ان دنوں پاکستان کے جو حالات ہیں، ہم سب جس بے یقینی کا شکار ہیں، ایسے میں آپ آج کسی ایسی محفل میں جا نکلیں جہاں چند لوگ بیٹھے موجودہ صورتحال کا ماتم کر رہے ہوں تو وہاں آپ کو ہر چہرے پر ایک ایسا سوال ضرور ملے گا جس کا جواب ڈھونڈنے کی تگ و دو میں یہ قوم گذشتہ پچھتر سال سے مصروف ہے اور آج اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ایک سوالیہ نشان بن چکی۔ سوال صرف ایک ہے، جو ہر خاص و عام کے چہرے پر لکھا ہوا ہے۔ ہمارے دن کیوں نہیں بدلتے۔ ہمارے ہاں ملائیشیا کے مہاتیر محمد جیسا رہنما کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ جس کسی سے بھی ہم اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں، اسے یا ہم سے چھین لیا جاتا ہے یا پھر وہ ہمیں اس قدر مایوس کرتا ہے کہ ہم ناامیدی کے گڑھے میں گر جاتے ہیں۔
آیئے ذرا چند لمحے ملائیشیا کے اس دور میں لوٹ چلیں، جن دنوں دنیائے سیاست کے عالمی چہرے پر مہاتیر محمد کا ظہور ایک گمنام سے سیاست دان کی طرح ہوا تھا۔ یہ 1980ء کی دہائی کا آغاز تھا، عالمی منظر نامے پر مہاتیر کا ملک ملائیشیا غربت، افلاس اور بیروزگاری میں ہمارے محبوب وطن پاکستان سے کہیں کم درجے پر تھا۔ اس ملک کی چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی تھی۔ ملکی معیشت کا سارا انحصار ٹِن، ربڑ اور پام آئل جیسے خام مال کو باہر بھیج کر کچھ زرِ مبادلہ کما کر لانا اور ملک چلانا تھا۔ پورے ملک کی معیشت پر چند سو چینی خاندان مسلّط تھے جو ملکی تجارت اور صنعت پر چھائے ہوئے تھے۔
ملائیشیا صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک انڈونیشیا اور فلپائن سے بھی زیادہ غریب اور مفلوک الحال تھا۔ انہی دہائیوں میں ان تین ممالک، پاکستان، انڈونیشیا اور فلپائن کی تقدیر بدلنے کا نعرہ لے کر تین جرنیل ضیاء الحق، سہارتو اور مارکوس اقتدار پر قابض ہو چکے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں اسّی کی دہائی کے آغاز میں ہی ملائیشیا کی سڑکوں پر جلوس نکالتا، نعرے بلند کرتا، پوسٹر لگاتا اور تقریریں کرتا ہوا مہاتیر محمد اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن جیت کر اقتدار کی مسند تک جا پہنچا اور پھر تاریخ یہ کہانی بتاتی ہے کہ 22 سال تک لوگوں کی محبتوں نے اسے اس مسند سے اُترنے نہ دیا۔ اس نے ایک دن خود ہی بعد میں آنے والوں کے لیے اقتدار کو خیر آباد کہنے کا اعلان کر دیا۔
اب ذرا موازنہ کیجئے، فلپائن پر فرڈنیڈ مارکوس نے دس برس مارشل لاء اور سات برس مارشل لاء کے بغیر حکومت کی اور جب لوگوں نے اسے دھکے دے کر نکالا تو ملک کے پاس معیشت سنبھالنے کے لیے خلیجی ممالک میں فلپائن کی خواتین کو گھریلو کارکنوں کی ترسیل اور سیاحت کے نام پر عصمت فروشی کے سوا اور کچھ باقی نہیں تھا۔ امریکی بالادستی کی وجہ سے سوبک کی زمین کو امریکہ کو اڈے کے طور پر بیچ کر اس سے رائلٹی لی جا رہی تھی اور اس سے ملک چلایا جا رہا تھا۔
