پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا سورج بامِ عروج پر تھا اور ملک میں عقل و ہوش اور تحمل و بردباری کی خو میں پروان چڑھی ہوئی سیاسی قیادت آئے دن کے حکومتی مظالم اور بے رحمانہ ہتھکنڈوں کی وجہ سے مایوسی کے اتھاہ سمندر میں غرق ہوتی جا رہی تھی۔ ہر کوئی سمجھتا تھا کہ بھٹو نے چونکہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے، اس لئے اب وہ اس ملک میں اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو قوت کے ساتھ کچل کر رکھ دے گا اور کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔
فوج 1971ء کے سانحے کی وجہ سے عوامی ردّعمل کا سامنا نہیں کر پا رہی تھی، اسی لئے وہ بسروچشم ہر جائز و ناجائز واقعے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی۔ ویسے بھی آئی ایس آئی کا سیاسی رنگ تو خود "آنجناب" بھٹو کی اختراع اور ایجاد ہے، جو اس کی حکومت کے آخری ایّام میں محدود قسم کی سیاسی انجینئرنگ کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس سے پہلے نہ ایسے آئی ایس پی آر تھا نہ کوئی اور واضح گفتگو۔
بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو اس کا پہلا نشانہ بالکل آج کے دَور کی طرح صحافی ہی بنے۔ اس نے ہر اُس آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی جو جاندار اور توانا تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے مہینے کے اندر ہی روزنامہ "ڈان" کے ایڈیٹر الطاف گوہر کو 5 فروری 1972ء کو گرفتار کر لیا گیا اور 13 فروری کو رسول بخش تالپور نے مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے کہا کہ "اخبارات کا روّیہ قابلِ گرفت ہے اور بعض کو قومی تحویل میں لیا جا سکتا ہے"۔
بیوروکریسی کو خوفزدہ کرنے اور انہیں ناجائز حکم ماننے پر مجبور کرنے کے لئے بھٹو نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات استعمال کئے اور 12 مارچ 1972ء کو چودہ سو اعلیٰ سول آفیسران کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کر دیا۔ اس برطرفی میں ذاتی نفرت کا عمل دخل اس قدر تھا کہ پیپلز پارٹی والوں کو چونکہ کراچی یونیورسٹی شعبہ تصنیف و تالیف کے سربراہ آفتاب حسن اور آئی جی اے کے چیئرمین ڈاکٹر مختار جیسے بے ضرر افراد کے نظریات پسند نہ تھے، اس لئے انہیں بھی نکال دیا گیا۔
چند ہفتے بعد 5 اپریل 1972ء کو دائیں بازو کے "اُردو ڈائجسٹ" اور بائیں بازو کے "پنجاب پنچ" پر پابندی لگا کر ان کے مدیروں اور ناشران الطاف حسن قریشی، اعجاز قریشی، مجیب الرحمن شامی اور حسین نقی کو گرفتار کر لیا گیا اور فوجی عدالت سے ہر ایک کو ایک سال قید بامشقت اور دو لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔ بھٹو کے مارشل لاء کا اقتدار جاری تھا، مگر ساتھ ہی قومی اسمبلی کے اجلاس بھی منعقد ہوتے، جن میں مخالف گفتگو پر بھٹو کا آمرانہ ذہن سیخ پا ہوتا رہتا۔
سب سے بلند آہنگ آواز جماعت اسلامی کے درویش صفت رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد کی تھی جو ڈیرہ غازی خان کے سرداروں اور تمن داروں کو شکست دے کر اسمبلی میں پہنچے تھے۔ انہیں بھٹو کے اقتدار کے آنے کے چھ ماہ کے اندر 8 جون 1972ء کو شہید کر دیا گیا۔ اسمبلی کا رکن قتل ہوا، لیکن بھٹو نے نہ خود رسمی تعزیتی الفاظ ادا کئے اور نہ ہی اسمبلی میں ایسا کرنے دیا گیا۔ جیسے ہی بھٹو کے مارشل لاء کا ایک سال، 20 دسمبر 1972ء کو مکمل ہوا تو اپوزیشن نے اسے یومِ سیاہ کے طور پر منایا۔
لاہور میں ایئر مارشل اصغر خان کی قیادت میں نکلنے والے جلوس پر "نامعلوم افراد" نے فائرنگ کی جس کی زد میں آ کر خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ محمد رفیق شہید ہو گئے۔ اپوزیشن کے متحدہ جمہوری محاذ نے 23 مارچ 1973ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ منعقد کیا۔ اس پر ویسے ہی "نامعلوم افراد" کے ذریعے اندھا دھند فائرنگ کروائی گئی۔ فائرنگ کے وقت سٹیج پر مفتی محمود، ولی خان، بزنجو، نوابزادہ نصر اللہ و دیگر موجود تھے۔ اس بہیمانہ واقعے میں نو بے گناہ افراد شہید اور 75 زخمی ہوئے۔
