Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Nikal Kar Khanqahon Se Ada Kar Rasm e Shabbiri

Nikal Kar Khanqahon Se Ada Kar Rasm e Shabbiri

مسلمانوں کی تاریخ کا ایک دربار جس میں جبر کا عالم چھایا ہوا تھا۔ فرد واحد کی حکومت تھی۔ جو انکار کرتا اسے شدید عتاب اور ظلم کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا۔ بادشاہ کے نزدیک اسلام کی بھی اپنی ہی ایک توجیہہ تھی۔ اکثر بڑے بڑے علماء محدثین اور صاحبان فکر لالچ اور دھونس سے مہر بہ لب تھے۔ عوام کو یہ کہہ کر چُپ کرا دیا جاتا، کہ بادشاہ بھی تو مسلمان ہے، وہ تمہارا بادشاہ ہی نہیں خلیفہ بھی ہے۔

تم سے زیادہ اللہ نے اسے عزت و تکریم عطا کی ہے۔ وہ حرم میں داخل ہوتا ہے تو اس کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ وہ رسول اکرم ﷺ کے چچا اور اپنے جدِامجد کے حوالے سے آج بھی سیدالانبیاء کے دربار پر حاضری دے تو تزک و احتشام سے بلایا جاتا ہے۔ اس کی اور رسول اکرم ﷺ کی نسل و خانوادہ ایک ہی بنی ہاشم ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں تم میں کوئی عجمی ہے تو کوئی عام سا عربی۔

شدید جبر اور ظلم کے اس دور میں اکثر فقہیوں، محدثوں اور علماء نے دین میں ایک تصور پر بہت زور دیا اور وہ تھا "رخصت" یعنی جب حالات اس بات کی اجازت نہ دیں کہ عام آدمی کے لیے دین کی کس نس پر قائم رہا جا سکے تو پھر باقی دین کو قائم رکھنے کے لیے، برسرعام اقرار کرکے چھوٹ لے لی جائے۔ اسی دور میں جب علماء کی زبانیں گنگ تھیں، اللہ نے ایک عظیم المرتبت شخص کو دین کی ایک صفت "عزیمت" کی توفیق عطا فرمائی۔ بادشاہ تھا، معتصم باللہ اور صاحب عزیمت شخصیت تھے، امام احمد بن حنبل۔

بادشاہ کے حکم پر ان کی مشکیں اس زور سے کس دی گئیں کہ ہاتھ بازو سے اُکھڑ گیا، پھر اسی اُکھڑے ہوئے ہاتھ پر ستر کوڑوں کی ضربیں لگائی گئیں۔ چار وزنی بیڑیوں کا بوجھ پاؤں میں اور اس پر کوڑے اتنے شدید، کہ صرف دو ضربیں لگا کر جلاد پیچھے ہٹ جاتا اور نیا تازہ دَم جلاد بلایا جاتا۔ اس حالت میں اس مردِ حُرّسے کہا گیا کہ بغیر کسی مدد کے اونٹ پر سوار ہوں تاکہ تمہیں طرطوس کے قیدخانے لے جایا جائے۔ قید خانے کے تنگ و تاریک کمرے میں علماء کی ایک جماعت ان سے ملنے گئی اور رسول خدا کی وہ حدیث سنائی جس کے مطابق جان کے خوف سے چُپ رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔

امام نے فوراً ان علماء سے سوال کیا کہ تمہارا اس حدیث مبارکہ کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جب صحابہ نے رسول اکرم ﷺ سے مظالم کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا، تم سے پہلے ایسے لوگ بھی تھے جن کے سروں پر آرا چلایا جاتا تھا اور ان کے جسم کو لکڑی کی طرح چیر دیا جاتا تھا، مگر وہ حق سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ یہ سب علماء جو احمد بن حنبل کو سمجھانے آئے تھے اس لمحے دربار میں موجود ہوا کرتے تھے، جب انہیں کوڑے لگانے کا حکم صادر ہوتا۔ قید خانے میں انہوں نے کہا تمہارے ساتھیوں نے تو تمہارے جیسی استقامت نہیں دکھائی۔ وہ تو تھوڑی سی سختی پر ہی بھاگ گئے۔

اس پر آپ کا جواب تھا، مجھ سے ساتھیوں کا گلہ نہ کرو، بلکہ اپنی دلیل کا جواز اللہ کی کتاب اور رسولﷺ کی سنت سے نکال کر دکھاؤ، درباری علماء مایوس لوٹ گئے۔ جسم خون سے رنگین کر دیا گیا۔ رمضان کا مہینہ تھا، ہوش آنے پر پانی لایا گیا تو کہا، میں تو روزے سے ہوں۔ تشدد ختم ہوا، دربار سے نکلے تو ابن سماعہ کی امامت میں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ صف میں کھڑے ہو گئے۔ نماز کے بعد امام نے سوال کیا۔ آپ کے جسم سے خون جاری ہے، طہارت کہاں سے آئی؟ جواب دیا، حضرت عمرؓ نے تو نماز کی امامت قاتل کے حملہ کے بعد خون میں لت پت صورت میں کی تھی۔ سوال کرنے والے کو اندازہ ہی نہیں تھا، امام احمد بن حنبل کے خون سے مقدس خون اور کیا ہو سکتا ہے۔

