اپنے محلے میں ایک پنجابی محاورے کے مطابق کوئی بھی "شیر" ہونے کی بڑھک لگاسکتا ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم صاحب نے مگر چند ہی سال قبل اپنی قانونی مہارت برطانیہ میں ثابت کی تھی۔ ان کی جماعت کے "بانی" کو منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت سکاٹ لینڈ یارڈ نے گھیرنے کی کوشش کی تو لندن پہنچ گئے اور "بانی" کو جیل جانے سے بچالیا۔
یہ دریافت کرنے میں اگرچہ فروغ نسیم صاحب کو بہت دیر لگی کہ جس "رہ نما" کو بچایا تھا وہ پاکستان سے مخلص نہیں ہے۔ اس سے جدا ہوکر اس ایم کیو ایم کا حصہ بن گئے جو محب وطن ہونے کی دعوے دار ہے اور نظر بظاہر مڈل کلاس کے صاف، شفاف اور پڑھے لکھے مہذب لوگوں پر مشتمل ہے۔
اگست 2018 میں اپنی حکومت کے استحکام کے لئے عمران خان صاحب کو اس جماعت کی حمایت درکار تھی۔ ایم کیو ایم (پاکستان) نے دل وجان سے آمناََ وصدقناََ کہا اور اس کے عوض اپنے سینیٹر فروغ نسیم کو وزیر قانون بنوالیا۔
بیرسٹر صاحب دھیمے مزاج کے آدمی ہیں۔ ان کے دل ودماغ میں لیکن وطنِ عزیز کو گڈگورننس فراہم کرنے کی بے پناہ تڑپ موجود ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کو بھی "نیا پاکستان" بنانا ہے۔ آئین اور قانون کی کتابوں میں طے شدہ چند قواعد وضوابط مگر "نظام کہنہ" کو تقویت پہنچاتے نظر آتے ہیں۔ پارلیمان کے ووٹوں کی محتاج حکومتیں ماورائے آئین اقدامات کے ذریعے انقلاب برپا کر نہیں سکتیں۔ ضروری ہوجاتا ہے کہ آئین وقانون کی کتابوں کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے نئے راستے نکالے جائیں۔ فروغ نسیم صاحب میں ایسے راستے نکالنے کی صلاحیت قابل رشک حد تک موجودہے۔
عمران حکومت کو گڈگورننس ڈیلیور کرنے کے لئے جب بھی کسی قانونی الجھن کا سامناکرنا پڑتا ہے تو فروغ نسیم صاحب جھٹ سے آرڈیننس تیار کردیتے ہیں۔ صدر کے فوری دستخط سے وہ "قانون بن کر لاگو ہوجاتا ہے۔ اپوزیشن کے رضا ربانی جیسے "آئینی ماہر" ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ یہ انتظار کرنے کو مجبور کہ مذکورہ آرڈیننس سینٹ سے منظوری کے لئے پیش ہو تو اسے حکومت مخالف اراکین کی اکثریت کے بل بوتے پر نامنظور کردیا جائے۔ "تیری زلف کے سرہونے تک" مگر طویل انتظار ضروری ہے جس کے دوران حکومت اپنا مقصد کسی نہ کسی طورپر حاصل کرلیتی ہے۔
فروغ نسیم صاحب کی ذہانت وفطانت مگر سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج کو ابھی تک Fast Track انداز میں فارغ نہیں کرپائی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے بھی آرڈیننس کے بل بوتے نامزد ہوئے دوافراد کا حلف اٹھانے سے انکار کردیا۔ سنا ہے اس انکار کی پاداش میں ان کے خلاف بھی ریفرنس تیار ہوگیاہے۔ یہ سب مگر دقیق قانونی معاملات ہیں۔ میری اور آپ کی فہم سے بالاتر۔
کراچی مگر پاکستان کا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا شہر ہے۔ ٹی وی پروگراموں کی ریٹنگ بھی اس شہر میں میٹروں کی محتاج ہے۔ اسی باعث اس شہر میں لگے کچرے کے ڈھیر ہیڈلائن نیوز بناتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز کے لئے روشنیوں کے شہر میں گڈگورننس کے فقدان پر ماتم کنائی ضروری ہوجاتی ہے۔ سکرینوں پر چھائی سیاپا فروشی حکمرانوں کو بالآخر "کچھ کرنے" کو مجبور کردیتی ہے۔
تحریک انصاف کو ویسے بھی جولائی 2018کے انتخابات کے دوران اس شہر سے تاریخی مینڈیٹ نصیب ہوا تھا۔ وہ اس شہر کے مسائل پر توجہ دینے کو مجبور ہے۔ یہ عذرتراشتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے فرارحاصل نہیں کرسکتی کہ آئین میں ایک اٹھارویں ترمیم بھی ہے۔ اس ترمیم نے صوبائی حکومت کو مقامی مسائل کے حل کے لئے اجارہ داری نظر آتے اختیارات دئیے ہیں اور تحریک انصاف کی بنیادی مشکل یہ ہے کراچی سے بے پناہ حمایت حاصل کرنے کے باوجود وہ سندھ میں حکومت نہ قائم کرپائی۔ پیپلز پارٹی کے "وڈیرے" بدستور صوبائی حکومت پر قابض ہیں۔ ان میں سے ایک شخص بھی اس قابل نہیں کہ پنجاب کے عثمان بزدار صاحب کی طرح ایک پسماندہ علاقے سے نمودار ہوکر لاہور کو صاف ستھرا اور جدید ترین شہر بنائے رکھے۔
