پاکستان کی سیاسی قیادت کا کمال یہ ہے کہ اپنی بداعمالیوں اور لوٹ کھسوٹ کو خوبصورت فقرے بازی میں اُلجھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے جیسے اس ملک کی بربادی اور تباہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ وہ تو ہمیشہ سے اس سرزمین کے خیر خواہ ہیں اور آج بھی اس اُجڑے گھر کو آباد کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ایسی ہی ایک خیر خواہی اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے ہمیں معاشی مسائل سے نکلنے کے لئے ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف جن کے خاندان کے اقتدار کا سورج اُس وقت طلوع ہوا، جب 1981ء میں ان کے برادر بزرگ محمد نواز شریف کو جنرل غلام جیلانی کی "مہربانیوں " اور "نوازشات" نے پنجاب کا وزیر خزانہ بنا دیا۔ وہ وزارت کے عہدے پر چار سال تک متمکن رہنے کے بعد 9 اپریل 1985ء کو ضیاء الحق کی خصوصی توجہ سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی بنا دیئے گئے۔ ان کی پارٹی مسلم لیگ کے سربراہ محمد خان جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ 1988ء میں چلی گئی، لیکن نواز شریف وہ "خوش بخت" تھے جس نے اپنی ہی مسلم لیگ کی حکومت ختم کرنے والے ضیاء الحق کے زیرِ سایہ وزارتِ اعلیٰ کی تختی سینے پر سجائے رکھی۔
ٹھیک 41 سال سے یہ خاندان اس ملک میں زیادہ عروج اور بہت کم زوال کی صورتِ حال میں اس ملک کے سیاہ و سفید پر چھایا ہوا ہے۔ نواز شریف کے وزیر خزانہ بننے سے تقریباً آٹھ سال قبل ذوالفقار علی بھٹو نے جب 2 اکتوبر 1972ء کو ملک کے طول و عرض میں واقع کئی سو صنعتی ادارے قومی ملکیت میں لئے تو ان کے والد کی ایک اتفاق فونڈری بھی قومیائی گئی۔
قومیائے جانے والوں میں پاکستان کے امیر ترین خاندانوں کی لاتعداد ملیں بھی شامل تھیں اور مڈل کلاس کاروباری حضرات کے چاول صاف کرنے والے شیلر بھی۔ وہ تمام فیکٹریاں جن کو قومیا گیا تھا، ایسے تمام یونٹس کئی سال بعد اوپن ٹینڈر کے ذریعے بہترین قیمت ادا کرنے والوں کو بیچ دیئے گئے۔ لیکن ضیاء الحق نے برسرِاقتدار آنے کے صرف چند ماہ بعد ہی 1978ء میں کمال "خسروانہ بخشیش" کرتے ہوئے صرف تین فیکٹریاں بغیر کوئی قیمت وصول کئے ان کے مالکان کو واپس کر دیں۔
یہ تین تھیں: (1)نواز شریف خاندان کی اتفاق فونڈری، (2)نوشہرہ انجینئرنگ اور (3) ہلال گھی مِل ملتان۔ ایک ڈکٹیٹر کی سیاسی پشت پناہی اور مالی سرپرستی نے اس خاندان کو نہ صرف اقتدار میں دوام بخشا بلکہ ان کی بزنس اپمیائر بھی مسلسل ترقی کرتی چلی گئی۔ شریف خاندان جس کا ذوالفقار علی بھٹو کے دَور تک ان بائیس خاندانوں کی لسٹ میں کہیں نام و نشان تک نہ تھا جو مشہور معیشت دان اور پاکستانی وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے بنائی تھی، آج اس شریف خاندان کی تیز رفتار معاشی ترقی کو بڑے بڑے سرمایہ دار رشک سے اور عام آدمی حیرت سے دیکھتا ہے۔
اسی طرح "قسمت" کی دیوی جس دوسرے خاندان پر مہربان ہوئی وہ آصف زرداری کا خاندان تھا۔ بے نظیر بھٹو کا رشتہ اس گھرانے کے لئے ایک ایسی "نیک" فال ثابت ہوا کہ اسّی کی دہائی سے پہلے جس گھرانے کو کوئی جانتا تک نہ تھا وہ اس ملک کا اہم ترین خاندان بن گیا۔ 18 دسمبر 1987ء کو ہونے والی اس شادی کے ایک سال کے اندر بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں اور پہلی دفعہ ڈیڑھ سال برسرِاقتدار رہیں۔ لیکن ان ڈیڑھ سالوں میں آصف علی زرداری پر کرپشن کے لاتعداد مقدمے بنائے گئے۔ مقدمے سننے والا جج نبی شیر جونیجو 18 جون 1991ء کو اپنے باڈی گارڈ سمیت شہید کر دیا گیا۔ اس قتل کے شبہ میں پیپلز پارٹی کے چھ سو سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا، لیکن عدم ثبوت اور "حکومتی مجبوریوں " کی وجہ سے وہ خونِ ناحق رائیگاں چلا گیا۔ مگر اس خونِ ناحق کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ صرف دو سالوں کے اندر اندر زرداری پر بنائے گئے 12 مقدمات میں سے دس مقدمات میں اسے باعزت بری کر دیا گیا۔
