امریکی سیاست اس کی معیشت کے گرد گھومتی ہے اور اس کی معیشت اسلحے کی تجارت کا طواف کرتی ہے۔ اسی لئے اسے ہر لمحہ دنیا بھر میں لاتعداد چھوٹے بڑے میدانِ جنگ چاہئیں، جہاں مسلسل جنگ کی آگ بھڑکتی رہے۔ ان کے علاوہ ایک بڑے میدانِ کارزار کی خواہش ہمیشہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے دل میں ہر وقت مچلتی رہتی ہے۔ گیارہ ستمبر سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف بیس سالہ طویل جنگ میں امریکہ نے پانچ ہزار ارب ڈالر خرچ کئے، جن میں سے چار ہزار پانچ سو ارب ڈالر پانچ بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں نے کمائے۔
یہ پانچ کمپنیاں جو امریکہ کو اوسطاً سالانہ دو سو ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کرتی ہیں ان میں لاک ہیڈ مارٹن (Lackhead Martin) 75 ارب ڈالر، بوئنگ (Boeing) 27 ارب ڈالر، جنرل ڈائی نیمک (General Dynamic) 22 ارب ڈالر، ریتھیون (Raytheon) 21 ارب ڈالر اور نارتھ روپ گرومین (Northrop Gruman) 13 ارب ڈالر کا اسلحہ امریکی محکمۂ دفاع کو ہر سال بیچتی ہیں۔
اس وقت دنیا میں دفاعی اخراجات کے لحاظ سے پانچ بڑے ملک ہیں جن میں امریکہ کے علاوہ باقی چار ممالک کا سالانہ بجٹ کل ملا کر بھی امریکہ کے سالانہ دفاعی بجٹ کا تقریباً ساٹھ فیصد بنتا ہے۔ چین نے گذشتہ سال 293.4 ارب ڈالر خرچ کئے، اس کے بعد بھارت نے 76.6 ارب ڈالر، پھر برطانیہ نے 68.4 ارب ڈالر اور سب سے کم روس نے یعنی 65.9 ارب ڈالر خرچ کئے، جبکہ اکیلے امریکہ نے 2021ء میں 806.7 ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات کئے۔
اس قدر اخراجات اور اسلحے کی دوڑ کے بعد ایک عام آدمی یہی تصور کرے گا، کہ پوری دنیا مل کر بھی امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن تاریخ اس سے بالکل مختلف حقائق بیان کرتی ہے کہ جنگ صرف اسلحہ کے زور پر نہیں جیتی جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو امریکہ ہر میدان کا فاتح ہوتا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ نے انیس جنگیں لڑیں۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر لڑی جانے والی ان جنگوں میں دو کروڑ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
امریکہ نے اس دوران 36 حکومتوں کا "رجیم چینج" کے نام پر تختہ اُلٹا، 56 رہنمائوں کو قتل کرنے کیلئے حملے کئے اور تیس ممالک پر براہِ راست بمباری کی۔ لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود، ویت نام سے افغانستان اور عراق تک کہیں بھی امریکہ کامیاب نہیں رہا۔ امریکہ ہارتا رہا اور مقروض ہوتا رہا، لیکن امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں اپنی تجوریاں بھرتی رہیں۔
اس وقت امریکہ پر تقریباً 30 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ہے۔ افغانستان کا محاذ جیسے ہی 42 سال کے بعد خاموش ہوا، تو اسلحہ ساز کمپنیوں کی ہوس نے ایک بڑے محاذ جنگ کے لئے ان جمہوری حکمرانوں کو مجبور کیا جو اِنہی کمپنیوں کی "پارٹی فنڈنگ" کی بنیاد پر ہی سیاست کرتے ہیں۔ ادھر 2013ء میں قطر میں طالبان کا دفتر کھلا اور ادھر یوکرین میں چھیڑ خانی کا آغاز ہو گیا۔ اور آج یہ خطہ جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ اس محاذ میں دو اہم وجوہات کی بنیاد پر کودا گیا۔
پہلی وجہ یہ تھی کہ یورپ گزشتہ تیس سال سے معاشی ترقی کی طرف تیزی سے گامزن تھا اور یورپی یونین کے جھنڈے تلے "یورو" نے بہت مضبوط پوزیشن اختیار کر لی تھی اور امریکی معیشت کو آنکھیں دِکھا رہا تھا۔ دوسری وجہ روس کی کمزوری تھی، جو ابھی تک 1991ء کے سوویت یونین کے خاتمے سے سنبھل ہی نہیں پایا تھا، بلکہ دن بدن اس کے دفاعی اخراجات کم ہو رہے تھے۔ وہ عالمی طاقت جو کبھی دنیا میں دوسرے نمبر پر تھی، اب دفاعی اخراجات کے حساب سے پانچویں نمبر پر آ چکی ہے۔
اس میدانِ جنگ کا پہلا مقصد اسلحہ ساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا نہیں تھا بلکہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت کو روکنا تھا۔ چین کا "ون ورلڈ ون روڈ" کا منصوبہ تو ابھی ابتدائی شکل و صورت میں ہی ہے، لیکن چین کی معاشی قوت ایسی ہے کہ اس وقت اس کے پانچ ہزار تجارتی جہاز، دنیا بھر کے سمندروں پر کاروباری بالادستی حاصل کر چکے ہیں۔
