پاکستان کی حکومتی مشینری اور اداروں کا مزاج، ماحول اور عوام کے متعلق روّیہ، گذشتہ ڈیڑھ سو سال کی مسلسل ٹریننگ اور تجربے کی عطا ہے۔ انگریز نے اپنے غاصبانہ اقتدار کو مستحکم کرنے کیلئے جس طرح کی انتظامی مشینری کو جنم دیا، انہیں قوانین کے ذریعے جس طرح بااختیار بنایا اور جس قدر لامحدود اختیارات دیئے گئے، وہ آج بھی ہماری انتظامیہ کے نہ صرف شعور اور لاشعور کا حصہ ہیں، بلکہ وہ سب کے سب قوانین و اختیارات من و عن موجود ہیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کو مستحکم کرنے کیلئے ان قوانین میں اضافہ ہوا ہے۔
انگریز نے انتظامی مشینری کو ایک ذہنیت تحفے میں دی تھی کہ حکمران اور عوام دو مختلف طبقات ہیں۔ حکومتی مشینری انڈین سول سروس اور انڈین برطانوی فوج کے باہم گٹھ جوڑ سے بنایا جانے والا ایک مقتدر گروہ تھا۔
انڈین سول سروس سینئر پارٹنر تھی جبکہ فوج اس کی جونیئر پارٹنر۔ ڈپٹی کمشنر کا دفتر ایک چھوٹا سا "وائسرائے" تھا، جس میں تاجِ برطانیہ کے تمام اختیارات مرتکز کر دیئے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گورے یا پھر بعد میں نوکری میں شامل ہونے والے "مقامی ناریل" (یعنی باہر سے برائون اندر سے گورے) یہ افسران بھی پہلے فوج میں کمیشن لیتے اور پھر ڈپٹی کمشنر لگائے جاتے اور وہاں سے ترقی کرتے کرتے گورنر کے عہدے تک جا پہنچتے۔
لارنس، رابرٹ سنڈیمن، جان جیکب اور بارنس جیسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ہم انہیں کے نقشِ قدم پر چلتے رہے اور سکندر مرزا میجر سے سول سروس میں بھیجا گیا، ڈپٹی کمشنر پشاور بنا اور پھر ترقی کرتا ہوا فیڈرل سیکرٹری کے بعد صدرِ پاکستان بھی بن گیا۔ لیکن فوج میں بھی اسے ساتھ ساتھ مسلسل ترقی دی جاتی رہی اور جب وہ صدر کے عہدے پر پہنچا تو وہ میجر جنرل کے "رینک" پر بھی فائز تھا۔
7 اکتوبر 1958ء کو جب اس نے مارشل لاء لگایا تو اس کا مددگار جونیئر پارٹنر یعنی فوج کا سربراہ جنرل ایوب خان بھی اس کے ساتھ تھا۔ لیکن پاکستانی عدلیہ نے ایک نیا باب رقم کر کے "طاقت" اور صرف "طاقت" کو جائز اور حق قرار دے دیا۔ پاکستان کے سب سے متنازعہ چیف جسٹس منیر نے لکھا "کامیاب انقلاب جائز ہے"۔ یعنی انسانی تاریخ کا صدیوں پرانا معیارِ حق و باطل ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس فیصلے کے مطابق یزید کی حکومت جائز اور سیّدنا امام حسینؓ کا انکار نعوذ باللہ ناجائز قرار دے دیا گیا۔
جسٹس منیر نے 27 اکتوبر کی صبح کو یہ فیصلہ سنایا اور اسی رات جنرل ایوب خان، جس کے پاس اصل قوت اور طاقت تھی اس نے گزشتہ سو سال کی انگریز کی بنائی ہوئی ترتیب توڑتے ہوئے سینئر پارٹنر سکندر مرزا کو کان سے پکڑ کر ایوانِ صدر سے نکالا اور کرسی ٔ اقتدار پر متمکن ہو گیا۔ اس دن سے آج تک سول بیوروکریسی نے سرتسلیم خم کر کے سینئر کی بجائے جونیئر پارٹنر بننا منظور کر لیا۔ لیکن نہ دونوں کی ذہنیت میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ دونوں کے روّیے تبدیل ہوئے ہیں۔ ان دونوں اداروں نے ملی بھگت سے اپنے تحفظ اور نفرت سے بچائو کیلئے اپنے اردگرد کچھ ریت کی بوریاں کھڑی کیں۔
یہ ریت کی بوریاں ان کے تیارکردہ سیاستدان تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے1857ء کی جنگِ آزادی میں اپنی قوم سے غدّاری کر کے انگریز کا ساتھ دیا تھا۔ انہیں ہر طرح کے انعامات سے نواز کر اپنے زیرِسایہ الیکشنوں کے ذریعے منتخب بھی کرا لیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ عوامی نفرت کی ساری گندگی اور غلاظت ان سیاستدانوں کے حصے آئے۔ شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ 1920ء میں پورے ہندوستان میں پہلے جنرل الیکشن کروائے گئے۔
یہ قانون ساز اسمبلی برطانیہ کی اسمبلی کی زیرِ نگیں (Lower) اسمبلی تھی، جس کی 104 سیٹوں پر الیکشن ہوئے۔ انگریز نے "Democratic Party" کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنوائی جس کا قائد "ہری سنگھ گور" الیکشنوں کے بعد حکومت کا سربراہ بن گیا۔ اس کی پارٹی نے 48 سیٹیں حاصل کیں، جبکہ گوروں کو بھی الیکشن لڑوایا گیا اور اپوزیشن لیڈر ایک گورا ڈبلیو ایچ ایچ وینسٹ (W. H. H Vincent) بنا۔
