پاکستان کے وہ حکمران جن کی زندگیوں کا محور اسمبلیاں، الیکشن، وزارتیں اور اقتدار کے سوا کچھ نہیں وہ اپنے اسی کھیل تماشے میں گُم ہیں اور اس ملک کی تباہی کا منصوبہ بنانے والی عالمی طاقتوں کا گھیرا پاکستان کے گرد دن بدن تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت دو ہزار کے قریب ممبرانِ اسمبلی اور سیاست دان ہیں جن میں سے میڈیا پر بولنے والوں کی تعداد سو سے زیادہ نہیں ہو گی۔ یہ سو کے قریب سیاسی رہنما، پچاس کے قریب اہم تجزیہ نگار اور اینکر پرسن اور ان کے ساتھ پچاس اہم دفاعی و معاشی اذہان کو بھی اگر اکٹھا کر لیں، تو یہ دو سو کے لگ بھگ بن جاتے ہیں۔ آپ اخبارات اُٹھا لیں، ٹیلی ویژن کے چینل کھول لیں، کسی مذاکرے میں شرکت کر لیں یا پھر کسی سیاسی رہنما کی پریس کانفرنس میں نکل جائیں آپ کو یہ تمام کے تمام ضعفِ بصارت (Myopia) کا شکار نظر آئیں گے۔
انگریزی ادب میں ضعفِ بصارت کو بڑے وسیع پیمانے پر دیکھنے اور پرکھنے سے محرومی کے لئے ایک مخصوص اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسے "Myopic Vision" یعنی "محدود حدِ نگاہ" کہتے ہیں۔ یہ نگاہ صرف دیکھنے کی صلاحیت کو نہیں کہتے بلکہ ایسے "کم نگاہ" لوگ زندگی کے ہر معاملے کو بہت ہی محدود دائرے میں دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا "ذاتی مفاد" ہی ان کی زندگی کا رہنما ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کے نزدیک ان کی ذات ہی ان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
ان کی سرشت یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ خود کسی قسم کی قربانی دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی یہ کبھی اپنے مفاد کو کسی صورت پسِ پشت ڈال کر کسی اعلیٰ اور ارفع مقصد کے لئے سوچ سکتے ہیں۔ پاکستان کے ان دو سو کے قریب لکھنے، پڑھنے، بولنے اور قیادت کرنے والے لوگوں کی بے پناہ اکثریت ایسی ہے جو ایسی بصیرت اور بصارت سے محروم ہے، جو ملکی اور قومی مفاد کے بارے میں سوچ سکتی ہو۔
ان کے نزدیک عالمی تناظر اور آخرت میں جوابدہی تو بہت دُور کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 35 سالوں سے عالمی طاقتوں کی سازش سے جو جال ہمارے اردگرد بُنا جا رہا تھا وہ اب اس قدر قریب آ چکا ہے کہ بائیس کروڑ عوام کی گردنیں اس میں پھنس چکی ہیں۔
جان پرکنز (John Perkins) وہ شخص ہے جس نے ٹھیک اتنے ہی سال پہلے، ہمارے جیسی پسماندہ اقوام کو اس خوبصورت اور خوشنما جال کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کے الفاظ آج ایسی تمام اقوام کے تباہ شدہ معاشی کھنڈرات پر عبرت کے طور پر درج ہیں۔ یہ پہلا "کارندہ" (Hitman) تھا جس نے عالمی سُودی مالیاتی نظام کے شکنجے کو بے نقاب کیا۔ اس کے بتائے ہوئے شکنجے کے مطابق عالمی مالیاتی نظام ایسی پسماندہ قوتوں کو منتخب کرتا ہے جن کے پاس معدنی یا زرعی وسائل ہوتے ہیں۔
ایسی اقوام میں سیاسی لیڈر ہوں یا ڈکٹیٹر، ان کو جان پرکنز جیسے لوگ ایک خوبصورت جال میں پھنساتے ہیں۔ یہ جال بڑے بڑے خوشنما منصوبوں کا جال ہے، جیسے موٹرویز، ائیر پورٹ، ریلوے، میٹرو بسیں، شاپنگ مال وغیرہ وغیرہ۔
یہ پسماندہ ممالک اپنے وسائل اور صلاحیت سے ان تمام منصوبوں پر عمل درآمد کے قابل نہیں ہوتے لیکن ان کے خواب ضرور دیکھتے رہتے ہیں۔ اسی لئے ان اقوام کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ دیکھو! یہ جو دُنیا بھر میں قرض دینے والے ادارے جیسے پیرس کلب وغیرہ موجود ہیں، یہ سب کس مرض کی دوا ہیں۔ ان سے قرضہ لو اور پھر یہ تمام منصوبہ شروع کر دو۔ عوام تمہاری واہ واہ کریں گے، تالیاں بجائیں گے۔ قرضہ کون سا تم نے خود واپس کرنا ہے، آہستہ آہستہ عوام پر ٹیکس لگا کر سُود سمیت قسط ادا کرتے جانا۔
پیسہ بینک یا معاشی ادارے کا ہو گا، ادائیگی قوم کرے گی اور واہ واہ صرف اور صرف تمہاری۔ بلکہ یہ ترغیبات صرف واہ واہ تک ہی محدود نہیں رہتیں۔ یہ کارندے کہتے ہیں کہ، ہم یہ بھی بندوبست کریں گے کہ ان منصوبوں میں سے تمہارا حصہ تمہیں بیرون ملک سے ملتا رہے، تمہارا کاروبار وہاں پھلتا پھولتا رہے گا اور تمہاری وہاں جائیدادیں بنتی رہیں گی۔
اس کے ساتھ بھی طے ہے کہ اگر تم ہمارے منصوبے پر عمل درآمد کرتے رہو گے تو پھر ہم تمہارے اقتدار کی بھی ضمانت دیں گے۔ تمہیں جو بھی اقتدار سے محروم کرے گا ہم اُسے مجبور کر دیں گے کہ وہ اپنا ہی تھوکا ہوا چاٹے اور تمہیں واپس مسندِ اقتدار پر خود بٹھائے۔ لیکن اگر تم میں ذرا سی بھی حمیّت جاگی اور تم نے اپنی ذات سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی کوشش کی تو یاد رکھو ہم ایسے لوگوں کا حشر بہت بُرا کرتے ہیں۔ جان پرکنز کے الفاظ ہیں۔
I am haunted by the payoffs to the leaders of Poor Countries, the blackmail, and the threats that if they resisted, if they refused to accept loans that would enslave their countries in debit, the CIA's Jackals would overthrow or assassinate them."
