جنگِ عظیم اوّل کے بعد تاوان جنگ کی صورت جس قومی قرضے کے تصور کو دُنیا پر لاگو کیا گیا، اس کی قبائلی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جب کبھی دو قبیلے آپس میں لڑتے تو فاتح قبیلے جیتنے کے بعد مفتوح قبیلے پر تاوانِ جنگ لاگو کیا کرتے، جسے پورا قبیلہ شبانہ روز محنت سے ادا کرتا۔ لیکن جیسے ہی جنگِ عظیم اوّل کے بعد قومی ریاستیں قائم ہوئیں، 1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن آیا، ویزا ریگولیشنز، لیگ آف نیشنز میں منظور ہوئیں اور بارڈر سیکورٹی فورسز کے ذریعے ملکوں کی سرحدیں مستحکم کر دی گئیں، تو پھر ان قومی ریاستوں کو بھی ایک قبیلے کی طرح اور ان کے حکمرانوں کو سردار کے طور پر لئے جانے لگا۔
حکمران ڈکٹیٹر ہو یا جمہوری طور پر منتخب، اس کے کئے ہوئے عالمی معاہدوں کی پابندی کو پوری قوم پر لازم قرار دیا گیا۔ اسی عالمی غنڈہ گردی کی کوکھ سے عالمی سودی قرضوں کے ایک خوبصورت جال کو پھیلانے کا آغاز ہوا۔ قرضوں کی وصولی پیچھے وہی تصور تھا کہ اگر تاوان جنگ پوری قوم ادا کرتی ہے تو پھر حکمرانوں کا لیا گیا قرضہ بھی تو قوم کو ہی ادا کرنا ہو گا۔ جنگیں کونسا عوام سے پوچھ کر شروع کی جاتی ہیں، اسی طرح قرضہ بھی حکمران اپنی صوابدید پر لے سکتے ہیں۔ لیکن اس کی واپسی کی ذمہ داری پوری قوم پر ہو گی۔
تاوان جنگ کے علاوہ قومی قرضے کا آغاز بھی بیچارے مفتوح جرمنی سے ہی کیا گیا۔ جب تاوان جنگ ادا کرتے ہوئے جرمنی کی کرنسی کوڑیوں کے مول ہو گئی، تو امریکہ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے جرمنی کو نئی کرنسی جاری کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کیا اور اس کے بدلے میں انہوں نے جرمنی کے سنٹرل بینک ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اب سودی مالیاتی نظام کا یہ گھنائونا کھیل شروع ہو چکا تھا، جس کے نتیجے میں 1930ء کی دہائی کی عالمی کساد بازاری (Depression) پیدا ہوئی، نے دُنیا بھر کی معیشتوں کو برباد کر ڈالا۔ بڑے بڑے سودی بینک قوموں کی معیشتیں بچانے کے لیے میدان میں اُترے اور انہوں نے لاتعداد ممالک کو قرضوں کی دلدل میں جکڑ لیا۔
یہی قرضے تھے کہ جن کے بوجھ اور پھر عدم ادائیگی کی وجہ سے بولیویا، برازیل، کولمبیا، کوسٹاریکا، ڈومینین ریپبلک، ایکوا ڈور، ایلسلواڈور، گوئٹے مالا، میکسیکو، نکاراگوا، پانامہ، پیرا گوائے، پیرو اور یورگوائے قرضوں کی قسط ادا نہ کر سکے اور دیوالیہ (Defaulter) ہو گئے۔ یہ عالمی معاشی بحران (Great Depression) تھا جو اس عالمی سودی مالیاتی نظام، مصنوعی کاغذی کرنسی اور قومی قرضوں کی دلدل نے دُنیا کو تحفے کے طور پر "عطا" کیا۔ اس کے شکنجے سے باہر نکلنے کے لیے جب جرمنی سمیت کچھ ملکوں نے انگڑائی لی تو ان پر دوسری جنگِ عظیم مسلّط کر دی گئی۔
جنگ جیتنے کے بعد بریٹن ووڈ کے 1944ء کے معاہدے کے بعد انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) قائم کر کے اسے ایک عالمی مالیاتی نظام کی شکل دے دی گئی۔ گذشتہ اٹھتر سال سے پوری دُنیا اس سودی نظام اور جعلی کاغذی کرنسی کے شکنجے میں ہے۔ سوویت یونین کے پچھتر سال (27 آئی ایم ایف سے پہلے اور 48 آئی ایم ایف کے بعد) اس نظام سے علیحدگی کا عرصہ ہے۔ لیکن 47 سال اس مالیاتی نظام کی محافظ عالمی طاقتوں نے سوویت یونین پر مسلسل سرد جنگ مسلّط کئے رکھی اور پھر آخر کار اس نظریاتی دُنیا کو بدترین انجام سے دوچار کر دیا گیا۔
سوویت یونین کے انجام کو اکتیس سال ہو چکے ہیں اور اس سوویت یونین کے تباہ شدہ ڈھانچے سے اب ایسا روس برآمد ہوا جس کی معیشت بھی اسی سودی مالیاتی نظام، عالمی منڈیوں، شرح تبادلہ، بینکاری کا سافٹ سسٹم، افراطِ زر، کساد بازاری اور عالمی معاشی پابندیوں کے آہنی جال میں قید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کی جنگ کے بعد سے روس کو ان عالمی طاقتوں سے جس طرح جنگ کرنا پڑ رہی ہے، اس کی حالت بالکل اس غصے میں بپھرے ہوئے شیر کی طرح ہے جو جال میں پھنسا ہوا ہے اور کہیں کہیں سے اس میں سوراخ ڈال کر حملہ آور ہو جاتا ہے، مگر کہیں کہیں اس نظام کی مجبوری کی وجہ سے وہ بالکل بے بس ہے۔
