اتوار کی رات سونے سے قبل ارادہ باندھا تھا کہ پیر کی صبح اُٹھ کر جو کالم لکھوں اس کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صفوں میں موجود "انقلابی" جمہوریت پسندوں اور صوبائی خودمختاری کے محافظوں کو چند عاجزانہ مشورے دوں۔ خبر گرم ہے کہ آئین کی 18 ویں ترمیم کو "درست" کرنے کا اہتمام ہورہا ہے۔ ممکنہ نظرثانی کا عمل پارلیمان ہی کے ذریعے ہوگا۔ اس کے مبینہ نقائص درست کرنے کے لئے آئین میں مزید ترامیم درکار ہوں گی۔ انہیں پاس کروانے کے لئے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اٹھارویں ترمیم کی نوک پلک درست کرنے کی خبر منظرِ عام پر آئی تو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے میرے چند بہت ہی محترم اور عزیز دوست چراغ پا ہوگئے۔ اپنے بیانات اور ٹی وی پروگراموں میں شرکت کے ذریعے سینہ پھلاکر "سوال ہی پیدا نہیں ہوتا" جیسی بڑھک لگانے لگے۔ ان دنوں نائب وزیر اعظم کی صورت نظر آتے اسد عمر صاحب ان بیانات کے بارے میں ہرگز پریشان نہ ہوئے۔ ابن انشاء کی طرح "ہم چپ رہے-ہم ہنس دئیے-منظور تھاپردہ تیرا" والا رویہ اپنالیا۔
اسد عمر صاحب کو بخوبی علم ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے پارلیمان کے ذریعے عمران حکومت کو سہولت پہنچاتے قوانین کیسے منظور کروائے جاتے ہیں۔ سینٹ میں اپنی بھاری بھر کم اکثریت پر بھروسہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے "حقیقی جمہوریت" کے شیدائی اراکین نے اس ادارے کے چیئرمین صادق سنجرانی صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروادی تھی۔ سنجرانی صاحب کی فراغت ہم سادہ لوحوں کو اس کی وجہ سے یقینی نظر آئی۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں میں سے 15 افراد مگر جب پولنگ بوتھ کی تنہائی میں بیلٹ پیپر پر مہر لگانے گئے تو ان کے ضمیر جاگ اُٹھے۔ سنجرانی صاحب اپنے عہدے پر بدستور براجمان ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں ابھی تک یہ طے نہیں کر پائی ہیں کہ پولنگ بوتھ کی تنہائی میں اپنے ضمیر کے آگے سرنگوں ہونے والے افراد کون تھے۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوچکا ہے۔
سنجرانی صاحب کے خلاف آئی تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری پولنگ بوتھ کے پردے میں اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ اس واقعہ کے چند ماہ بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے ریٹائرہونے سے قبل جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے ریاست کے ایک اہم ادارے کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر پریشان کن سوالات اٹھادئیے۔ مذکورہ معاملے کو قانون سازی کے ذریعے "باقاعدہ" بنانے کا تقاضہ ہوا۔ عمران حکومت کے کئی ناقدین پارلیمان میں ٹھوس اعدادوشمار کی بنیاد پر نظر آنے والے حقائق کی وجہ سے یہ دعویٰ کرنا شروع ہوگئے کہ حکومت مطلوبہ قانون منظور نہیں کرواپائے گی جبکہ اس قانون کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ دونوں ایوانوں میں محض سادہ اکثریت درکارتھی۔ قومی اسمبلی سے عمران حکومت کو اس ضمن میں کسی دشواری کا سامنا نظر نہیں آرہا تھا۔ محاورے والی "گوٹ" مگر سینٹ میں ہر صورت پھنستی نظر آئی جہاں اپوزیشن جماعتوں کو بھاری اکثریت میسر ہے۔ دونوں ایوانوں سے مطلوبہ قانون مگر 12-12 منٹ کی تاریخی عجلت میں پاس ہوگیا۔
