یہ دُنیا اپنے انجام کے بہت قریب ہے۔ آج سے صرف پچاس سال پہلے تک یہ موضوع صرف اہل مذہب خصوصاً تینوں ابراہیمی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے ان مخصوص علماء کی گفتگو میں نظر آتا تھا جنہوں نے آخرالزمان، دورِ فتن یا آرمیگاڈان کے بارے میں اپنے آپ کو مخصوص کر رکھا تھا۔ لیکن اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب سائنسدانوں نے زمین کی کھدائی اور اس کی تہوں کا مطالعہ شروع کیا تو وہ حیران و ششدر رہ گئے، اور اس نتیجے پر پہنچے کہ نہ تو یہ کائنات ازل سے موجود تھی اور نہ ہی یہ ابد تک قائم رہے گی۔
یہاں سے وقت کی گہرائی Deep time کا سائنسی تصور وجود میں آیا اور سائنس دان اس کائنات کے ممکنہ انجام کے بارے میں تحقیق کرنے لگے۔ اس ضمن میں آج تک بے شمار تھیوریاں گردش کرتی چلی آ رہی ہیں اور مختلف سائنس دان اپنے نت نئے تازہ مشاہدات اور انکشافات کی بنیاد پر اس کائنات کے واضح ممکنہ انجام پر مسلسل غوروخوض کر رہے ہیں۔ ان تصورات میں سے ایک تصور "Big Rip" کا ہے، یعنی ایک دن اس کائنات کے سیارے اور ستارے اور اجرام سب ایک دوسرے سے دُور ہوتے ہوئے بکھر جائیں گے، بے معنی ہو جائیں گے، یا پھر ان کا مقدر وسعتوں میں غرق اور فنا ہونا ہے۔
دوسرا تصور "Big Crunch" کا ہے جسے ماہرینِ طبیعات کے اس گروہ کی حمایت حاصل تھی جس کا سرکردہ سائنس دان راجر پنسورس (Roger Penrose) ہے۔ اس کے مطابق یہ کائنات مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہے اور ایک دن اس کے اجرام بکھر جائیں گے اور ان کا مادہ ایک روشنی میں بدل جائے گا۔ تیسرا تصور "Big bounce" کا ہے۔ اس تصور کے مطابق، یہ کائنات اختتام سے پہلے کسی طرح اُچھلے گی یا اُچھالی جائے گی، جیسے گیند زمین پر دے مارا جاتا ہے اور پھر ویسے ہی بکھر جائے گی جیسے اپنے آغاز میں ایک بڑے دھماکے کی صورت بکھر کر وجود میں آئی تھی۔
ان تمام تصورات کے نتیجے میں دُنیا کے دو اہم اختتام بتائے جاتے ہیں پہلا "Big Freeze" یعنی بہت بڑا انجماد، ایک ایسی حالت کہ جب تمام سیارے ایک دوسرے کی حدّت سے دُور ہو کر سرد ہو جائیں گے، جبکہ سب سے خوفناک صورتِ حال، کائنات کا گرمی و حدّت سے خاتمہ (Heat Death) ہے۔ یہ تصور مشہور سائنس دان لارڈ کیلون (Lord Kelvin) نے 1852ء میں اس دَور میں پیش کیا جب اس کائنات کی حرکی توانائی (Thermodynamics) کے قوانین وضع ہوئے تھے۔
آج ان تمام تصورات کو جدید ترین سائنسی مشاہدات اور جدید علوم کی روشنی میں پرکھا جا رہا ہے اور اس وقت اس کائنات کے انجام پر اتنی گفتگو مذہبی لوگ نہیں کر رہے، اتنی کانفرنسیں یہودی، عیسائی اور مسلمان نہیں منعقد کر رہے جتنی سائنسی کانفرنسیں اور ورکشاپ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عالمی سطح کے سائنس دان منعقد کروا رہے ہیں۔ سائنس اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اس کائنات کا ایک بامقصد آغاز تھا، اس کا ایک وقت مقرر تھا اور اب اس کا ایک بامقصد انجام ہونے والا ہے، جو بہت قریب ہے۔
سائنس، طبیعات اور مابعدالطبیعات کے اس علم کو دَور آخر کا علم (Eschatology) کہتے ہیں اور مسلمان گذشتہ چودہ سو سال سے اسے "علمِ آخر الزمان" کہتے چلے آ رہے ہیں۔ آخر الزمان کے دور کا دوسرا نام "دورِ فتن" بھی ہے، کیونکہ سیدالانبیاء ﷺ نے قیامت برپا ہونے سے پہلے کے ادوار کے بارے میں جتنی بھی پیش گوئیاں کی ہیں، یا جتنی بھی علامات بتائی ہیں ان میں لاتعداد فتنوں سے اُمت کو خبردار کیا ہے۔ علاماتِ قیامت کو "اشراط الساعتہ" کہتے ہیں اور انہیں چھوٹی بڑی بے شمار علامتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
