کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑا اور رہنے کو مکان۔ یہ تینوں ضروریات انسان کی بنیادی ضروریات سمجھی جاتی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں جب انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھیس میں نازل ہوا تو یہاں کے رہنے والے، یہ تینوں ضروریات سادگی اور خوشحالی سے پوری کر رہے تھے۔ رہنے کو چھوٹا سا گھر، ہر کسی کو میسر تھا۔ پنجاب کا وہ علاقہ جو اس وقت پاکستان کہلاتا ہے، پورے ہندوستان کو گندم، چاول اور دالیں مہیا کرتا تھا۔ اسی خطے میں اُگنے والی کپاس سے ڈھاکے کی ململ بنتی جس کا شہرہ چاردانگِ عالم میں تھا۔
پورے برصغیر کے صنعتکار ہاتھ سے چلنے والی مشینوں سے اسی کپاس سے دھاگہ بُنتے اور ہنرمند جولاہے اس سے کھدر، ململ اور لٹھے کے کپڑے لوگوں کا تن ڈھانپنے کے لیے میسر کیا کرتے تھے۔ یہ کپڑا عام آدمی کی ضروریات سے بھی کہیں زیادہ ہوا کرتا۔ انگریز نے اقتدار میں آنے کے بعد اس صنعت کو برباد کرنے کے لیے لاتعداد اقدامات کئے، مگر پھر بھی 1815ء میں برصغیر کے جولاہوں کے بنائے ہوئے کپڑوں کی بیرون ملک برآمد سے 13 لاکھ پونڈ کمائے گئے تھے۔ انگریز کا ہندوستان پر حکمرانی اور لُوٹ مار کا خواب اس وقت تک پورا ہی نہیں ہو سکتا تھا جب تک ان دونوں شعبوں، زراعت اور گھریلو صنعت کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ نہ کر دیا جائے۔
گھریلو صنعت جو کسی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس کو تباہ کرنے کے لیے برطانوی کپڑے کی بڑی بڑی کمپنیوں کو یہاں ملیں لگانے کی اجازت دی گئی۔ تیز رفتار مشین نے سست رفتار کھڈیوں پر کام کرنے والے کاریگروں کو متاثر کیا اور ساتھ ہی ملک بھر میں پھیلے ہوئے مغربی تعلیم سے آراستہ سکولوں اور کالجوں کے پروردہ فیشن ایبل لوگوں نے کھدر اور ململ پہننے کو اپنی توہین سمجھا اور وہ مانچسٹر کے بنے کپڑے زیب تن کرنے لگے، یوں صرف 17 سالوں بعد یعنی 1832ء میں ہندوستان سے کپڑے کی برآمد 13 لاکھ پونڈ سے کم ہو کر صرف ایک لاکھ پونڈ رہ گئی، جبکہ مقامی مارکیٹ میں بھی انگلستان کی ملوں کے ہی بنائے ہوئے کپڑوں کی کھپت بڑھنے لگی۔
دھاگہ بُننے کی مشینیں لگائی گئیں اور خام دھاگہ انگلستان بھیجا جانے لگا تو گھروں میں بیٹھے جولاہے بیروزگار ہو گئے اور صرف چند سال بعد یعنی 1911ء کے آتے آتے کئی لاکھ جولاہے یہ کام چھوڑ گئے۔ المیہ یہ تھا کہ ان کاریگروں میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی جن کی صنعت و حرفت تباہ ہو کر رہ گئی۔ صنعت میں بیروزگاری آئی تو لوگ زمینوں کی طرف لوٹے تاکہ اناج اُگا کر اور کھیت میں کام کرکے رزق حاصل کر سکیں۔
انگریز کی آمد سے پہلے پورے پنجاب میں کوئی آڑھتی اور دلال نہیں تھا۔ کاشتکار اپنی زمینیں کاشت کرتا اور سرکار کو مالیہ ادا کرتا۔ گندم اور دیگر اجناس کو بارٹر کے طور پر پورے گاؤں میں اشیائے صرف خریدنے اور زندگی گزارنے کے لیے استعمال کیا جاتا۔ صرف بیج کا خرچہ اور مالیہ، یہ دو چیزیں تھیں جو کسان کو ادا کرنا پڑتیں، اور یوں لوگوں کو سستے داموں اناج میسر آ جاتا۔ سکون و اطمینان سے زندگی گزارتے ہوئے عوام پر انگریز نے مال آفیسر، پٹواری اور قانون گو مقرر کئے تاکہ جب چاہے زیر کیا جا سکے۔ اپنے وفاداروں اور قوم کے غدّاروں کو بڑی بڑی جاگیریں الاٹ کیں اور چھوٹے کاشتکاروں کو مالیہ، آبیانہ وغیرہ کے چکروں میں پھنسا کر زمینوں سے بے دخل کرنا شروع کر دیا۔
