تخلیقِ پاکستان سے لے کر اب تک ہم عالمی طاقتوں کی کشمکش سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہم جغرافیے کے وہ قیدی ہیں جن کی رہائی ممکن ہی نہیں۔ ہمیں ایک بدترین اور سازشی ہمسایہ "بھارت" کی صورت ملا ہے اور "سونے پر سہاگہ" یہ کہ ہمیں ہمیشہ ذاتی مفادات کے لالچ میں ڈوبی ہوئی قیادتیں میسر آئیں، جنہوں نے ملکی مفادات کا بار بار سودا کیا اور بار بار اس مملکتِ خداداد پاکستان کی آزادی، حرّیت، استحکام، یہاں تک کہ مستقبل پر بھی گہری ضرب لگائی۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد دُنیا کے نقشے پر اُبھرنے والی قومی ریاستوں میں سے ہم شاید واحد مملکت ہیں جس کی اکثریتی آبادی نے ہمارے قیام سے صرف پچیس سال بعد ہی، 16 دسمبر 1971ء کو ہم سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ایسا انجام کسی نوزائیدہ ملک کے "نصیب" میں اس قدر جلدی نہیں آیا۔ اس المیے کی دُکھ بھری داستان کے لاتعداد فریق تو واضح ہیں اور بے شمار ابھی تک صیغۂ راز میں ہیں۔ اس خطرناک کھیل میں بحیثیت گروہ جو کردار سیاست دانوں نے ادا کیا اور جو حصہ اس دَور کی اسٹیبلشمنٹ نے ڈالا ہے وہ "ناقابلِ فراموش" ہے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ کا "لاڈلا فیلڈ مارشل ایوب خان"، جس کے بارے میں امریکی بحریہ کی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر نے 23 ستمبر 1953ء کو امریکہ کے جائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئرمین ایڈمرل ڈبلیو راڈفوڈ (W. Radford)کو اپنی سفارشات کے ساتھ ایک مثبت رپورٹ تحریر کر کے، اس کے اقتدار کی راہ ہموار کی تھی، یہ شخص جب اپنے دس سالہ اقتدار کے آخری ایام میں عوامی احتجاج کے ہاتھوں بے بس ہو گیا اور اسے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہو گیا کہ اس کے خلاف امریکہ نے اپنا نیا مہرہ ذوالفقار علی بھٹو تیار کر لیا ہے تو اس کی حالت دیدنی تھی۔
تاشقند کی راہداریوں میں جب ایوب خان کو محسوس ہوا کہ روس کا وزیر خارجہ "پوڈ گورنی" پاکستانی وزیر خارجہ "بھٹو" سے مصافحہ نہیں کرتا جو اس وقت تک اس کا منظورِ نظر تھا۔ تو ایوب خان نے اس رویے کی شکایت پاکستانی سفیر جمشید مارکر کے روبرو سوویت یونین کے سربراہ برزنیف سے کی، جس پر اسے یہ جواب ملا کہ تمہارا یہ "لاڈلا" رات کو امریکی سفیر کے پاس جاتا ہے اور ہماری باتیں اسے بتاتا ہے۔ تاشقند مذاکرات میں ایوب خان 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکی بے وفائی کا شدید صدمہ سینے میں چھپائے ہوئے تھا۔
امریکہ نے عین حالتِ جنگ میں اسلحہ کی سپلائی روک دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدہ کے اختتام کے بعد ایوب خان نے 29 ستمبر سے 4 اکتوبر 1967ء تک سوویت یونین کا طویل دورہ کیا، جس نے امریکی حکومت کے کان کھڑے کر دیئے۔ سوویت اعلیٰ قیادت جن میں برزنیف، پوڈگورنی اور کوسجین شامل تھے، وہ ایوب خان کو لے کر والو گریڈ (Volvograd) اور یالٹا (Yalta) کے نسبتاً دُور دراز اور خاموش علاقوں میں چلے گئے جہاں ایوب نے اعلیٰ روسی قیادت کے ساتھ کئی دن گزارے اور انہیں پختہ یقین دہانی کرا دی کہ وہ پشاور کے قریب واقع "بڈھ بیر" کا امریکی اڈہ ختم کر دے گا۔
واپسی پر فیلڈ مارشل ایوب خان نے امریکی سفارت خانے کو یہ اڈہ ختم کرنے کے لئے لکھ دیا۔ امریکی سفیر نے اس پر اپنی حکومت کی جانب سے "شدید مایوسی" کا پیغام پہنچایا، لیکن ایوب خان نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنا فیصلہ واپس لینے سے انکار کر دیا۔
روس سے پاکستانی تعلقات کا آغاز ہی امریکہ کو ناراض کرنے کے لئے کافی تھا۔ اس اقدام سے پاکستانی سیاست میں ایک دَم ہلچل پیدا کروا دی گئی۔ سیاسی اور صحافتی مہرے اشاروں پر چلنے لگے۔ پاکستان ٹائمز نے 13 جنوری 1966ء کو ایک مضمون شائع کیا جس میں تاشقند معاہدے کو ایک "قومی شکست" سے تعبیر کیا گیا۔ دوپہر تک ایوب خان کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے جن میں عوام صرف ایک نعرہ لگا رہے تھے۔ "ہمارے شوہر، باپ اور بھائی واپس کرو"۔
رات بھر فساد جاری رہا اور جب اس پر قابو پایا گیا تو چار لوگ مر چکے تھے، لاتعداد زخمی اور کئی سو جیل میں تھے۔ اس کے چند دن بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں میں عوامی سطح پر ایوب خان کے خلاف ایک منظم عوامی تحریک کا آغاز ہو گیا، جو آہستہ آہستہ زور پکڑنے لگی۔ مغربی پاکستان کی تمام اپوزیشن سیاسی پارٹیاں، فاطمہ جناحؒ کے الیکشنوں کے دنوں سے کسی موقعہ کی تلاش میں تھیں جو انہیں اب مل چکا تھا۔