دوسری جانب انڈونیشیا پر بھی اسی دوران ایک جرنیل سوہارتو برسراقتدار تھا جو عوام کی طاقت سے نہیں بلکہ چند جرنیلوں کی مدد اور امریکہ کی آشیرباد سے حکمران بنا تھا۔ اس نے تیس برس تک وہاں حکمرانی کی۔ اس دوران اس نے پانچ لاکھ سیاسی مخالفین کو قتل کیا اور انڈونیشیا کو ایک مسلسل خوف کا شکار کئے رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی ساری معیشت اور سرمایہ سوہارتو خاندان کے قبضے میں چلا گیا۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ڈکٹیٹروں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، خلق خدا اُٹھتی ہے، یا تو وہ دھکے مار کر نکالے جاتے ہیں، عوام کے پاؤں تلے روندے جاتے ہیں یا پھر کسی حادثے میں ان کو عوام پر مسلّط کرنے والے ہی انہیں ہلاک کر دیتے ہیں۔ سوہارتو کو عوام نے عبرتناک طریقے سے ایوانِ اقتدار سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا۔
اسی عرصے میں میرے ملک پاکستان پر ضیاء الحق کے اقتدار کا بول بالا تھا۔ اس دور کا صحافی اور مورخ اسے مردِ مومن، مردِ حق اور ملک کا نجات دہندہ ثابت کرنے میں مصروف تھا۔ دانشور طبقہ اسے ترقی کا سنگ میل کہتا تھا۔ مگر جیسے ہی یہ سنگ میل ایک حادثے کے نتیجے میں دنیا سے گیا تو اس ملک کے دامن میں فرقہ واریت، کلاشنکوف کلچر اور منشیات کے سوا کچھ باقی نہ تھا۔
اب ذرا مہاتیر محمد کے برسراقتدار آنے اور 22 سال بعد اس کے اقتدار کو چھوڑنے کے اعلان تک کا سفر ملاحظہ کیجئے۔ جب اس نے پہلی دفعہ 2003ء میں اقتدار چھوڑنے کا اعلان کیا تو لوگ رو رو کر کہہ رہے ہیں کہ تم ابھی ہم ہی پر حکمران رہو، مگر اُس نے انکار کر دیا، کیونکہ وہ آنے والی نسلوں کو قیادت سونپنا چاہتا ہے۔ اس بائیس سالہ اقتدار نے ملائیشیا کا حال دیکھتے ہی دیکھتے بدل کر رکھ دیا تھا۔ صرف خام مال پیدا کرنے والا ملائیشیا صرف بیس سال بعد الیکٹرونکس، کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور سروس انڈسٹری کی وجہ سے ایک سو بیس بلین ڈالر کی برآمدات کرتا تھا جو اس وقت کے پاکستان کے کل قرض سے تین گنا زیادہ تھی۔ جب وہ برسراقتدار آیا تھا تو ملائیشیا کی فی کس آمدنی 2300 ڈالر تھی اور جب اس نے پہلی دفعہ اقتدار چھوڑا تو یہ 9 ہزار ڈالر تھی اور وہاں غربت کا تصور ہی ناممکن ہو چکا تھا۔ ایک نیم خواندہ ملک کے 92 فیصد لوگ زیورِ تعلیم سے آراستہ تھے۔
مہاتیر میں ایسا کیا جادو تھا، بس چند لمحے کے لیے اس عرصے میں ان چاروں ممالک کے حکمرانوں کو غور سے دیکھئے تو صرف ایک ہی فرق نظر آئے گا کہ مہاتیر عوام سے اُٹھ کر آیا تھا اور وہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے ہی جواب دہ سمجھتا تھا جبکہ باقی تینوں صرف چند جرنیلوں کے سامنے خود کو جوابدہ تصور کرتے تھے۔ مہاتیر اپنی خودنوشت میں لکھتا ہے کہ میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ میں نے جو خواب عوام کی قسمت بدلنے کے لیے سوچا ہے اسے پورا کرنے کے لیے تو کم از کم پندرہ سال عرصہ لگے گا، اور جمہوری سیاست میں اگر اسے اگلے چار سال کے لیے عوام نے منتخب نہ کیا تو کیا میں اپنا خواب شرمندہئی تعبیر نہیں کر پاؤں گا۔ عوام کے روبرو ہر چار سال بعد پیش ہونے کا یہی خوف ہی تو تھا کہ جو مہاتیر کو ملائیشیا کی تقدیر بدلنے پر مسلسل مجبور کرتا رہا۔ جبکہ اس کے برعکس باقی تینوں ممالک کے جرنیل حکمران 20، 25، 30 یا 40 جرنیلوں کے سامنے جوابدہ تھے اس لیے وہ نتائج سے بے پرواہ صرف اور صرف اپنے اقتدار کو ہی مستحکم کرتے رہے۔
