دوباتیں ہوئی ہیں جن کا آئندہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر گہرا اثرپڑے گا۔ ان دو میں سے بہت ہی خوش آئند امریکی ڈیموکریٹ رہ نما برنی سینڈرز کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کشمیریوں پر گزشتہ 25دنوں سے مسلط لاک ڈائون کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ لگی لپٹی رکھے بغیر انہوں نے واضح الفاظ میں اس خطرے کا اظہاربھی کیا کہ وحشیانہ لاک ڈائون کے سبب ایک عظیم انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ موذی اور سنگین امراض کا شکار ہوئے ہزاروں کشمیریوں تک زندگی بچانے والی ادویات نہیں پہنچ رہیں اور انہیں یہ اطلاع مقبوضہ کشمیر کے ہسپتالوں میںکام کرنے والے مستند ڈاکٹروں کی وساطت سے براہِ راست ملی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر ہی کے مستقبل سے جڑی دوسری اہم بات ہفتے کے روز ہانگ کانگ میں مظاہرین پر ہونے والا پولیس تشدد ہے۔ اس سے متعلق وڈیوزسوشل میڈیا پر مسلسل وائرل ہورہی ہیں۔ امریکی صدر پر ان وڈیوز کو پوسٹ کرتے ہوئے دبائو بڑھایا جارہا ہے کہ وہ اپنے مخصوص انداز میں عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ ہانگ کانگ کے تازہ ترین حالات کے سبب پنجابی محاورے والا "سیدھا" ہوجائے۔ چین کے ساتھ جو تجارتی جنگ جاری ہے اس میں مزید شدت لائی جائے۔ وہاں سے امریکہ آنے والی درآمدات پر بھاری ڈیوٹی عائد کرتے ہوئے چین کو "سبق" سکھایا جائے۔
ان دونوں واقعات کے تناظر میںآگے بڑھنے سے قبل مگر پاکستانی سیاست کے حوالے سے ہوئے ایک واقعہ کاتذکرہ ضروری ہے۔ گزشتہ جمعہ ہی کے روز جب قوم وزیر اعظم صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لئے اپنے گھروں سے آئی توعین اسی روز سابق صدر آصف علی زرداری کو جیل سے اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں لایا گیا۔ ان کی بیٹی آصفہ کو موصو ف سے ملنے کی اجازت نہ ملی۔ کیمروں کے سامنے کھڑے ہوکر آصفہ بھٹو زرداری نے بہت جذباتی انداز میں اپنے ساتھ ہوئی مبینہ بدتمیزی کا ذکرکیا۔ سابق صدر کی دُختر کی کیمرے کے سامنے ہوئی یہ گفتگو سوشل میڈیا پر چند ہی لمحوں میں وائرل ہوگئی۔ ایک ہی دن انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان سے دُنیا تک دومتضاد پیغامات گئے۔ میں نے اپنا سرپکڑلیا۔
تحریک انصاف کے شدید ترین نقاد بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے کو مجبور ہیں کہ اس جماعت کی22 سالہ جدوجہد میں اہم موڑ اس وقت آیا جب اس نے لاہور کے مینارِپاکستان کے سائے تلے ہوئے جلسے کے بعد 2011 میں سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے لوگوں کو متحرک کرنے کا ہنردریافت کرلیا۔ روایتی سیاست اور جلسے جلوسوں پر تکیہ کرنے کے بجائے Optics کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں اپنا سیاسی پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔
علم ابلاغ کا ایک متجسس طالب علم ہوتے ہوئے میرا اصرار ہے کہ آصفہ بھٹو زرداری کی جمعہ کے روز وائرل ہوئی وڈیوOpticsکے حوالے سے بہت طاقت ور تھی۔ اس سے دُنیا کو پیغام یہ ملا ہے کہ پاکستان کی اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی سیاست اب ہماری آنے والی نسلوں تک بھی منتقل ہورہی ہے۔ عمران مخالف سیاست دانوں کی اولادیں اب "بدلا اُتارنے" کی تڑپ میں مبتلا ہوجائیں گی۔
آصف علی زرداری کو جیل کی انتظامیہ نے ازخود ہسپتال بھیجا تھا۔ ان کے ٹیسٹ ہوئے ان کے دوران اگر ان سے بے پناہ پیار کرنے والی بیٹی بھی تھوڑی دیر کے لئے ان کے پاس موجود ہوتی تو "NRO"ہوتا قطعاََ دکھائی نہ دیتا۔ حکومت کو بلکہ یہ دعویٰ کرنے کا ٹھوس جواز مل جاتا کہ آصف علی زرداری کا ان کی عزیز ترین بیٹی کے سامنے طبی معائنہ ہوا۔ اس کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال میں رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