کراچی میں امن وامان کو آپریشن ضرب عضب کے تحت قائم بندوبست کے ذریعے بحال کیا گیا تھا۔ اس شہر کی صفائی مگر Apexکمیٹی کی ذمہ داری نہیں تھی۔ پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے "بابارحمتے" نے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس شہر کا بظاہر اب کوئی والی وارث نہیں رہا۔
"بابا رحمتے" جیسی متحرک شخصیت کی ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی کے بنیادی شہری مسائل حل کرنے کے ضمن میں جو خلا پیدا ہواہے اسے پُرکرنا ضرور ی تھا۔ فروغ نسیم صاحب کے زرخیز ذہن نے لہذا اس حوالے سے آئینی راستہ بھی ڈھونڈ لیا ہے۔ آرٹیکل 149کی شق 4وزیر قانون کی دانست میں وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کراچی میں کچرے کے ڈھیروں کو صاف کرنے اور وہاں کے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لئے انتظامی بندوبست کو براہِ راست اپنی نگرانی میں لے آئے۔ ان کے مشورے پر عمل ہوا تو کراچی "وفاق کے زیر انتظام" علاقہ شمار ہونا شروع ہوجائے گا۔ کئی برسوں تک ہمارے قبائلی علاقوں کو یہ امتیاز حاصل تھا۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں لیکن بالآخر تحریک انصاف نے 2013 سے 2018 کے درمیانی سالوں میں مثالی حکومت قائم کردی۔ اب قبائلی علاقے مذکورہ صوبے میں ضم ہوکر اچھی حکومت سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
کراچی کا یقینا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ ایک صاف ستھرا، خوش حال اور پرامن شہر نظر آئے۔ تحریک انصاف کے پاس اگر اسکا مقدر وفاقی حکومت کے "آئینی اختیارات" کے ذریعے سنوارنے کی صلاحیت موجود ہے تو اس کی نعمت سے حیدرآباد، سکھر اور نواب شاہ جیسے شہروں کو کیوں محروم رکھا جائے؟ا ن شہروں میں رہنے والے بھی پاکستانی ہیں۔ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 149کی شق 4کے تحت میسر امکانات کو فقط کراچی تک کیوں محدود رکھنا چاہ رہی ہے؟
گڈگورننس کی خاطر اپنے "آئینی اختیارات" کو فقط کراچی تک محدود رکھتے ہوئے وفاقی حکومت "دیہی" اور "شہری" سندھ کی تفریق اجاگر کرتی محسوس ہوگی۔ 1980کی دہائی سے "دیہی" سندھ میں یہ سوچ اجاگر ہوئی تھی کہ کراچی کو سندھ سے "جدا" کرکے "ہانگ کانگ" بنایا جارہا ہے۔ اس سوچ نے کئی برسوں تک سندھ میں حکومتی نظام کو مفلوج بنائے رکھا۔ 2015سے بہت لگن کیساتھ اس نظام کو بحال کرنے کی کوشش جاری ہے۔ چند خوش گوار نتائج نظر آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔
ایم کیو ایم(پاکستان) کے کوٹے سے وزیر قانون بنے فروغ نسیم صاحب اگر آرٹیکل 149کی من مانی تشریح کے ذریعے کراچی کو صاف وشفاف بنانا شروع ہوجائیں گے تو سندھ میں ماضی کے بے تحاشہ زخم دوبارہ کھل جائیں گے۔ گڈگورننس کو فقط کراچی تک محدود کرنے کی خواہش سے لہذا گریز کریں۔
پیپلز پارٹی اگر سندھ میں اچھی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہی ہے تو فروغ نسیم صاحب کے شفیق اور زرخیز ذہن کو آئین اور قانون کی کتابوں سے کوئی ایسی راہ نکالنا ہوگی جو کراچی ہی نہیں پورے سندھ کو "برے، نااہل اور بدعنوان" حکمرانوں سے نجات دلائے۔ آصف علی زرداری نیب کی تحویل میں جاچکے ہیں۔ مراد علی شاہ کی گرفتاری کے لئے بھی نیب کے ذرائع "ٹھوس مواد" میسر ہوجانے کی نوید سناتے رہتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے "تسلط سے آزاد" ہوئی پیپلز پارٹی میں سے کوئی عثمان بزدار صاحب جیسا "وسیم اکرم پلس" ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ وہ مل جائے تو وفاقی حکومت اپنے تمام تر اختیارات ووسائل اسے توانا تر بنانے پر مرکوز کرے۔ فقط کراچی کو وفاق کی نگرانی میں کیوں چلایا جائے؟ وفاقی حکومت کے پاس موجود گل وثمر سے باقی سندھ کے شہریوں کو محروم رکھنا ناانصافی ہے۔