مہاتیر ملائیشیا میں نافذ 1963ء کے آئین کے مطابق برسراقتدار آیا تھا مگر اس نے اپنے جانے تک اس آئین میں ایک بھی ترمیم نہیں کی۔ حالانکہ عوام اس سے جس قدر محبت کرتے تھے وہ اس محبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر تاحیات وزیراعظم رہنے کی ترمیم بھی کر لیتا تو لوگ اسے قبول کر لیتے۔ جبکہ باقی تینوں ممالک میں جرنیل حکمرانوں نے آئین کو ٹائلٹ پیپر سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ مہاتیر نے ان 22 سالوں میں کبھی کسی قسم کی سیاسی سرگرمی پر پابندی نہیں لگائی، جبکہ باقی تینوں ممالک میں سے اگر پانچ لاکھ افراد انڈونیشیا میں قتل ہوئے تو فلپائن میں سیاسی قتل ایک معمول بنا دیا گیا اور پاکستان میں ایک مقبول وزیر اعظم کی پھانسی سے لے کر عوام کو زبان، نسل اور فرقہ کی بنیاد پر تقسیم کرکے مسلسل قتل کروایا گیا۔ وجہ صرف ایک تھی کہ باقی تینوں حکمران اپنے آپ کو عوام کے سامنے خود کو کسی بھی قسم کی قتل و غارت کی صورت میں جوابدہ تصور نہیں کرتے تھے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ باقی تینوں حکمران جن کے پیچھے مارچ کرتی ہوئی فوجیں، بندوقیں اور ٹینک تھے امریکہ کے سامنے اور مغربی دنیا کے آگے اتنے جھکے جھکے، شرمندہ، مرعوب اور کاسہ لیس تھے کہ انہیں کسی آزاد ملک کا سربراہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، جبکہ مہاتیر جب گونجتا تھا تو غریب ملکوں میں عزت و آبرو اور غیرت کا احساس پیدا ہوتا تھا اور مغرب کے ایوانوں میں زلزلہ۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ سوال کرتے ہیں اور شاید ہمیشہ کرتے ہی رہیں گے اور ہمیں اس سوال کا جواب کبھی نہیں ملنے پائے گا۔ کیونکہ ہم سیب کے درخت لگا کر اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ان پر آم کیوں نہیں لگتے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ شاہد ہے کہ وہاں لیڈر سول سروس اکیڈمی یا ڈیفنس کالج سے جنم نہیں لیا کرتے۔ لوگوں کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ عوام کی محبتوں کی پیداوار ہوتے ہیں اس لیے انہیں اس کوکھ سے محبت ہوتی ہے جس سے وہ جنم لیتے ہیں۔ وہ عوام میں زندہ رہنے کے لیے ان کی آنکھوں میں بسے ہوئے خوابوں کو سجانے کی جدوجہد میں مسلسل لگے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انہیں لوگ دھکے دے کر نہیں نکالتے۔ لیکن جو لیڈر باقی تین ممالک کی طرح چند جرنیلوں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، انہیں صرف انہی جرنیلوں سے ہی محبت ہوتی ہے، وہ انہی کے مفاد کو عزیز رکھتے ہیں، کیونکہ انہوں نے انہی کے سامنے جواب دہ ہونا ہوتا ہے۔ جس ملک کے عوام کی کوکھ کو ہر چند سالوں بعد ٹھڈوں، ڈنڈوں، گولیوں اور بوٹوں تلے کچلا جائے اور اس سے مسلسل خون رِستا ہو، اس ملک میں بسنے والے عوام کیسے مہاتیر محمد جیسے لیڈر کے پیدا ہونے کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