آخرالزمان کے اس علم کا سب سے بڑا مآخذ رسول اکرم ﷺ کا ایک طویل خطبہ ہے۔ "حضرت عمرو بن اخطب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے، ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا، یہاں تک کہ ظہر کا وقت آ گیا۔ رسول اکرم ﷺ منبر سے اُترے، نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے، ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا، یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ منبر سے اُترے، ہمیں عصر پڑھائی، پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔
اس خطبے میں رسول اکرم ﷺ نے ہمیں قیامت تک آنے والے تمام فتنوں سے آگاہ کیا اور ہم میں سے سب سے بڑا عالم وہ ہے جس کو وہ تمام واقعات یاد ہوں" (صحیح مسلم: مسند احمد)۔ اس طویل خطبے کے علاوہ بھی ہادی برحق ﷺ نے بار بار قیامت سے پہلے آنے والے فتنوں، آفات و بلّیات سے صحابہ کو آگاہ کیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ان تمام فتنوں میں سے بڑا فتنہ دجال کا فتنہ ہے، جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ سیدنا آدمؑ سے لے کر قیامت تک دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے آپؐ ہمیشہ ہر نماز میں"التحیات" کے دوران، دجال کے فتنے سے پناہ کی دُعا ضرور مانگتے۔ صحاح ستہ کے علاوہ ذخیرہ احادیث کی دیگر کتب میں محدثین نے باقاعدہ "آخرالزمان" یا "دَورِ فتن" کے باب باندھے ہیں۔
آج سے صرف پچیس سال قبل تک دُنیا بھر کے سیکولر، لبرل، ملحد اور سائنس کو اپنا دین و ایمان سمجھنے والے لوگ ایسی احادیث کے وجود اور صحت سے منکر تھے۔ لاتعداد اسلامی سکالر بھی انہیں گھڑی ہوئی احادیث قرار دیا کرتے تھے۔ لیکن گذشتہ تین دہائیوں سے جس طرح ان احادیث کی حقّانیت کھل کر سامنے آ رہی ہے اور جس طرح وہ تمام واقعات بعینہ اسی ترتیب سے ظہور پذیر ہو رہے ہیں جس طرح رسولِ مقبول ﷺ نے بتایا تھا، اب بے شمار سائنس زدہ مسلمان سکالروں کی دلیلیں بھی بودی اور بے وزن ہو کر رہ چکی ہیں۔
پاکستان میں علمِ آخرالزمان اور دَورِ فتن کے حوالے سے سب سے وسیع المطالعہ عالم اور محقق، فیصل آباد کے ابو عبداللہ مفتی محمد مسعود ظفر ہیں۔ ان کی لائبریری میں اس علم کے حوالے سے لکھی جانے والی بے شمار کتابیں اور نادر مخطوطات موجود ہیں۔ دُنیا میں کہیں بھی جائیں، ان کے سفر کا مقصد صرف اسی علم کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث کی کتب جمع کرنا ہوتا ہے۔
جب 2011ء میں شام کا معرکہ شروع ہوا تو انہوں نے فوراً ایک مختصر ساکتابچہ "سرزمینِ شام (فضیلت تاریخ، مستقبل کے احوال) " کے عنوان سے تحریر کیا جو انتہائی بسیط تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے صحاح ستہ میں موجود چالیس صحیح اور حسن احادیث کو اکٹھا کر کے "الاربعین فی الفتن" نامی کتابچہ ترتیب دیا۔ لیکن ان کا اہم ترین کام تیسری صدی ہجری کے محدث احمد بن جعفر بن المحدث ابی جعفر محمد بن عبداللہ بن ابی دائود کی مشہو کتاب "الملاحم" یعنی "جنگیں" کا ترجمہ کیا ہے، جسے اس ماہ دارالتحقیق فیصل آباد نے شائع کیا ہے۔
یہ نادر مخطوطہ ان کے پاس پہلے سے موجود تھا۔ اپنے خزانے سے اس عظیم کتاب کا ترجمہ کر کے، انہوں نے مسلمانوں کو دورِ آخری کی جنگوں اور ملاحم کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی بتائی ہدایات سے آگاہی بخشی ہے۔ آج کے دَور میں یہ علم ازحد ضروری ہے، کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا "یہ فتنے ایسے لمبے ہو جائیں گے جیسے گائے کی زبان لمبی ہوتی ہے۔ ان فتنوں سے اکثر لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ البتہ وہ رہیں گے جو پہلے سے ان فتنوں کو پہچانتے ہوں گے" (کتاب الفتن)۔
تیسری جنگِ عظیم کا آغاز ہے اور رسول اکرم ﷺ کی احادیث کے مطابق ہم ملحمتہ الکبریٰ (بڑی جنگ) کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ایسے میں مفتی محمد مسعود ظفر نے اس کتاب کو شائع کر کے اُمتِ مسلمہ پر اور اس کا اُردو ترجمہ کر کے پاکستانی قوم پر احسان کیا ہے۔