تقریباََ دو برس قبل گوشہ نشینی کی فراغت سے گھبرا کر میں نے کافی سنجیدگی سے "ستارہ شناسی"کے اسرار ورموز دریافت کرنے کی کوشش کی تھی۔ ذہن اگرچہ "عقل کا غلام" تھا اور اقبال کا بیان کردہ "ستارہ کیا میری تقدیر کو خبر دے گا؟"بھی جی کوتسلی دیتا رہا ہے۔ بہرحال آسٹریلیا میں مقیم اوریوٹیوب پر مقبول ایک ستارہ شناس نے 2020ءکا آغاز ہوتے ہی آئندہ 20برسوں میں ممکنہ طورپر نمودار ہونے والے چند واقعات کی بابت خبردار کیا جو بقول اس کے تمام عالم کو وہ طرز زندگی بھلادینے کو مجبور کردیں گے جو گزشتہ دو صدیوں سے ہم "معمول" تصور کئے ہوئے ہیں۔
اس کی تیار کردہ وڈیو کرونا کی وباءپھوٹنے کے بعد یاد آئی۔ اسے ڈھونڈ کر بہت غور سے سنا۔ اس کے بعد یوٹیوب پر مقبول دیگر ستارہ شناسوں سے بھی رجوع کرنا پڑا۔ چند ہی دنوں بعد جی مگراُکتاگیا۔ فیصلہ کرلیا کہ ستارہ شناسوں کے لگائے "تکے" بسااوقات سچ ثابت ہوجاتے ہیں۔ "آسٹرولوجی" کو ریاضی جیسا ٹھوس علم تصور کرنے سے گریز کروں اور ہمارے ہاں جو سیاسی تماشے لگے ہوئے ہیں ان کے بارے میں لکھتے ہوئے ہی روز کی روٹی کمانے کا بندوبست کروں۔
پیر کے روز سو برسوں کے طویل وقفے کے بعد ترکی میں جو ہولناک زلزلہ آیا ہے وہ ایک بار پھر ستارہ شناسوں سے رجوع کرنے کو مجبور کررہا ہے۔ صحافت کے ابتدائی ایام ہی سے یہ احساس لاحق رہا کہ ممالک کی "خودمختاری" خوش گمانی ہے۔ دنیا کے طاقت ور ممالک ہی خودمختار دکھتے ممالک کا"قومی ایجنڈا" طے کرتے ہیں۔ دنیا ان دنوں دو کیمپوں میں تقسیم نظر آئی۔ ایک کی قیادت امریکہ کے پاس تھی۔ "کمیونسٹ روس" اس کا مخالف کیمپ تھا۔
1990ءکی دہائی کا آغاز ہوتے ہی لیکن بنیادی طورپر "افغان جہاد" کی بدولت کمیونسٹ نظام اپنے زوال کو پہنچا۔ نئی صدی کو اس دور کا آغاز بتایا گیا جہاں دنیا ایک "عالمی گاؤں" میں سکڑچکی ہے۔ مذکورہ گاؤں کا ہر فرد انٹرنیٹ کی بدولت جغرافیائی تقسیم اور فاصلوں سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے سے رابطے میں ہے۔ "برادری"اب مقامی نہیں بلکہ عالمی ہوچکی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے انسانوں کے دُکھ سکھ سانجھے بن گئے ہیں۔ باہمی احترام اور تعاون کا ایک خوش گوا ر باب کھلنے کو ہے۔
"عالمی گاؤں" میں انسانی سانجھ کی جو نوید سنائی گئی تھی وہ مگر دس سے زیادہ برس بھی برقرار نہ رہ پائی۔ عالمی گاؤں کے ہجوم میں گم ہوجانے کی فکر نے کئی ممالک کو اپنی تاریخی اور تہذیبی"شناخت"، اجاگر کرنے کو اُکسایا۔ برطانیہ ایک ہیجانی مہم کے بعد یورپی یونین سے الگ ہوگیا۔ امریکہ میں ٹرمپ نے سفید فام اکثریت کی جبلت میں موجود تعصبات کو بھڑکایا۔ ہمارے ہمسائے میں نریندر مودی "ہندوتوا" کے جابرانہ اطلاق میں مصروف ہوگیا۔ "عالمی برادری" بھی بتدریج انسانی حقوق سے غافل ہونا شروع ہوگئی۔
ہمیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد نمودار ہوئی اقوام متحدہ کی بدولت تمام تر خامیوں کے باوجود چند بنیادی اصولوں کی پاسداری ہوگی۔ نام نہاد "عالمی نظام" اور اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل جیسے ادارے ہوتے ہوئے بھی تاہم تیل اور گیس کے بے تحاشہ ذخائر کی بدولت ایک بار پھر طاقت ور ہوا روس گزرے برس کا آغاز ہوتے ہی یوکرین پر حملہ آور ہوگیا۔ پوٹن کا اصرار ہے کہ یوکرین ایک مصنوعی ملک ہے۔ تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے "مہا روس" کا حصہ ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اسے اپنی "اصل ماں" سے جدا کرکے اپنا مطیع بنانے کو مچل رہے ہیں۔ یوکرین کو ان سے "محفوظ" رکھنا لازمی ہے۔
تقریباََ ایک سال قبل جب روس یوکرین پر حملہ آور ہوا تو میں یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ اپنی بھاری بھر کم اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس افواج کی بدولت روس زیادہ سے زیادہ تین ہفتوں میں یوکرین کے دارالحکومت پر قابض ہوجائے گا۔ یوکرین کو یوں"آزاد" کروالینے کے بعد وہاں روس نواز کٹھ پتلی نما حکومت کا قیام عمل میں آئے گا اور "امن بحالی" کی بڑھک لگادی جائے گی۔
