آج سے گیارہ سال قبل 2 مئی 2011ء کو امریکی صدر باراک اوبامہ نے ٹیلی ویژن پر سرشاری کے عالم میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے اُسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ہلاک کر کے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے۔ اس آپریشن کے بعد اُسامہ بن لادن کے وجود کا کسی کو کچھ پتہ نہ چل سکا کہ وہ معدودے چند لوگ کون تھے جن کے سامنے اسے سمندر میں بہا دیا گیا۔
البتہ وائٹ ہائوس کے ایک کمرے میں میز کے اردگرد بیٹھے ہوئے امریکی حکام کی ایک تصویر ضرور عام کی گئی، جو بڑے انہماک سے سیٹلائٹ کے ذریعے ایبٹ آباد سے آپریشن کو براہِ راست دیکھ رہے تھے۔ وائٹ ہائوس کی سرکاری فوٹو گرافر پیٹی سوزا (Pete Souza) کی لی گئی اس تصویر میں، صدر اوباما کے سیدھے ہاتھ موجودہ صدر اور اس وقت کا نائب صدر جوبائیڈن بیٹھا ہے، بائیں جانب پینٹاگون کا سربراہ سر نیچا کئے اپنے لیپ ٹاپ میں مصروف ہے جبکہ میز کی دوسری سمت وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن چہرے پر حیرت سے ہاتھ رکھے سارا منظر دیکھ رہی ہے۔
اس واحد تصویر کے سوا پوری دنیا کے پاس اُسامہ بن لادن کو مارنے، اس کے ایبٹ آباد والے گھر میں موجود ہونے اور پھر سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے ہیلی کاپٹروں کے آنے اور چلے جانے سے متعلق کسی بھی قسم کی کوئی تصویر یا ویڈیو موجود نہیں ہے۔ کیا اُسامہ بن لادن عراق کے صدر صدام حسین سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا تھا کہ اس کے پھانسی دینے کی مکمل وہ ویڈیو لیک کروائی گئی، جس میں وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے پھانسی والے کمرے میں داخل ہوتا ہے اور ایک بہادر کی طرح موت کو گلے لگاتا ہے، اس کے بعد اس کا لٹکتا ہوا سر بھی دکھایا جاتا ہے۔
اُسامہ بن لادن کا تو کوئی ٹھکانہ ہی باقی نہ تھا، جبکہ صدام سے محبت کرنے والے تو آج بھی عراق میں موجود ہیں جو اس کے دَور کو یاد کرتے ہیں۔ اُسامہ بن لادن کی موت دراصل اس امریکی فیصلے کے لئے ضروری تھی جس کے تحت امریکہ اپنا میدانِ جنگ بدلنے والا تھا۔ ہیلری کلنٹن نے ایک سال پہلے ہی فارن پالیسی میگزین میں بتا دیا تھا کہ امریکہ کا اگلا میدانِ جنگ اور مرکز، مشرقِ بعید، بحرِ ہند اور بحرالکاہل ہو گا، کیونکہ ہم چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور عسکری قوت کو لگام دینا چاہتے ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ سے نکلنے پر دنیا بھر کے ممالک امریکہ سے یہ سوال کر سکتے تھے کہ تم نے ہمیں گیارہ سال افغانستان میں اُلجھائے رکھا اور اب یہ کام ادھورا چھوڑ کر کہاں بھاگ رہے ہو۔ اسی لئے ایک علامت کے طور پر سہی، اُسامہ بن لادن کا خاتمہ ضروری تھا۔
اب کوئی اسے حقیقت سمجھے یا بہترین ڈرامہ، مگر دنیا میں موجود دو سو کے قریب ممالک اور ان کا میڈیا امریکہ کے اس دعوے پر مکمل یقین کرتا ہے کہ 2 مئی 2011ء کو اُسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں موجود تھا، خصوصی سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیلی کاپٹر افغانستان سے اُڑتے ہوئے وہاں آئے، راستے میں انہوں نے ایک جگہ رُک کر پٹرول بھی بھرا، ان میں سے ایک MH-60 بلیک ہاک ہیلی کاپٹر تباہ ہوا، جس کا ملبہ بھی وہ اس تیزی میں اُٹھا کر ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئے، دعویٰ یہ بھی ہے کہ اس آپریشن میں اُسامہ بن لادن کے علاوہ خالد بن لادن، ابو احمد الکویتی، اس کا بھائی ابرار اور ابرار کی بیوی بشریٰ بھی جاں بحق ہوئے۔
اس دعوے کی تصدیق پوری دنیا نے ایسے کی ہے کہ جیسے کوئی صاحبِ ایمان شخص ایمان بالغیب میں اللہ اور یومِ آخرت کی تصدیق کرتا ہے۔ ہر کسی نے مان لیا کہ امریکہ کوئی ثبوت فراہم کرے یا نہ کرے وہ سچ بولتا ہے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد ایک طوفان تھا جو پاکستان میں اُٹھا۔ جس کی کوکھ سے حسین حقانی، اس کا امریکی فوج کے سربراہ مائیک مولن کو لکھا جانے والا مبینہ میمو جس کے ڈانڈے آصف زرداری سے ملائے جاتے ہیں، سپریم کورٹ کے روبرو نواز شریف کی وکلاء والے سیاہ سوٹ میں حاضری، پاکستان کے نظامِ انصاف کے بالکل برعکس جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کا قیام، حسین حقانی کی امریکہ سے پاکستان طلبی، سفیر کی حیثیت سے استعفیٰ، واپس آنے کے وعدے پر ملک چھوڑنے کی اجازت، جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن کا قیام، غرض کیا کچھ نہیں ہوا۔ ایک طوفان تھا آیا اور گزر گیا۔