مذکورہ واقعہ کے علاوہ بھی سیاسی حوالوں سے بہت کچھ ہورہا ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت سے "فارورڈبلاک" برآمد ہونا بالآخر اب یقینی ہوتا بتایا جارہا ہے۔ مراد علی شاہ کی "گرفتاری" کے بعدسندھ کا نیا وزیر اعلیٰ لانے کی بات چل نکلی ہے۔ شنید ہے کہ اس ضمن میں سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی ویسا ہی کردار ادا کرنے کو تیار ہوگئے ہیں جو ایک زمانے میں سابق صدر کے بچپن کے دوست ذوالفقار مرزا نے 2011 سے ادا کرنا شروع کیا تھا۔ اتفاق سے آغا سراج درانی بھی آصف علی زرداری کے ذوالفقار مرزا جیسے قریبی دوست شمار ہوتے ہیں۔ سندھ کے کئی ناراض اور حسد میں مبتلا لوگ بلکہ برسوں سے اپنے صوبے میں آصف زرداری، ذوالفقار مرزا اور سراج درانی پر مشتمل Troika کی حکمرانی کا گلہ کرتے رہے ہیں۔ ذوالفقار مرزا کے بعد اب آغا سراج درانی کی "جدائی" کا انتظار ہورہا ہے۔
نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ اور ابھی تک آصف علی زرداری کے "مکمل کنٹرول" میں تصور ہوتی پیپلز پارٹی میں "فارورڈبلاک" کا نمودار ہونا ہماری تھانے کچہری کی Hostage ہوئی سیاست میں کوئی نئی بات ہرگز نہیں ہوگی۔ ہمارے سیاسی منظر نامے میں فارورڈ بلاکس کی بدولت مگر جو ارتعاش پیدا ہوگااس سے مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجائے گی۔ مودی کے لئے آسان ہوجائے گا کہ وہ عالمی میڈیا میں 25دنوں سے جاری لاک ڈائون کے بارے میں توانا تر ہوتی "تشویش" کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے موسمِ سرما کے آغاز تک کشمیریوں کو ایک وسیع وعریض جیل میں محصور رکھے۔ ان تک یہ پیغام پہنچائے کہ ان کی مشکلات کے ازالے کے لئے "اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا"۔ بہتر یہی ہے کہ وہ سرجھکا کر آرٹیکل370 کے خاتمے کی وجہ سے پیدا ہوئے حقائق کو سرجھکاکر تسلیم کرلیں۔
امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخاب کے لئے ممکنہ طورپر ایک طاقت ور ترین امیدوار تصور ہوتے برنی سینڈرز کا مقبوضہ کشمیر کے بارے میں دو ٹوک بیان بھارت کے لئے یقینا بہت ندامت کا باعث ہوگا۔ کشمیریوں کی حالیہ اذیت کو برملا انداز میں اس سے قبل امریکی کانگریس کی ایک ڈیموکریٹ رکن الحان عمر نے امریکی عوام کے روبرو لانے کی کوشش کی تھی۔ صومالیہ سے مہاجرہوکر امریکہ میں پناہ گزین ہوئی الحان عمر کے بیانات سے ٹرمپ بہت ناراض رہتا ہے۔ اس کے خلاف اپنے جلسوں میں نسل پرست نعروں کی مکاری سے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
تاریخی اعتبارسے ڈیموکریٹ جماعت کو ہمیشہ بھارت نواز تصور کیا گیا۔ الحان عمر کے بعد برنی سینڈرز کی طاقت ور ترین آواز نے اب ایک حوالے سے گویا تاریخ بدل دی ہے۔ اس تاریخی تبدیلی کے بارے میں شاداں ہوتے ہوئے مجھے لیکن یہ خدشہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ فقط برنی سینڈرز کے "سوشلزم" سے بے پناہ نفرت کے سبب مودی کے وحشیانہ لاک ڈائون کا دفاع کرنا شروع کردے گا۔ بھارتی حکومت کے اس دعویٰ کو مسلمانوں کے خلاف تعصب کی آگ میں بلاچوںوچرا تسلیم کرلے گا کہ "لاک ڈائون" کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ایسے ہنگامے نہیں پھوٹے ہیں جن پر قابو پانے کے لئے قابض افواج کو لاشیں گرانا پڑتیں۔ "لاک ڈائون" درحقیقت ایک "انسانی المیے" کو جنم دینے سے روکنے میں معاونت کا کردار ادا کررہا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر فرانس میں نریندرمودی سے حالیہ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کیمروں کے سامنے یہ اعلان کیا کہ بھارتی وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات اس کے "قابو" میں ہیں۔ امریکی صدر ان پر اعتبار کرتا سنائی دیا۔
Optics کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہفتے کے دن ہانگ کانگ میں ہوئے واقعات نے بھی مجھے اس خوف میں مبتلا کردیا کہ اگر وہاں ہنگاموں میں موجودہ شدت برقرار رہی تو عالمی میڈیا کی توجہ مقبوضہ کشمیرسے ہٹ کر اس جزیرے کی صورت حال کی جانب مبذول ہوجائے گی۔
مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈائون پر فوکس کو برقرار رکھنے کی خواہش میں ہمارے لئے پریشانی کا سبب افغانستان کے شہر قندوز پر طالبان کی جانب سے ہفتے کے روز ہوا حملہ بھی ہونا چاہیے۔ اس حملہ کی وجہ سے زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل نہ دے پایا اور رات گئے کابل پہنچ گیا۔ قندوز کا واقعہ "قابو" میں آتانظرنہ آیا تو امریکہ اور نیٹو افواج کو طالبان سے صلح کا معاہدہ کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ایک نئی صورت حال نمودار ہوجائے گی جو اس خطے میں امن کی نوید سنانے کے بجائے حالات کو گھمبیر ترکرتی نظر آئے گی۔