سنجرانی صاحب کی بچت اور مذکورہ قانون کی تاریخی سرعت کے ساتھ منظوری کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پا رٹی کے "انقلابیوں" کو سینہ پھلاکر بڑھکیں لگانے سے قبل سوبار سوچنے کی عادت اپنالینی چاہیے تھی۔ یہ اعتراف کرلینے میں اب کوئی حرج نہیں کہ ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں نے"اسی تنخواہ" پر گزارہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ عمران حکومت اپنی ترجیح اور سہولت کے لئے جو قانون بھی ضروری سمجھے "چوروں اور لٹیروں " کے نخرے اٹھائے بغیر بآسانی منظور کرواسکتی ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں بڑھکیں لگانے والے قانون سازی کے عمل کے دوران اپنی قیادت کی ہدایت پر فقط "منظور ہے" کی آواز ہی لگاسکتے ہیں۔
آئین کی اٹھارویں ترمیم جسے "تاریخ ساز" کہا جاتا ہے وطن عزیز میں اقتدار واختیار کی تقسیم کے حوالے سے کون سے "مسائل" کھڑے کررہی ہے ان کا تذکرہ آج کے کالم میں تفصیلات سمیت ہونہیں سکتا۔ پیر کی صبح میں بادل کی کڑک دار گرج کی وجہ سے اٹھا ہوں۔ بستر سے اُٹھ کر کھڑکی کے پردے ہٹائے تو موسلادھار بارش شروع ہوچکی تھی۔ یوں گماں ہوا جیسے بہار کے بعد گرما کا آغاز نہیں ساون شروع ہوگیا۔ اپریل کے مہینے اور خاص طورپراس کے اختتامی ایام میں ساون کی یاددلاتی بارشیں "بے موسمی" کہلاتی ہیں۔ یہ بارانی علاقوں میں گندم کے سٹے کو وہ توانائی نہیں پہنچاتیں جو غذائی اعتبار سے اہم ترین تصور ہوتی ہے۔ کم از کم ایک چوتھائی فصل تباہ بھی ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی مگر خوش نصیبی ہے کہ پنجاب اور سندھ کے جن رقبوں میں گندم کاشت ہوئی تھی وہاں اس سال گزشتہ برس کے مقابلے میں اوسطاََ ایک ایکڑ سے 4سے 7 من زیادہ "دانے" میسر ہوئے ہیں۔ پنجاب کے بالائی علاقوں میں گندم کا جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ قدرتی طورپر ہوگیا۔ یہ "ازالہ" مگر Supply Chain کے تناظر میں ہوا ہے۔ بارانی علاقوں میں چھوٹے رقبے والا کاشت کار اگرچہ رُل گیا ہے۔
پاکستان میں گندم کی مجموعی پیداوار میں کمی کے خدشات کو نظراندازکرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کر نا چاہیے کہ بے موسمی بارشوں نے سرسوں اور چنے کی فصل کو تقریباََ تباہ کردیا ہے۔ کرونا کی وجہ سے عائد ہوئے لاک ڈائون سے بھکر جیسے علاقوں میں چنے کی بروقت کٹائی کا بندوبست بھی نہیں ہوپایا۔