"میں غریب ممالک کے لیڈروں کو ملنے والی ادائیگیوں، بلیک میلنگ اور دھمکیوں سے پریشان ہوں کہ اگر انہوں نے مزاحمت کی، اگر وہ ایسے قرضوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیں جو ان ممالک کو قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک بنانے کے لئے دیئے جا رہے ہیں تو سی آئی اے کے گیدڑ ان کا تختہ اُلٹ دیں گے یا انہیں قتل کر دیں گے"۔ میں نے جان پرکنز کے یہ الفاظ انگریزی میں اس لئے تحریر کر دیئے ہیں کیونکہ اس میں ان کی خوفناکی اور دھمکی کی شدت نمایاں ہے۔
آج سے تین دہائی قبل جب یہ کتاب مارکیٹ میں آئی تو ہم تک صرف جنوبی امریکہ اور افریقہ کے غریب ملکوں میں حکومتوں کی تبدیلی اور لیڈروں کے قتل کی کہانیاں پہنچی تھیں اور ہم یہ سب جان کر حیرت میں گم ہو جاتے تھے کہ سی آئی اے ان ممالک میں کتنی آسانی سے ایک شخص کو فوج کے ذریعے یا پھر سیاست دانوں کی سیاسی وفاداریاں خرید کر تخت سے اُتار دیتی ہے اور ان اقوام کے لوگ وہاں کچھ بھی نہیں کر پاتے۔
سی آئی اے تو کانگو کے مقبول ترین وزیر اعظم پیٹرس لممبا (Patrice Lumaba) کو قتل بھی کروا دیتی ہے اور اس ملک کو دس سال تک خانہ جنگی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اتنا سب کچھ اتنی آسانی سے کیسے ہو جاتا ہے۔ لیکن جان پرکنز اور اس قبیل کے دیگر لکھنے والوں کو پڑھ کر احساس ہوا کہ جن پسماندہ ملکوں میں قرضوں کا جال بچھایا جاتا ہے اس سے پہلے، وہاں اس جال کی طنابیں کھینچ کر عوام کو دبانے کے لئے سول، ملٹری بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ میں ایک وسیع ہم خیال طبقہ پیدا کیا جاتا ہے جو ان کے اشاروں پر ناچتا ہے۔
یہ تمام لوگ اس کرپشن کی کہانی میں شریک ہوتے ہیں اور پھر ایک دن اشارے ملتے ہیں۔ ایسے، ناہنجار گستاخ شخص کو اقتدار سے محروم کر دیتے ہیں۔ گذشتہ تیس سالوں میں پاکستان کی حد تک ہمیں یہ ایک مقامی کھیل نظر آتا تھا۔ تبدیلی کے اشارے تو عالمی سطح پر ملتے تھے لیکن کھیل کی ضروریات مقامی ہوا کرتی تھیں۔
ہر مارشل لاء کے پیچھے تبدیلی کا محرک معلوم ہو جاتا تھا لیکن عمران خان کی تبدیلی کا کوئی اور محرک نظر نہیں آتا سوائے یہ بات کہ عالمی محاذ آرائی اور گرم ہوتے ہوئے یوکرین اور ہندو چین کے محاذ میں عالمی طاقتوں کو پاکستان کے تخت پر کوئی ایسا شخص نہیں چاہئے تھا، جس میں تھوڑی سی بھی وسعتِ نظر موجود ہو اور جو خود سے بالاتر ہو کر قوم کا سوچ لے خواہ تھوڑی دیر کے لئے سہی۔
عمران خان میں ایک "خرابی" ایسی تھی جو عالمی طاقتوں کے گلے کی پھانس بن گئی اور وہ یہ کہ اس کے ذاتی و خاندانی مفادات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسا شخص کسی بھی وقت بہت خطرناک ہو سکتا تھا۔