغیر جدا کرلیا۔ چسکہ بھری کہانیاں اب فقط اجارہ داروں کے کردار کی بابت Weave یعنی بُنی اور فروغ دی جارہی ہیں۔ عمران خان صاحب ان کہانیوں کی بدولت گھن کی طرح گندم میں پسے جانے سے محفوظ رہے۔ جوہڑ میں کھلے کنول کی مانند ہمیشہ کی طرح پرکشش۔ تیز ہوا کے مقابلے میں استقامت سے کھڑا ہوا دل موہ پھول۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے میں تحریک انصاف کے بیانیہ سازوں کو سلام کرنے پر مجبور پاتا ہوں۔