ایک اور بادشاہ تھا، روشن خیال، اپنا دین وضع کرنے والا، اس کی ہندو عورت سے شادی کے نتیجے میں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ عاشق مزاج، اٹھارہ بیویوں کا شوہر، انار کلی کا سلیم اور عرف عام میں جہانگیر۔ اس کے دربار میں بھی فقہیان کرام اور علمائے عالی مقام، اوقاف کے تنخواہ داروں کی طرح موجود رہتے تھے۔ پورے ملک میں صاحبان طریقت بھی تھے، جگہ جگہ صوفیاء کے آستانے بھی قائم تھے۔ خود دہلی میں خواجہ باقی باللہ موجود تھے کہ جو صوفیاء میں ایک عظیم مرتبہ رکھتے تھے۔ اکبر کے دین الٰہی کے عمل پیرا جہانگیر کے بارے میں کسی نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے جواب میں کہا، میں تو چقماق کا پتھر ہوں، آگ لگا دوں گا، لیکن چراغ تو شیخ احمد سرہندی ہے۔

وہ شیخ احمد سرہندی جسے لوگ مجدد الف ثانی کہتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ عزیمت کا حوصلہ اور توفیق تو انہیں ہی حاصل ہوئی۔ یہ وہی تھے کہ جنہیں گوالیار کے قلعے کی قیدوبند بھی متزلزل نہ کر سکی۔ جن کی گردن جہانگیر کے سامنے نہ جھک سکی۔ دربار میں کون کون موجود نہ تھا، شیخ وجیہہ گجراتی، شیخ علی متقی، شیخ جلال تھانیسری، ملا محمد جونپوری، مولانا یعقوب کشمیری، ملا عبدالحکیم سیالکوٹی لیکن خانقاہ سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کی توفیق صرف اسی صاحب عزیمت شیخ احمد سرہندی کے حصے میں آئی۔

اسلام کی تاریخ سیدنا امام حسینؓ سے لے کر آج تک رخصت اور عزیمت کے کرداروں سے بھری پڑی ہے اور تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ اس نے زندہ صرف ایسے شخص کا ہی نام رکھا، ایسے شخص کے حوصلے کو ہی پذیرائی دی، اور اسی کو عزت و تکریم سے نوازا جو عزیمت کا علمبردار تھا۔ جبکہ اس کے برعکس ان تمام ادوار کے درباری علماء کے نام آج تاریخ کے گردآلود تذکروں میں بھی ڈھونڈ کر نکالنے سے مشکل سے ملتے ہیں۔

رخصت اور عزیمت کا یہ باب مجھے اس وقت بہت یاد آتا ہے جب میں لاکھوں کے مجمع کو مسواکیں تیز کرتے، عمامے اور شلواریں درست کرتے، جوق در جوق سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے دیکھتا ہوں۔ یہ لوگ خواص کو اپنے درمیان پا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اسے اپنی نصرت قرار دیتے ہیں۔ مجھے یہ سب اس وقت بھی یاد آتا ہے کہ جب میں رنگ برنگے قمقموں، سجی سجائی معطر محفلوں اور خوش الحان نعت خوانوں کی لَے پر سر دھنتے، نوٹوں کی بارش کرتے لاکھوں کے ہجوم کو دیکھتا ہوں۔ مجھے یہ صاحبان عزیمت اس لمحے بھی بہت یاد آتے ہیں جب سرکاری سطح پر کوئی علماء و مشائخ کی کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ وزارتوں، سفارتوں اور گورنریوں کے لیے بھاگتے ہوئے علماء کو دیکھ تاریخ کے یہ روشن کردار میری نظروں میں اور محترم ہو جاتے ہیں۔

امام احمد بن حنبل اکثر کہا کرتے تھے کہ "اے اللہ ابن الہشیم پر رحم فرما۔ بیٹے نے پوچھا، کون ہے یہ شخص؟ کہا جب مجھ پر کوڑے برسانے کے لیے رقہ کے قید خانے سے بغداد لایا جا رہا تھا تو یہ شخص راستہ روک کر میرے قریب آیا اور کہا میں ابن الہشیم ہوں۔ بغداد کا سب سے بڑا چور ہوں، اسّی بار گرفتار ہو چکا ہوں۔ مجھے اتنے کوڑے لگے ہیں کہ جسم کا کوئی حصہ زخم سے خالی نہیں ہے۔ لیکن میں جیسے ہی قید سے چھوٹتا سیدھا چوری کرنے نکل جاتا۔ میں چوری میں ہمیشہ ثابت قدم رہا ہوں، دیکھو کہیں کل روزِ حشر اللہ تم سے یہ سوال نہ کر لے کہ تم تو میری راہ میں ایک چور ابن الہشیم سے بھی کم ثابت قدم تھے۔

کیا یہ سوال میرے آج کے علماء، فقہاء، صوفیاء اور خانقاہ نشینوں سے نہیں پوچھا جائے گا، کیا آج کا طاغوت جو امریکہ کی صورت ہم پر مسلّط ہو چکا ہے، وہ معتصم باللہ اور اکبر و جہانگیر سے بھی زیادہ محترم ہے کہ ان سب کی زبانیں گنگ ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اگر ان لاکھوں کے ورد و وظائف کے مجمعے، یا قوالوں کی دُھن پر رقص کرتے پنڈال کے سامنے ایک دن اکڑ کر کوئی ابن الہشیم کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا، میں بدمعاش ہوں، قاتل ہوں، چور ہوں لیکن ظلم کے مقابلے ثابت قدم ہوں۔ تو اس کی للکار کے سامنے کتنے اس مجمع میں اُٹھ کر یہ کہیں گے کہ ہم کفر پر قائم اس عالمی استعماری نظام کے سامنے تم سے زیادہ ثابت قدم بننا چاہتے ہیں۔ ہم اللہ کے حضور شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں۔ جن معاشروں میں دین کے علمبردار مصلحت کا شکار ہوں، وہاں ہمیشہ آمریت رقص کرتی ہے۔

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.