جیسے وہ اپنا تیل اور گیس اپنی مرضی کی کرنسی اور مرضی کے راستے یورپ کو بیچ رہا ہے، کیونکہ اس کے بغیر یورپ ایک پُرسکون زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔ لیکن دُنیا کے جس کسی ملک میں بھی اس کے سرمایہ کاروں کا پیسہ پڑا ہوا تھا، اسے منجمد کر دیا گیا ہے اور اسے عام عالمی تجارت سے بھی روک دیا گیا۔
آئی ایم ایف کے اس سودی شکنجے اور عالمی مالیاتی نظام کے خلاف سب سے توانا آواز بانی ٔپاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بلند کی تھی۔ حیرت ہوتی ہے کہ اللہ نے اس عظیم رہنما کو کس قدر بصیرت عطا فرمائی تھی کہ انہوں نے دونوں عالمی جنگوں کا ذمہ دار مغربی معاشی نظام کو قرار دیا۔ یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا:۔
"The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster, that is now facing the world. It has failed to do justice between man and man and to eradicate friction from the international field. On the contrary, it was largely responsible for the two world wars in the last half century."
"مغربی معاشی نظام نے انسانیت کے لیے کچھ ایسے لاینحل مسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اس کی وجہ سے موجودہ دُنیا کو درپیش تباہی سے اسے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی معاشی نظام انسانوں کے درمیان انصاف کرنے میں بھی ناکام رہا ہے اور عالمی سطح پر یہ تنازعات بھی ختم نہیں کر سکا، بلکہ اس کے برعکس یہ گذشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو جنگوں کا ذمہ دار ہے"۔
قائد اعظمؒ نے جس سودی عالمی مالیاتی نظام سے دُور رہنے اور اسلامی بنیادوں پر اپنی معیشت استوار کرنے کی ہدایت کی تھی ہم اس کے بالکل مخالف سمت چل نکلے اور ہمارے تمام ادارے مغربی سودی معاشی نظام کی عملی تصویر بن گئے۔
قیامِ پاکستان کے پہلے دس سال محنت سے جب اس قوم نے خود کو معاشی طور پر مستحکم کر لیا تو عالمی طاقتوں نے اس کو تباہی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے یہاں کی قیادت سے ملی بھگت کر کے 8 دسمبر 1958ء کو صرف 25 ہزار ڈالر قرض دے کر اس ملک کو آئی ایم ایف کے خون چوسنے والے مالیاتی نظام کے سپرد کر دیا۔ اس کے بعد 61 سالوں میں پاکستان نے 22 دفعہ آئی ایم ایف کے دروازے پر سجدہ ریزی کی۔ یہ تفصیل بہت دردناک اور خوفناک ہے۔
بائیس دفعہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے سٹیٹ بینک میں بحیثیت سکیورٹی چند ارب ڈالر رکھے، جنہیں ہمیں خرچ کرنے کی اجازت نہیں تھی، مگر ہم اس کی بنیاد پر دُنیا بھر سے قرض لے سکتے تھے۔ یوں حکمرانوں نے اپنے الّلے تلّلوں اور عیاشیوں کے لیے دنیا بھر سے مہنگے شرح سود پر قرضے حاصل کئے، پراجیکٹ بنائے، بدترین کرپشن کی اور ملک کو کھوکھلا کر دیا۔ اس وقت دُنیا میں کوئی قرض دینے والا ادارہ یا ملک ایسا نہیں جس سے پاکستان نے قرض نہ لے رکھا ہو۔
آئی ایم ایف کے ان اٹھتر سالوں کی تاریخ گواہ ہے کہ دُنیا میں جس ملک نے بھی، اس کے پروگرام میں شرکت کی وہ معاشی طور پر برباد ہو گیا۔ بدترین ہے یہ نظام جس میں عوام سے پوچھے بغیر قرض لیا جاتا ہے، ان کی خواہشات کے برعکس بے کار منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور ادائیگی کے لیے ان کا خون نچوڑا جاتا ہے۔ دُکھ اور تکلیف کی بات یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے جس نظام کے خلاف اعلانِ جنگ فرمایا ہے، قائد اعظمؒ نے جس سے دُور رہنے کا حکم دیا تھا۔
ہم اسی نظام کی علامت آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر نہ صرف خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں بلکہ ہمارا وزیر خزانہ ڈھٹائی کے ساتھ "الحمدللہ" بھی کہہ رہا ہے۔ (ختم شد)