منصوبہ یہ تھا کہ اگر یوکرین کے ساحلوں پر امریکی کنٹرول ہو جائے اور تائیوان کی خلیج پر بھی امریکی جہاز لا کھڑے کئے جائیں تو پھر چین اور روس دونوں کی مکمل ناکہ بندی ہو جائے گی۔ لیکن جیسے ہی 2014ء میں امریکہ نے "رجیم چینج" سے یوکرین میں اپنا صدر لا کر بٹھایا تو روس نے کریمیا پر قبضہ کر کے ریفرنڈم کے ذریعے اسے اپنا حصہ بنا کر باسفورس کے سمندر میں راستہ حاصل کر لیا۔
تائیوان چوکنا ہو گیا اور وہ بھی امریکہ کی چکنی چوپڑی باتوں میں نہ آیا اور اس نے بھی جنگ میں کودنے سے اجتناب کیا۔ امریکہ نے روس پر پابندیاں لگائیں تو اس کے بالکل اُلٹ نتائج نکلے اور اس وقت پورے یورپ میں آنے والی سردیوں میں توانائی کے بحران کا خوف طاری ہے۔ روس نے جب سے نارتھ سٹریم پائپ لائن سے گیس کی سپلائی بند کی ہے۔ ایک ایسا بحران پیدا ہوا ہے کہ جس کی وجہ سے دنیا کی دوسری بڑی سٹیل مل آرسیلر متل (Arcelor Mittal)نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔
جرمنی کی ٹائلٹ پیپر بنانے والی سب سے بڑی فیکٹری ہاکلے (Hakle) بند ہو چکی ہے، یورپ کے سب سے بڑے ایلومینیم سملیٹر (Smelter) کی پیداوار 25 فیصد کم ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف جرمنی میں دس فیصد فیکٹریاں اگلے چند ماہ میں بند ہو جائیں گی۔ عام بیکریاں اور ریسٹورنٹ اس لئے بند ہو رہے ہیں کہ وہ اگر چار ہزار یورو بجلی اور گیس کا بل دیتے تھے اب انہیں دس ہزار یورو دینا پڑ رہے ہیں۔
برطانیہ کو اپنی عوام کو مناسب دام پر توانائی فراہم کرنے کیلئے دو سو ارب پونڈ خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ ابھی تک یورپ کے پاس گیس کا ذخیرہ ہے، لیکن آئندہ سردیوں کے لئے انہوں نے قطر اور متحدہ ارب امارات وغیرہ سے جو گیس خریدی ہے وہ انہیں اس قدر مہنگی پڑ رہی ہے کہ ان کی معیشتیں برباد ہو کر رہ جائیں گی۔ ایسے میں یورپ جس بے دلی اور معاشی تباہی کے خطرے تلے جنگ لڑے گا اس کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
جوبائیڈن کا افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور مشرقِ بعید کے ممالک کا دورہ ناکام گیا ہے اور کوئی ملک بھی روس سے معاشی مقاطعہ کرنے کو تیار نہیں ہوا۔ اب ایک ہی سمندری راستہ بچا تھا یعنی بحیرۂ عرب۔ اس کے ایک طویل ساحل پر ایران ہے جس کے میزائل اس وقت روس استعمال کر رہا ہے۔ باقی ساحل پاکستان کے پاس ہے، جو 1954ء سے ہی امریکہ کے لئے اپنی خدمات بسرو چشم پیش کرتا چلا آ رہا ہے۔
امریکہ نے اس دفعہ بھی 1958ء، 1977ء اور 1999ء کی طرح یہ کوشش کی کہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ اس کی فرمانبردار اور مطیع سیاسی قیادت کو "رجیم چینج" سے اقتدار میں لا کر معاملات طے کر لئے جائیں، لیکن دس اپریل کی عوامی مزاحمت اور اس میں مسلسل اضافے نے امریکہ کا یہ پلان چکنا چُور کر دیا۔ پاکستان سٹڈی گروپ کے علاوہ سات ایسے امریکی تھنک ٹینک ہیں جنہوں نے جوبائیڈن انتظامیہ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ پاکستان میں عوامی مقبولیت کے برعکس اگر کسی بھی قسم کی کوئی مہم جوئی (Adventure) کی گئی تو وہ خطرناک ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے پڑوس میں ایران، چین، افغانستان اور بھارت ایسے ممالک ہیں جہاں امریکی کا گھسنا بھی ناممکن ہے۔ انہوں نے ایمن الظواہری والی غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے طالبان سے پھر گفتگو کا آغاز تو کر دیا ہے لیکن اُمید بہت کم ہے۔ امریکی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ اگر انہوں نے پاکستان کی کسی غیر مقبول قیادت یا عوام کے غصے کا شکار اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی تو اس کا نتیجہ ایران، چلّی اور انگولا جیسا نکل سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رابن رافیل جو اسی سٹڈی گروپ کی ممبر ہے اس کا پاکستان کا دورہ اور صرف عمران خان سے ملنا، ایک ایسا واقعہ تھا جس نے شہباز حکومت اور اس کے ہمرائیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ امریکیوں نے پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کا فیصلہ تو کر لیا ہے مگر وہ اب کسی ایسے گھوڑے پر زین نہیں ڈالیں گے جو پُرجوش ہجوم کے سامنے بدک جائے۔