بے موسمی بارشوں کی وجہ سے چھوٹے رقبوں کے مالک گندم کی کٹائی کے بعد اپنی زمینوں میں وہ بیج بھی نہیں لگاپائے جو گرمیوں سے مختص سبزیوں کی پیداوار کو یقینی بناتے ہیں۔ جن زمینوں میں ان سبزیوں کی پنیری لگی تھی وہ بارش کا پانی اپنے ساتھ بہالے گیا۔ تیزدھوپ کے کئی دن گزرجانے کے بعد ہی ان سبزیوں کے بیج یا پنیری ازسرنولگانے کی ضرورت ہوگی۔ گرمیوں کے موسم میں لہذا اکثر سبزیاں اجتماعی طلب کے مطابق بازار میں میسر نہیں ہوں گی۔ کرونا کی وجہ سے سنگین تر ہوئی کسادبازاری اور بے روزگاری کے دنوں میں ان کی قیمتیں دیہاڑی دار اور کم آمدنی والے افراد کے لئے جان لیوا محسوس ہوں گی۔
گزشتہ دنوں ایک کالم میں عرض کرچکا ہوں کہ لاک ڈائون کی وجہ سے بند ہوئے ریستورانوں اور دھابوں نے پولٹری کا دھندا برباد کردیا ہے۔ مرغ کا گوشت اسے پیدا کرنے کی لاگت سے آدھی قیمت پر فروخت ہوا۔ منافع کی امید سے قطعاََ محروم ہوئے پولٹری فارم والے ٹرکوں میں چوزوں کو بھرکر کنوئیں، گہرے کھڈوں یا پانی میں بہاتے رہے۔ مرغی اور انڈوں کی پولٹری فار م میں پیداوار کا عمل Layers بچھانے سے شروع ہوتا ہے۔ اسے بچھانے کے بعد 8سے 9ماہ تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔ پولٹری فارمز کی بے پناہ اکثریت نے گزشتہ چند ہفتوں سے Layers بچھانا چھوڑ دی ہیں۔ جب سردیوں کا موسم شروع ہوگا تو ہماری اجتماعی طلب کے مطابق مرغ اور انڈے بازار میں دستیاب نہیں ہوں گے۔ غذائی بحران کے علاوہ یہ حقائق پولٹری کے دھندے سے متعلق ہزاروں گھرانوں کو دیوالیے کی جانب دھکیل دیں گے۔
ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں ٹھوس بنیادوں پر سنگین تر ہوتے ممکنہ بحرانوں کا ذکر ہی نہیں ہورہا۔ ہمارے دیہات میں کئی گھرانے اوسطاََ دو سے تین بھینسیں یا گائے بھی پالتے ہیں۔ ان کا دودھ فروخت کرکے وہ خود کو نسبتاََ خوش حال محسوس کرتے ہیں۔ عمران حکومت کے قیام کے بعد پراپرٹی کے دھندے میں کسادبازاری نمودار ہوئی تو کئی پراپرٹی ڈیلروں نے بھی شہروں سے ملحق قصبات میں زمین کے ٹکڑے خریدکر یا انہیں کرایے پر لے کر دودھ کی سپلائی کا کاروبار جمانے کی کوشش کی۔ گزشتہ چھ ہفتوں سے دودھ کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہوگئی ہے۔ ہمارے بے تحاشہ دیہات میں بھینسوں کے مالک سمجھ ہی نہیں پارہے کہ روزانہ پیدا ہونے والے دودھ کا کیا کریں۔
دودھ کو زیادہ دنوں تک محفوظ نہیں رکھا جاسکتا۔ اس سے بنائی دہی بھی چند روز ہی چل سکتی ہے۔ کئی دیہات میں لوگ دودھ کو زمین پر بہاتے پائے گئے ہیں۔ چند ذہین لوگوں نے اگرچہ وافر دودھ سے "خالص دیسی گھی" بناکر اسے جمع کرنا شروع کردیا۔
دودھ کی پیداوار سے متعلق جو اکانومی ہے اسے بیان کرنے کے لئے مجھے ایک تفصیلی کالم لکھنا ہوگا۔ آج کے روز محض یہ فریاد کررہا ہوں کہ 18ویں ترمیم کے بارے میں ہمارے حکمرانوں کی جو بھی خواہش ہے اسے جلد ازجلد پورا کریں۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی اس ضمن میں غیر مشروط تعاون پیش کردیں گی۔ اپوزیشن جماعتوں کی بے بسی اور عاجزی سے لطف اندوز ہوجائیں تو خدارا سرکار کی تمام تر توجہ یہ جاننے کو مبذول کردیں کہ روزمرہّ زندگی میں لاکھوں گھرانوں کے لئے پاکستان جیسے "زرعی ملک" کے لئے مختلف النوع شعبوں میں کس نوعیت کے سنگین تر بحران نمودار ہونے کے منتظر ہیں۔