روس مگر ایک سال گزرنے کے بعد اب دلدل میں پھنسا نظر آرہا ہے۔ اپنی خودمختاری برقرار رکھنے کی تڑپ میں یوکرین کے ہزاروں شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ لاکھوں اپنے آبائی شہر چھوڑ کر یوکرین کے دیگر شہروں ہی میں نہیں بلکہ یورپ کے کئی ممالک میں بھی دربدر ہورہے ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملہ آور ہوجانے کے بعد تباہی اور بربادی فقط یوکرین کا مقدر ہوا ہی نظر نہیں آرہی۔ یورپ میں تیل اور گیس کی فراہمی کا بحران ابھرا۔ اس بحران کی بدولت پاکستان جیسے ممالک بھی پیٹرول اور گیس کی وجہ سے "دیوالیہ" ہونے کے قریب نظر آئے۔ پیٹرول کے علاوہ غذائی اجناس بھی نایاب ہونا شروع ہوگئی ہےں۔
بنیادی طورپر "زرعی ملک" ہوتے ہوئے پاکستان خود کو غذائی قلت سے محفوظ رکھ سکتا تھا۔ گزشتہ مون سون میں سندھ اور بلوچستان کے علاوہ جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع بھی لیکن ریکارڈ بناتی بارشوں کی وجہ سے تباہ کن سیلاب کی زد میں آئے۔ وافر گندم اور دیگر غذائی اجناس کی پیداوار کے لئے لاکھوں ایکڑ اراضی بروقت خشک نہیں ہوپائی۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے بے شمار ممالک البتہ گندم بونے کے عادی ہی نہیں رہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے وہ گندم خریدنے کے لئے روس اور یوکرین پر کامل انحصار کے عادی بن چکے ہیں۔ ان دو ممالک کے مابین جاری جنگ کی وجہ سے مگر اب اس کا حصول دشوار تر ہوگیا ہے۔ غذائی اجناس کی قلت نے ہم جیسے بے تحاشہ ممالک میں متوسط طبقے کی کمر توڑ دی ہے۔ اس کی اکثریت تیزی سے خط غربت کی جانب لڑھک رہی ہے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں پر نازل ہوئی ابتلاکے ازالے کے لئے اقوام متحدہ بھی ناکام ہوئی۔
امریکہ جیسے ممالک نے غریب ممالک پر نازل ہوئے غذائی بحران کو سفاکی سے نظرانداز کرتے ہوئے اربوں ڈالر یوکرین کو "ہلاشیری" دینے کو وقف کردئے۔ خواب دیکھے اور دکھائے جارہے ہیں کہ "افغان جہاد" نے سوویت یونین کو جس ہزیمت سے دو چار کیا تھا پوٹن کے روس کا ویسا ہی حشر اب یوکرین کے ہاتھوں ہوگا۔
روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے سنگین تر ہوتے بحرانوں کی بدولت ہمارے ہاں گزشتہ برس آئے قیامت خیز سیلاب سے متاثر لاکھوں گھرانوں کے لئے "عالمی برادری" خاطر خواہ رقوم فراہم نہیں کر پائی ہے۔ ترکی ہمارے مقابلے میں نسبتاََ بہت خوش حال ملک ہے۔ گزشتہ تین برسوں سے مگر اس کی معیشت بھی سکڑرہی ہے۔ روزمرہّ زندگی کے لئے لازمی شمار ہوتی اشیاءکی قیمتیں ناقابل برداشت ہورہی ہیں۔
ڈالر کے مقابلے میں ترکی کے لیرا کو بھی صدر اردوان نے ہمارے اسحاق ڈار کی طرح "قابو" میں رکھنے کی کوشش کی۔ ہمارے وزیر خزانہ کی طرح مگر ٹھوس متبادل ڈھونڈ نہیں پارہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ پیر کے روز ترکی کے جنوبی مشرقی علاقوں میں زلزلے نے جو قیامت برپا کی ہے وہ برادر ملک کی معیشت کو کمزور تر بنائے گی۔ متاثرین کی بحالی کے لئے اردوان جیسے کٹر قوم پرست کو بھی شاید اب "کشکول" اٹھانا پڑے گا۔
تمام تر خدشات کے باوجود مجھے امید ہے کہ پاکستان سے بے پناہ پیار کرنے والے ترک عوام خود کو کسی نہ کسی صورت سنبھال لیں گے۔ اصل فکر شام کی بابت ہورہی ہے۔ اس ملک کے جن علاقوں میں زلزلے نے تباہی مچائی ہے ان کی اکثریت بشارالاسد کی حکومت کے کنٹرول میں نہیں۔ یہ مذہبی انتہا پسندوں اور کرد علیحدگی پسندوں کی بنائی "ریاست کے اندر ریاستیں" بن چکے ہیں۔
شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے ریاستی عمل داری کی عدم موجودگی شاید ان ممالک میں آئی تباہی کا ٹھوس تخمینہ لگانے میں بھی ناکام رہے۔ مصیبت زدگان کی مدد تو دور کی بات ہے۔ "عالمی گاؤں" میں رہتے ہوئے بھی قصہ مختصر انسان اب تیزی سے تنہا ہورہے ہیں جن کو بحالی کے سہارے میسر نہیں رہے۔ امید کھودینے کے بعد ستارہ شناسوں سے ایک بار پھر رجوع کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں۔