ابھی تک پورے ہندوستان کا زمیندار اور کاشتکار بہتر حالت میں تھا کہ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کا نقارہ بج گیا۔ انگریز کی جنگی مجبوریوں نے ہندوستان سے فوجی بھرتی کا ایک خوفناک منصوبہ بنایا، جس سے دو مقصد نکالنا تھے، ایک لڑنے کے لیے سپاہی اور دوسرا کھیتوں سے عام کارکنوں کا اخراج، تاکہ زرعی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو جائے۔ انگریز کی نظر پنجاب کے لہلہاتے کھیتوں پر تھی، اسی لیے فوجی بھرتی کے اہم ترین مرکز کے طور پر پنجاب کو چنا گیا اور یوں پورے ہندوستان سے 1914ء میں 28 ہزار نوجوان فوج میں بھرتی ہوئے جن میں سے 14 ہزار پنجاب سے تھے۔ 1915ء میں 93 ہزار نوجوانوں میں سے 46 ہزار پنجاب سے تھے اور 1916ء کے آخر تک 2 لاکھ 25 ہزار نوجوان فوجیوں میں سے ایک لاکھ دس ہزار رنگروٹ وہ تھے جو کبھی پنجاب کی دھرتی کا سینہ چیر کر اناج اُگایا کرتے تھے۔
فوج میں یہ بھرتیاں ہرگز خوش دلی سے نہیں ہوئی تھیں۔ انگریز اور کچھ مقامی یعنی "کالے" ڈپٹی کمشنروں کے حکم پر، افسر مال تمام مردوں کو گاؤں سے باہر بلاتا، ایک لائن میں کھڑا کرکے ان میں سے نوجوانوں کو چنا جاتا اور انہیں زنجیروں میں جکڑ کر "رضاکارانہ" طور پر بھرتی کے مراکز لے جا کر بھرتی کر لیا جاتا۔ لوگ مشتعل ہوئے، بڑے بڑے بلوے شروع ہوئے۔ مظفر گڑھ میں لوگوں نے نائب تحصیلدار اور عملے پر حملہ کر دیا، 52 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
شاہ پور میں فساد ہوا تو مقدمے کے دوران لوگوں نے بتایا کہ مردوں کو باہر نکال کر قطار میں کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بھرتی پر مجبور کرنے کے لیے ان کی عورتوں کو ان کے سامنے برہنہ کیا جاتا ہے۔ ان عورتوں کو اغوا کرکے دُور مقامات پر لے جایا جاتا اور جب تک ان کے گھر کے افراد اپنے جوانوں کی بھرتی پر راضی نہیں ہوتے، انہیں رہا نہ کیا جاتا۔ پنجاب کے گورنر مائیکل اڈوائر نے ڈپٹی کمشنروں کو پنجاب سے دو لاکھ جوانوں کی بھرتی کا ٹارگٹ دیا، جسے اسی طرح کے ہتھکنڈوں سے پورا کیا گیا۔ نمبرداروں، ذیلداروں اور زمینداروں کے سروں پر فوج کے لیے رنگروٹ لانے کی تلوار مسلسل لٹکائی گئی۔ یہ لوگ عین فصلوں کی کٹائی کے دوران لوگوں کو کھیتوں سے اٹھا کر لے جاتے۔
فوج میں بھرتی مکمل ہوئی۔ انگریز کو محاذِ جنگ پر مرنے مارنے والے سپاہی بھی مل گئے اور برصغیر کی معاشی بدحالی کا مقصد بھی پورا ہوگیا۔ 1917ء میں پنجاب میں 89 لاکھ 80 ہزار ٹن گندم اور تین کروڑ 51 لاکھ ٹن چاول پیدا ہوئے تھے اور اگلے ہی سال گندم 75 لاکھ ٹن رہ گئی اور چاول صرف دو کروڑ 40 لاکھ ٹن پیدا ہوئے۔ پیداوار میں کمی ہوئی تو سارا بوجھ عام آدمی پر پڑا۔
1913ء میں گندم 3 روپے من تھی جو 1921ء تک 8 روپے من ہوگئی۔ آڑھتی اور دلال میدان میں آ گئے۔ ذخیرہ اندوزی شروع ہوئی، چھوٹے کاشتکار کچھ تو فوج میں چلے گئے تھے جبکہ باقی قرضے کے بوجھ تلے اتنے دب گئے کہ انہوں نے اپنی زمینیں بڑے بڑے جاگیرداروں اور انگریز کے پروردہ غدّارانِ وطن کے ہاتھ فروخت کرنا شروع کر دیں۔ یوں اس فوجی بھرتی سے ہندوستان میں بڑے زمینداروں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا۔