طاقتور بھٹو اب غدّار غدّار کھیلنے لگا۔ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتیں تھیں جو بھٹو کے آمرانہ ذہن کے لئے ناقابلِ برداشت تھیں۔ لندن ٹائمز میں ایک خوفناک منصوبے کا انکشاف "کروایا" گیا۔ منصوبہ یہ بتایا گیا کہ پاکستان سے عبدالولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل، محمود ہارون، احمد نواز بگٹی، نبی بخش زہری اور ملک غلام جیلانی علاج کا بہانہ بنا کر لندن گئے ہیں اور ایک ایسی سازش کا پلان تیار ہوا ہے جس کے تحت چاروں صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چلائی جائیں جس کے نتیجے میں ملنے والی آزادی کے بعد ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن بنائی جائے گی۔ دس سال تک پاکستان کا نام ہی بحال رکھا جائے اور پھر شیخ مجیب الرحمن سے مل کر اسے اپنا لیڈر تسلیم کر لیا جائے۔ خبر کی اشاعت پر تمام لیڈر فوراً سیخ پا ہوئے اور انہوں نے اس کی تردید کر دی۔ لیکن غدّار بنا کر اقتدار سے محروم کرنے کا کھیل تو روکا نہیں جا سکتا تھا۔
ایک اور کردار، نواب اکبر بگٹی نے 31 جنوری 1973ء کو لاہور کے موچی دروازے میں پنجابیوں کا خون گرمانے کے لئے ایک تقریر کی کہ عطاء اللہ مینگل، بزنجو اور خیر بخش مری نے سوویت یونین کے ساتھ مل کر ایک سازش تیار کی جس کے نتیجے میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کیا جائے گا۔ اس الزام کا بہانہ بنا کر بلوچستان میں قائم عطاء اللہ مینگل کی حکومت ختم کر دی گئی اور احتجاجاً صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمود کی حکومت نے استعفیٰ دے دیا۔ اب تاریخی غدّاری والا حیدر آباد کیس شروع ہوا جس میں حبیب جالب بھی غدّارِ وطن کہلایا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا سارا دَور بالکل ایسا ہی تھا کہ ہر حریت فکر اور آزادیٔ اظہار رکھنے والے شخص کو اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر اور بھٹو مخالف طلبہ کے ہراوّل دستے کا قائد تھا۔ اس کے بارے میں بھٹو کا تاریخی فقرہ آج بھی فضا میں گونجتا "Who is Hashmi, give him Kala Bagh Treatment" "یہ ہاشمی کون ہے، اس کے ساتھ کالا باغ والا سلوک کرو"۔ پھر شاہی قلعے میں لے جا کر اس پر بدترین تشدد کیا گیا۔
میں نے خود اس سے وہ پوری روئیداد سنی ہے جو رونگٹے کھڑے کرنے والی تھی۔ ملک محمد قاسم کنونشن مسلم لیگ سربراہ تھے۔ انہیں جیل لے جایا گیا اور ان کے ساتھ ایسا ہی غلیظ سلوک کیا گیا، جس طرح کے سلوک کا الزام آج شہباز گل لگا رہا ہے۔ ان کا جو بیان اخبارات میں شائع ہوا، اس میں شرم و حیاء کی وجہ سے وہ صرف اتنا کہہ پائے کہ "پوری رات چند اوباش غنڈے میری پشت پر اُچھل کود کرتے رہے"۔ جماعت اسلامی کے سربراہ میاں طفیل محمد انتہائی شریف الفنس انسان تھے۔ انہیں گرفتار کیا اور پھر ان کے ساتھ جیل میں ایسی تذلیل کی گئی کہ ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران وہ اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے زار و قطار رو پڑے۔
یہ ایسا منظر تھا، جس نے ججوں کی آنکھیں بھی آبدیدہ کر دیں۔ بھٹو کی آمریت کی خوفناکیت کا عالم یہ تھا کہ 4 جون 1975ء کو جب بھٹو نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے قوم کو ایک متفقہ آئین دیا ہے۔ تو اس پر احمد رضا قصوری نے طنزاً کہا "رتو ڈیرو سے منتخب ہونے والے یہ رکن اسمبلی غلط کہہ رہے ہیں، میں نے آئین پر دستخط نہیں کئے"۔ بھٹو طیش میں آ گیا اور اس نے قصوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
I had enough of this man, He is absolute poison, I will not tolerate him any mane."
"میں اس شخص سے تنگ آ چکا ہوں۔ یہ ایک مجسم زہر ہے۔ میں اب اسے ہرگز برداشت نہیں کروں گا"۔ اس کے بعد احمد رضا قصوری پر پانچ قاتلانہ حملے ہوئے۔ اور اسمبلی کی اس دھمکی کے صرف پانچ ماہ کے اندر، 11 نومبر 1974ء کو فائرنگ کے دوران احمد رضا قصوری خود تو محفوظ رہا لیکن ان کے والد نواب محمد احمد خان لقمۂ اجل بن گئے۔ (جاری ہے)