یہ سارا ڈرامہ اس لئے رچایا گیا کہ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ آئندہ جو کچھ بھی کرے اس کا ردّعمل برداشت کرنے کیلئے یہ سیاستدان موجود ہوں۔ گذشتہ ایک سو سال سے ان تینوں طبقات کا گٹھ جوڑ بالکل ویسے ہی چلا آ رہا ہے۔ اس حکمران طبقے کا چونکہ عوام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا تھا اس لئے وہ ہمیشہ عوام کے ردّعمل سے خوفزدہ رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1915ء میں"ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ" لایا گیا جس کے تحت تحریر و تقریر پر پابندیاں عائد کی گئیں، بالکل ویسے ہی جیسے آج ٹوئٹ اور دیگر سوشل میڈیا پر کی جانے والی حکومت مخالف گفتگو کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔
1915ء کے ایکٹ کے تحت بھی ایسی گفتگو بغاوت کے زمرے میں آتی تھی اور 2022ء میں بھی ایسی ٹوئٹ بغاوت قرار دی جاتی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت 26 اپریل اور 13 ستمبر 1915ء کو گفتگو کرنے، لکھنے یا نعرے لگانے کو غدّاری قرار دیتے ہوئے لاہور سے 291 لوگوں کو پکڑا گیا جن میں سے 42 کو پھانسی دی گئی، 114 کو عمر قید اور 93 تحریر و بیان کے باغیوں کو مختلف عرصے کی سزائیں سنائی گئیں۔ اسی طرح بنگال میں"انوشیلان سمتی" نام پر ایک باڈی بلڈنگ کلب قائم ہوا جس کے ممبر ورزش کے دوران اپنے غصے کے اظہار کیلئے انگریز کے خلاف گفتگو کرتے اور نعرے لگاتے۔ ان لوگوں کی نگرانی کیلئے خفیہ پولیس کے افراد مقرر ہوئے۔ ان میں سے آہستہ آہستہ لوگوں کو اُٹھایا جانے لگا تو انہوں نے چھپ کر کارروائیاں شروع کر دیں۔
خفیہ پولیس کا ایک آفیسر شمس الاسلام جو ان سب کے بارے میں بغاوت کا مقدمہ تیار کر رہا تھا، قتل کر دیا گیا اور ردّعمل اسقدر شدید ہوا کہ وائسرائے کا دفتر کلکتہ سے دلّی منتقل کرنا پڑا۔ 1915ء کے اس ایکٹ کا خوفناک حد تک ظالمانہ اور بہیمانہ استعمال 13 اپریل 1919ء کو جلیانوالہ باغ میں کیا گیا۔ اس دن سے بہت پہلے پنجاب حکومت جگہ جگہ عوامی احتجاج سے خوفزدہ ہو چکی تھی۔
اپریل کے پہلے ہفتے میں لاہور کے انار کلی بازار میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس کی تعداد بیس ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ یہ اپنے دور کا ایک لانگ مارچ تھا جس نے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل ڈائر کی نیندیں حرام کر دیں۔ اس نے پورے صوبے کی انتظامی مشینری کی میٹنگ بلائی اور کہا کہ اگر لوگوں کا ایسے ہی احتجاج جاری رہا تو پھر یہ سب لوگ ایک دن 1857ء کی جنگِ آزادی والی کیفیت میں منظم ہو جائیں گے۔ ایکٹ کے تحت ہر طرح کی تقریر و تحریر پر پابندی لگا دی گئی۔
امرتسر کے شہر میں ہرکارے کے ذریعے یہ اعلان تین زبانوں انگریزی، ہندی اور پنجابی میں کروایا۔ 13 اپریل کو بیساکھی کا میلہ تھا۔ ہزاروں لوگ امرتسر میں میلہ منانے آئے ہوئے تھے۔ جلیانوالہ باغ شہر کے بیچوں بیچ واقع تھا جہاں یہ سب لوگ ایک جشن کے سماں میں موجود تھے۔ ڈپٹی کمشنر ارونگ کو خفیہ والوں نے 12:40 پر یہ رپورٹ دی کہ وہاں ایک جلسہ منعقد کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔
یہ جلسہ ان کے نزدیک ایک بہت بڑی بغاوت یا سازش تھی جس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جا سکتا تھا۔ جسے آج کی زبان میں"فتنہ" کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے کرنل ڈائر نے ایک چھوٹا سا جہاز منگوایا اور پرواز کر کے اندازہ لگایا کہ جلیانوالہ باغ میں کتنے لوگ اکٹھے ہو چکے ہیں۔
اس کے اندازے کے مطابق اس 6 ایکڑ کے علاقے میں شام کے وقت بیس ہزار لوگ جمع تھے ڈپٹی کمشنر ارونگ اور کرنل ڈائر نے خاموشی اختیار کی اور لوگوں کو مزید وہاں جمع ہونے دیا۔ لیکن جیسے ہی سٹیج لگ گیا اور لوگ جمع ہو گئے تو سپاہ نے باغ کو گھیرے میں لے لیا۔ (جاری ہے)