آج سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں، کسی کو یاد بھی نہیں۔ لیکن اس ایک واقعہ کے بعد اس پورے خطے میں عالمی تعلقات کی نوعیت بدل گئی۔ امریکہ نے منصوبے کے مطابق افغانستان سے رُخصتی کے سفر کا آغاز کر دیا۔ قطر میں طالبان کا دفتر کھل گیا اور اگلے چند سالوں میں افغانستان کو ایک امریکی سیٹلائٹ ریاست بنا کر یہاں سے نکلنے کے پروگرام پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ لیکن اگلے چھ سات سالوں میں طالبان نے ایسی قوتِ مدافعت دکھائی کہ سب کچھ چوپٹ ہو کر رہ گیا اور افغانستان کو طالبان کے حوالے کرنا پڑا۔
دوسری جانب دس سال تک امریکی اشاروں پر رقص کرنے اور دہشت گردی کی جنگ میں نان نیٹو اتحادی کا تمغہ سجانے والے پاکستان کی وفاداری مشکوک بنا دی گئی۔ اس قدر مشکوک کہ جب اس آپریشن کے بارے میں اوبامہ سے سوال ہوا کہ کیا پاکستان کو اس کا علم تھا تو اس نے ایسے انکار کر دیا کہ جیسے، امریکی پاکستان پر اعتبار نہیں کرتے۔
ٹھیک گیارہ سال بعد ایک اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ کابل شہر کے بیچوں بیچ ایک مکان میں القاعدہ کا سربراہ ایمن الظواہری مقیم تھا۔ اس کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کی گئیں اور پھر جب وہ اپنے گھر کے اندرونی حصہ سے مکان کی بالکونی میں آیا تو ایک ڈرون جو اس کی تلاش میں سرگرداں تھا، اس نے صرف اور صرف اسے ہی نشانہ بنایا، جبکہگھر کے باقی مکین بالکل محفوظ رہے۔
وہ امریکی حکام جو سیٹلائٹ کے ذریعے سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیوں کے نمبر تک کی تصاویر دکھا سکتے ہیں، اس اہم ترین واقعے کی ایک بھی تصویر سامنے نہیں لا سکے۔ ڈرون بذاتِ خود کیمروں سے آراستہ ہوتا ہے، جو تصاویر بھیجتا رہتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب شام کے علاقے دیر الزور میں فرات کے کنارے روسی افواج پر امریکی ڈرونز نے حملہ کر کے پوری یونٹ تباہ کر دی تھی، اس کی تصاویر ہی نہیں بلکہ ویڈیو پوری دنیا میں عام کی گئی، مگر ایمن الظواہری پر حملہ کے بعد کچھ دکھانے کی بجائے، بالکل اوبامہ کی طرح صدر جوبائیڈن میڈیا پر آیا اور اسے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیدیا۔
اس واقعے کے بعد جس طرح اُسامہ بن لادن آپریشن سے طرح طرح کے سوالات نے جنم لیا تھا، ویسے ہی اب دنیا بھر میں ایک بحث کا آغاز ہو گیا ہے جو دو اہم نکتوں کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کی اہم ترین شرط یہ تھی کہ طالبان اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
ایمن الظواہری کی وہاں موجودگی کو اس معاہدے کی خلاف ورزی بتایا جا رہا ہے۔ کچھ عرصے میں پتہ چل جائے گا کہ اس سے طالبان حکومت پر کس قسم کا دبائو ڈالنا مقصود ہے۔ جبکہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ ڈرون کہاں سے اُڑا، اس نے کس ملک کی فضائی حدود استعمال کیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ایمن الظواہری کے بارے میں کس ملک نے امریکہ کو اس قدر درست معلومات فراہم کیں کہ وہ کب اور کس وقت بالکونی پر آتا ہے۔ جس طرح ایبٹ آباد آپریشن میں ہیلی کاپٹروں کا آنا اور آپریشن کرنا تو حکومتِ پاکستان نے تسلیم کر لیا تھا، لیکن اُسامہ بن لادن کی موجودگی مشکوک ہی رہی، ویسے ہی طالبان نے ڈرون حملے کی تصدیق تو کر دی ہے لیکن ایمن الظواہری کی موجودگی مشکوک ہے۔
یہ تو آنے والا وقت بتائیگا کہ اس حملے سے خطے میں کونسے مقاصد کا حصول چاہئے۔ جب تک بات واضح نہیں ہوتی آپ ایمان بالغیب سے تصدیق بالقلب کی منزل پر پہنچتے ہوئے اُسامہ کی طرح ایمن الظواہری کی موت کا بھی یقین کر لیں۔