یہ سب لوگ اپنے دَور کے اہم ترین سیاسی رہنما تھے۔ نوابزادہ نصر اللہ، مولانا مودودی، سردار شوکت حیات، ممتاز دولتانہ، خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، چوہدری خلیق الزمان، اور دیگر مغربی پاکستان میں سیاست کرتے تھے، لیکن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مولانا عبدالحمید بھاشانی ہی مقبول سیاسی رہنما تھے۔ ایوب خان کی حمایت میں مشرقی پاکستان سے صرف ایک ہی آواز تھی، نورالامین، جو اتنی موثر نہ تھی۔
تاشقند معاہدے کے بعد 6 فروری 1966ء کو اپوزیشن نے لاہور میں ایک اجلاس بلایا جس میں سات سو مندوبین شریک ہوئے، مگر مشرقی پاکستان سے صرف شیخ مجیب الرحمن اپنے 21 اراکین کے ساتھ شرکت کے لئے آیا۔ ایوب کی خفیہ ایجنسیاں کانفرنس میں ولی خان کی پارٹی کو اس سے دُور رکھنے میں کامیاب ہو گئیں۔ انہوں نے بہانہ یہ بنایا کہ یہ امریکی ایجنٹوں کی کانفرنس ہے۔ ایوب انتظامیہ نے سیاست دانوں کو کمزور اور منقسم سمجھ کر انہیں ڈیفنس آف پاکستان رولز 1965ء کے تحت غداری کے مقدموں میں گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
مغربی پاکستان کے تقریباً ہر بڑے سیاسی رہنما کو حراست میں لے لیا گیا۔ رہنمائوں کی گرفتاری کے بعد کی خلا کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی شعلہ بیانی سے پُر کیا۔ عوام اس کے پیچھے دیوانہ وار تھے اور یوں حالات مزید بگڑنے لگے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پختہ ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کا نشانہ اب شیخ مجیب تھا۔
شیخ مجیب الرحمن نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کے الیکشنوں کے دوران جس جانفشانی سے کام کیا تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ ایوب خان، مشرقی پاکستان میں الیکشن ہارا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کو غداری کے الزام میں پکڑ کر اس کی مقبولیت کو داغدار کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ بقول الطاف گوہر، ایوب خان نے خفیہ اداروں کے ذمے یہ کام لگایا کہ کوئی "سازش پکڑ کر دکھائو"۔ یہ ایک ایسا ٹارگٹ تھا جس کے لئے جھوٹ سچ بہت کچھ ملانا پڑتا تھا۔
دسمبر 1967ء میں ایوب خان نے مشرقی پاکستان میں چندرا گونا میں ایک کاغذ کی فیکٹری کا دورہ کرنا تھا۔ ملٹری انٹیلی جنس نے رپورٹ پیش کی کہ ایوب خان کے طیارے کو بم سے اُڑانے کی سازش تیار ہو چکی ہے اور بعض سول اور فوجی افسران بھارت سے مل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ دورہ منسوخ ہوا اور جنوری 1968ء میں شیخ مجیب الرحمن سمیت 35 افراد کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا جن میں تین سی ایس پی افسران، کچھ مسلح افواج کے افراد اور باقی عام بنگالی تھے۔ مقدمے کو "اگرتلہ سازش کیس" کا نام دیا گیا۔ حالات بگڑے تو سوویت یونین کا رہنما کوسجین 18 اپریل کو پاکستان آیا۔
ایوب خان سے تین گھنٹے طویل ملاقات نے امریکی ایوانوں میں شدید الارم بجا دیئے۔ ملاقات کے بعد ہونے والے معاہدوں میں مشرقی پاکستان میں بجلی گھر اور مغربی پاکستان میں سٹیل مل کے قیام نے امریکی غصے میں مزید اضافہ کیا۔ ملک میں ہنگامے زور پکڑتے گئے۔ تمام سیاسی رہنما جو کبھی ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے، آج ایوب کے خلاف متحد ہو چکے تھے۔ ادھر شیخ مجیب الرحمن کے خلاف "منہ زور" اسٹیبلشمنٹ نے مقدمے کی کارروائی بھی زور شور سے جاری رکھی۔ لیکن مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی مقبولیت نے پوری انتظامیہ کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ بے بس حکومتی مشینری کے سربراہ ایوب خان نے سیاسی حل کے لئے اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ گول میز کانفرنس بلائی۔
غداری والا اگرتلہ سازش کیس ختم کر دیا گیا اور شیخ مجیب الرحمن رہا ہوا اور وہ اپنے وفد کے ہمراہ کانفرنس میں شریک ہوا۔ لیکن یہ کانفرنس ایوب حکومت کے خاتمے کا آغاز ثابت ہوئی۔ بھٹو نے اس کے آغاز سے ہی اس کا بائیکاٹ کیا اور کانفرنس کے فوراً بعد شیخ مجیب الرحمن یہ کہہ کر متحدہ اپوزیشن سے علیحدہ ہو گیا کہ اس میں مشرقی پاکستان کی تو بات ہی نہیں سنی گئی۔
اب متحدہ اپوزیشن عوامی مقبولیت کے گراف سے گرتی چلی گئی اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ دو مقبول عوامی رہنمائوں مجیب اور بھٹو کے عوامی سیلاب کی زد میں ایسی آئی کہ ایوب کے استعفے کے سوا کوئی راستہ نہ مل سکا۔ (جاری ہے)