سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے آخری دنوں میں پورے ہندوستان کو ایک ہندو راج میں بدلنے کی جو خواہش مرہٹہ سلطنت کے توسط سے پورے ہندوستان میں آباد ہندوئوں کے دلوں میں جاگی تھی اور 14 جنوری 1761ء کو پانی پت کے مقام پر شاہ ولی اللہ کے خط پر افغانستان سے آنے والے احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں ذلّت آمیز شکست کے بعد دب سی گئی تھی، ایک بار پھر اُبھری، جب انگریز نے 1857ء میں مغل دربار پر برطانیہ کا یونین جیک لہرا دیا اور یوں ہندوستان کو زیرِ تسلّط کرنے کی خواہش نے انگڑائی لینا شروع کر دی۔
پانی پت کی لڑائی تک یہ خواب صرف توسیع سلطنت تک محدود تھا۔ کسی طور بھی اس کی ہرگز کوئی گہری نظریاتی بنیاد موجود نہ تھی۔ صرف ہندو راجائوں کے دل میں قدیم ہندو بادشاہتوں "موریا" اور "گپتا" کی طرز پر پورے برصغیر پر ایک بار پھر حکمرانی کی خواہش کا دیا جلا ہوا تھا۔
انگریز کے آنے کے بعد چونکہ وہ مسلمان بھی جن کو یہ لوگ فاتح اور غیر ملکی حکمران کہہ کر ان سے ہندوئوں کو لڑنے کے لئے لوگوں کو اکٹھا کیا کرتے تھے، اب تو انہی ہندوئوں کی طرح ہی ایک ساتھ انگریز کے غلام بن چکے تھے بلکہ ہندوئوں سے زیادہ معتوب تھے۔ اور انگریز کی غلامی سے نجات کے لئے مسلمان کا ساتھ بھی ازحد ضروری تھا، اس لئے اب مسلمان بھی بہت اہم ہو گئے تھے۔ ایسے ماحول میں علیحدہ طور پر ہندوستان پر ہندو راج کا خواب دیکھنا اور اس خواب کو مقبولِ عام بنانا بہت ہی مشکل کام تھا۔
دوسری طرف، دُنیا میں ایک ایسی قومیت کا تصور بھی تقریباً نافذ ہو چکا تھاجس کے تحت ایک علاقے میں بسنے والے خواہ کسی بھی نسل، رنگ، زبان اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں، سب ایک ہی قوم کہلائیں گے۔ اس تصور کو آج بھی علاقائی قومیت (Territorial Nationhood) کہتے ہیں۔ اس عالمی نظریے اور جدید تعلیم کے مقابلے میں ہندو قومیت کا نعرہ بلند کرنا انتہائی مشکل کام تھا۔
ہندو بھی صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ رہتے چلے آئے تھے اور وہ اب تک مسلمانوں کی تہذیب کا لبادہ بہت حد تک اوڑھ چکے تھے۔ ان کے کھانوں، رہن سہن، پہناوے، موسیقی، ادب، شاعری یہاں تک کہ رسم و رواج اور محاورے میں بھی مسلمان تہذیب و ثقافت کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی۔
پنڈت دیاشنکر نسیم اگر مثنوی "زہرِ عشق" تحریر کرتا تو مثنوی کی ایرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پہلے حمد، پھر نعت، پھر منقبت کے اشعار لکھنے کے بعد سوداگر اور اس کی بیٹی سے قصے کا آغاز کرتا۔ ایسے معاشرتی پسِ منظر میں یہ نعرہ بلند کرنا کہ یہ سرزمین صرف اور صرف ہندوئوں کے لئے ہے، ایک انتہائی مشکل کام تھا۔ اس کٹھن کام کے لئے ایک بہت مضبوط نظریاتی بنیاد اور لٹریچر کی ضرورت تھی۔ اکثر ہندو دانشور خیال کرتے تھے کہ انگریزوں کی حکمرانی کے باوجود ابھی تک ویسے ہی گلیوں، بازاروں، گھروں اور دفتروں میں مسلمان تہذیب و ثقافت غالب ہے۔
مسلمان مغلوب تو تھے بلکہ انگریز کے معتوب بھی تھے مگر ان کی چھ سو سالہ تہذیب آج بھی ہندوستان میں ہر جگہ نمایاں تھی۔ اس تہذیبی غلامی سے چھٹکارا پانے کے پہلے مرحلے میں ہندوئوں کے اندر بیشمار اصلاحی شخصیات پیدا ہوئیں جو یہ تصور رکھتی تھیں کہ ہندوئوں میں گزشتہ کئی سو سال مسلمانوں کی غلامی میں رہنے کی وجہ سے ایک شدید احساسِ کمتری پیدا ہو چکا ہے اور یہ احساسِ کمتری اب بحیثیت قوم ان کے لئے ایک بہت بڑا مذہبی اور اخلاقی سوال بن چکا ہے۔
اس سوال کو حل کرنے اور زوال سے نکلنے کے لئے راجہ رام موہن رائے، بنکم چندر چیٹر جی، ایشور چندر گپتا، نرمدا گپتا، ایشور چندر ودیا ساگر، گھوکھلے، راندادے، تلک، وویک نند اور دیوندر جیسے دانشوروں اور سماج سیوک ہندوئوں نے پورے ہندوستان میں آباد ہندوئوں کو بیدار کرنے پر کمر ہمت باندھ لی۔ ان میں سے راجہ رام موہن رائے نے "برہمو سماج" کے نام پر ایک تنظیم بنائی جس میں ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی اور دیگر عقیدے کے لوگ ایک خدا کو مانتے ہوئے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اکٹھی عبادت کرتے تھے۔ اس سیکولر آغاز سے مذہبی ہم آہنگی آئی تو فوراً ہی وہ تصور بھی عام کیا جانے لگا جسے "ہندو راج" کہتے ہیں۔