لہلہاتے کھیت اُجڑے، گھریلو دستکاری تباہ ہوئی، کھانے کو اناج اور پہننے کو کپڑا مہنگا ہوا تو پھر اس خطے میں دو اہم ترین طبقے وجود میں آ گئے۔ ایک بڑا زمیندار، سردار، وڈیرہ اور دوسرا فوجی ملازم۔ پہلا طبقہ ترقی کرتے کرتے، اسمبلیوں، وزارتوں اور اقتدار کے ایوان میں جا پہنچا اور دوسرا طبقہ ترقی کرتے کرتے جونیئر کمیشن آفیسر سے کمیشن آفیسر کے مرحلے میں داخل ہو کر جرنیل اور پھر اعلیٰ ترین مناصب حاصل کر گیا۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب بھی رہے اور رقیب بھی۔ ایک دوسرے کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بھی، یہ بظاہر ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوتے مگر مفاد کے لیے اکٹھے ہو جاتے۔
غدّارانِ وطن کا یہی طبقہ تھا جس نے 1920ء میں الیکٹیبلز کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور ان کا نمائندہ ہری سنگھ گور ہندوستان کا پہلا "دیسی" منتخب وزیر اعظم بنا۔ انگریز کی اسٹیبلشمنٹ کے یہ الیکٹیبلز جب الیکشن لڑ رہے تھے تو اس وقت پورا ہندوستان مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں تحریکِ خلافت چلا رہا تھا۔ اسی پہلے الیکٹیبل دیسی وزیر اعظم کی آمد کے بعد برصغیر کی تباہی کا ایسا آغاز ہوا کہ پھر کاشتکار اپنے کھیت کو واپس لوٹ سکا اور نہ ہی دستکار کو ہنر آزمائی کے لیے مواقع میسر آ سکے۔ بس یاد کرنے کو ایک زمانہ رہ گیا کہ ہم تو ایک ایسے خطے کے رہنے والے ہیں جو کبھی پورے برصغیر کو کھانے کے لیے گندم، چاول، دالیں اور پہننے کے لیے کپڑا مہیا کیا کرتا تھا۔
معاشی بدحالی کے اسی عالم میں اگست 1947ء کو برصغیر کو آزادی مل گئی۔ بظاہر دو ملک وجود میں آئے۔ پاکستان اور بھارت، لیکن اصل میں یہ تین خطے تھے۔ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان اور بھارت۔ مغربی پاکستان کے خطے سے لاتعداد سردار، نواب، وڈیرے اور خان ایسے تھے جو انگریز سرکار کو فوجی مہیا کیا کرتے تھے اور ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی تھے۔ جبکہ بھارت اور مشرقی پاکستان میں ایسے لوگ بہت کم تھے۔ آزادی کے فوراً بعد مرحوم مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی اور بھارت کی پارلیمنٹ نے ایسے قوانین منظور کئے جن کے تحت غدّاری کے انعام میں ملنے والی تمام جاگیریں چھین لی گئیں اور دونوں خطوں سے ان الیکٹیبلز کی نسل کا خاتمہ کر دیا گیا۔
اس کے برعکس مغربی پاکستان میں انگریز کے اس نظام کو تحفظ دینے کے لیے جنرل ایوب کی قیادت میں فوج نے اقتدار سنبھال لیا اور سیاسی اشرافیہ کی قیادت کرتے ہوئے نوابزادہ نصر اللہ نے انجمن تحفظ حقوقِ زمینداراں تحتہ الشریعہ بنا کر ان کا تحفظ کیا اور یوں اس خطے کے مقدر میں، غربت، افلاس اور غلامی لکھ دی گئی۔ جو لوگ آج یہ سوال کرتے ہیں کہ بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے زیادہ خوشحال کیسے ہو گئے۔ انہیں ایک لمحے کو تاریخ میں ضرور جھانک لینا چاہئے۔