بے نظیر کے اقتدار کا سورج دوبارہ طلوع ہوا تو سوئٹزر لینڈ میں سٹی بینک کے تین اکائونٹس، سرے محل، کوٹیکنا کیس، نیکلس کیس، جیسے لاتعداد کیس بنے، عدالتوں میں پیشیوں تک دکھائی دیتے رہے، لیکن پھر یوں لگا جیسے انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ 27 دسمبر 2008ء کو بے نظیر کے سانحے کے بعد آصف زرداری پاکستان کے آئینی سربراہ بن گئے۔
یہ واحد آئینی سربراہ تھے کہ جن کے دروازے پر منتخب وزیر اعظم مسلسل دست بستہ کھڑے رہتے تھے۔ اس سربراہ کی طاقت و قوت اور ہیبت کا یہ عالم تھا، کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئٹزر لینڈ کی عدالت کو خط لکھنے کی ہدایت کی تاکہ آصف زرداری کے خلاف کیس چلایا جائے۔ لیکن "موصوف" کا جاہ و جلال ایسا تھا کہ یوسف رضا گیلانی توہینِ عدالت کی سزا بھگتنے پر تیار ہو گئے، وزارتِ عظمیٰ گنوا دی، لیکن اپنے "محبوب" صدر کے خلاف خط نہ لکھا۔
یہ دو خاندان اس ملک کی سیاست پر گزشتہ چالیس سال سے چھائے ہوئے ہیں۔ ان خاندانوں کی سرپرستی میں لاتعداد سرکاری، سول اور ملٹری بیوروکریٹس بھی ایسے ہیں جن کے ہاں ان دونوں گھرانوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے "لکشمی" نے راج کیا۔
پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں جہاں ان دونوں خاندانوں کا آغاز ایک عام سے مڈل کلاس کاروباری اور مڈل کلاس معاشرتی "مرتبے" سے ہوا تھا، ویسے ہی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بے تحاشہ امیر ہو جانے والے سول اور ملٹری بیوروکریٹس کا آغاز بھی، معمولی گھرانوں سے تھا، لیکن جیسے عام پتھر کو "پارس" پتھر چھو جائے تو وہ اسے سونا بنا دیتا ہے، ویسے ہی یہ ہزاروں افراد جوان سے جُڑ گئے کُندن بن گئے۔
آج یہ سرکاری ملازمین، سیاسی رہنما، جرنیل اور صحافی پاکستان کی "نوساخت" اشرافیہ ہیں، بائیس کروڑ پاکستانیوں میں ان گھرانوں کی تعداد چند ہزار بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ چند ہزار اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ان کے دولت کدے اس ملک سے باہر آباد ہیں اور ان کا سرمایہ بھی غیر ملکی بینکوں میں محفوظ ہے۔ ان میں سے جو بڑے بڑے صاحبانِ حیثیت ہیں وہ اپنا سرمایہ، سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، امریکہ، فرانس اور دبئی وغیرہ میں رکھتے ہیں جبکہ درمیانے درجے کے لوگ مالٹا، ہنگری، برازیل اور کینیا میں دولت چھپائے بیٹھے ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کو اس ملک کی معاشی حالت کا بہت دَرد ہے اور انہوں نے انتہائی گلوگیر لہجے میں کہا ہے کہ ہمیں فوری طور پر ایک گرینڈ معاشی ڈائیلاگ کرنا ہو گاتاکہ اس ملک کی معیشت ٹھیک ہو۔ یہ ڈائیلاگ ایسے ہی ہے جیسے کسی بستی میں ڈاکہ پڑ جائے، ڈاکو مال لوٹ کر لے جائیں اور پھر گائوں والوں سے کہیں "کہ آئو تمہارے مالی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں"۔
پاکستان کے مسائل کا حل گرینڈ معاشی ڈائیلاگ نہیں، گرینڈ معاشی سرینڈر (Surender) ہے۔ وزیر اعظم صاحب، سب سے پہلے یہ اعلان کریں کہ میں اپنی اور اپنے خاندان کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد اور سرمایہ پاکستان منتقل کرتا ہوں اور پھر تمام ممبرانِ اسمبلی کو ایسا کرنے کے لئے چند دن کی مہلت دیں، تمام بیوروکریٹس، جرنیل، صحافی اور کاروباری حضرات کو ایسے ہی معاشی سرینڈر کے لئے کہیں، ان سب میں سے جو بھی مشکل کی اس گھڑی میں اپنا سرمایہ واپس نہیں لاتا، اُن سے ویسے ہی پاکستانی شہریت سمیت ہر اعزاز چھین لیا جائے، جیسے دہشت گردوں سے چھینا جاتا ہے۔
کسی ملک کے بچے بچے کو مقروض، بیمار اور افلاس زدہ کرنا کم دہشت گردی ہے۔