ایک اہم شخصیت لالہ لاجپت رائے نے یہ نظریہ زور و شور سے پیش کیا کہ "ہندو دراصل ایک قوم نہیں بلکہ ایک تمدن یا طرزِ زندگی ہے"۔ اس نے دیانند سرسوتی کی 1873ء میں قائم کردہ آریہ سماج سے ہندو راج کا نعرہ اُدھار لیا اور اسے ہندوئوں میں عام کرنا شروع کر دیا۔ یہاں سے "شُدھی" اور "سنگھٹن" نام کی دو متعصب ہندو تحریکیں پیدا ہوئیں۔ شُدھی کا مطلب تھا، شُدھ کرنا یعنی عقیدہ درست کرنا۔ شُدھی تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ وہ مقامی ذاتوں کے لوگ جو کسی مجبوری یا ذاتی اختیار سے کوئی دوسرا مذہب اختیار کر چکے ہیں، انہیں واپس ہندو دھرم میں لا کر "پوتر" کیا جائے۔
یہ ایک طرح کی ہندوئوں کی "تبلیغی جماعت" تھی جو لوگوں کو گفتگو سے قائل کرتی تھی لیکن اس کی مدد اور اسی تصور کے بھر پور نفاذ کے لئے ایک اور تنظیم بنائی گئی جو اس کا نیم عسکری وِنگ تھی۔ اس کا نام سنگھٹن تھا، یہ تنظیم نہ ماننے والوں کو طاقت، قوت اور سماجی مقاطعہ کے ذریعے واپس ہندو ہونے پر مجبور کرتی تھی۔ ان دونوں کے ملاپ سے بی جے پی کی مادر تنظیم "راشٹریہ سیوک سنگھ" (RSS) نے جنم لیا۔
اس تنظیم کا روحِ رواں، ہندو توا فلسفے کا بانی وی ڈی ساوریکر تھا جس نے 1923ء میں "ہندو توا" نام سے ایک کتاب لکھی جبکہ اس کا پہلا سربراہ مدھو گول وارکر تھا جو ساوریکر کا دوست بھی تھا اور ساتھی ادیب بھی۔ اس نے ہندو توا کے تصور پر بے شمار کتابیں تحریر کر کے ہندو توا کو ایک وسیع نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ اس نظریاتی تحریک کا بنیادی نکتہ صرف اور صرف ایک ہی تھا کہ "یہ ہندوستان یا بھارت دیش ایک پوتر اور پاک سرزمین ہے جسے دیوتائوں نے آباد کیا تھا اور وہ مدتوں یہاں پر رہائش پذیر بھی رہے اور پھر بلندیوں پر جانے کے بعد اپنے پیچھے ایک نسل چھوڑ گئے جو اس خطے کی وارث ہے۔
اس پوتر سرزمین کو باہر سے آئے ہوئے حملہ آوروں، خصوصاً مسلمانوں نے اپنے ناپاک اور پلیچھ وجود سے گندا کیا ہے۔ اب ہندوئوں کو اس سرزمین کو دو طریقوں سے پاک کرنا ہے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ جو مقامی قومیتیں یا نسلیں یہاں پر "موریا" اور "گپتا" زمانے سے آباد چلی آ رہی ہیں ان کی موجودہ نسلوں کو دوبارہ ہندو بنایا جائے جبکہ وہ قومیں جو باہر سے حملہ آوروں کے ساتھ آئی ہوئی ہیں جیسے ترک، مغل، پٹھان، عرب اور انگریز وغیرہ، ان کے ناپاک وجود سے اس خطے کو پاک کیا جائے"۔
یہ تھی وہ نظریاتی بنیاد جس نے راشٹریہ سیوک سنگھ اور پھر اس کی تمام ذیلی عسکری تنظیموں کو جنم دیا اور جب انہوں نے اپنے لئے ڈھیر ساری افرادی قوت اکٹھی کر لی تو پھر وہ سیاسی اُفق پر "بھارتیہ جنتا پارٹی" کے نام پر نمودار ہوئے۔ اس پارٹی نے 1984ء میں اپنے پہلے جنرل الیکشنوں میں صرف دو سیٹیں حاصل کیں۔ لیکن الیکشن لڑنے کے فوراً بعد جیسے ہی انہوں نے بابری مسجد کے نیچے رام جنم بھومی کا معاملہ اُٹھایا رام یاترا نکالنا شروع کیں تو بی جے پی کا گراف اونچا ہونے لگا اور وہ بھارت کی کئی ریاستوں میں الیکشن جیتنے لگی۔
آج 38 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد یہ پارٹی نریندر مودی کی قیادت میں جمہوری اکثریت کے اُصول پر پورے بھارت کے سیاہ سفید کی مالک بن چکی ہے۔ نریندر مودی کو برسراقتدار آئے تقریباً 8 سال ہونے کو ہیں اور اس دوران ہندو توا نظریے نے نہ صرف مضبوط جڑ پکڑ لی ہے بلکہ آج بھارت کا ہندو مکمل طور پر اس آخری بڑے یُدھ (جنگ) کیلئے مکمل طور پر تیار ہو چکا ہے، جس کے تحت اس نے غیر ہندوئوں سے بھارت دھرتی کو پاک کرنا ہے۔ (جاری ہے)