Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Jurm e Zaeefi Ki Saza

Jurm e Zaeefi Ki Saza

اہلِ یورپ کے ذہنی غلام پاکستانی سیکولرز لاکھ ٹوپیاں گھمائیں، تاریخی سچائی مگر یہی کہ قائدِاعظمؒ نے زمین کا یہ ٹکڑا "اسلام کی تجربہ گاہ" کے طور پر حاصل کیا۔ اِن سیکولرز کا المیہ یہ کہ اِن کے نزدیک جب تک سیکولرازم کا لبادہ نہ اوڑھا جائے کوئی اِنہیں "مفکرومدبر" نہیں سمجھے گا۔ اِسی لیے اِن کی تحریروں اور تقریروں میں جابجا مشاہیرِ مغرب کے حوالے تو ملیں گے لیکن مجال ہے جو کبھی علم وفن، فکروفلسفہ، سائنس وٹیکنالوجی اور تاریخ وادب کے نامور مسلم مشاہیر کا حوالہ دیا گیاہو۔ ہم اگر اِن مشاہیر کے صرف نام ہی گنوانے بیٹھ جائیں تو کئی کالم درکار ہوں گے۔ حقیقت یہ کہ یہاں کچھ لوگ محض رواجاََ سیکولر بن بیٹھے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شاید سیکولرازم کی تعریف وتاریخ سے بھی نابلد ہوں۔ سیکولرازم کا سیدھا سادھا مطلب مذہب کو سیاست وریاست سے جُدا کرنا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ قرونِ اولیٰ سے احیائے علوم تک پورا یورپ پاپائیت کے زیرِاثر تھا۔ یہ مذہب کے اجارہ دار کنگ میکرز تھے اور اِن کی مرضی کے بغیر پتا ہل سکتا تھا نہ پرندہ پَر مار سکتا تھا۔ ردِعمل کے طور پر احیائے علوم اور نیشنلزم نے مذہب کو سیاست سے جُدا کر دیا۔ سیکولرازم کی اصطلاح سب سے پہلے 1851ء میں برطانوی مصنف جارج جیوکب ہولیاک نے استعمال کی۔ یہ اصطلاح چرچ اور ریاست کو الگ کرنے کے لیے استعمال کی گئی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے جس کا ریاست اور امورِریاست سے کوئی تعلق نہیں۔ دینِ اسلام مگر اِس کی مکمل نفی کرتاہے کیونکہ ہمارا معاشی معاملہ ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا سماجی یا پھر مذہبی، حکمِ ربی ہی کے تابع ہوتاہے۔ جب رَبِ لَم یَزل نے یہ حکم صادر فرما دیا "اے ایمان والو! پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ" (سورۃ البقرہ 2)۔ تو پھرظاہر ہے کہ ہماری زندگی کا ہر گوشہ دینِ مبیں ہی کے تابع ہوگا۔ اللہ کا یہی حکم علامہ اقبالؒ نے شعری زبان میں یوں بیان کیا

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سیکولر حضرات کی طرف سے اکثر یہ طعنہ ملتا ہے کہ عالمِ اسلام میں دین کا غلبہ ہے کہاں؟ ہماری اِن متاثرینِ اہلِ یورپ سے فقط اتنی گزارش ہے کہ جہاں وہ مغربی مصنفین کو پڑھتے اور سر دھنتے ہیں وہاں وہ اقبالؒ کی صرف 2 نظموں (شکوہ اور جوابِ شکوہ) کا مطالعہ بھی کرلیں، اُنہیں اسلام کا غلبہ نہ ہونے کی وجہ مل جائے گی۔ مکرر عرض ہے کہ رَبِ لَم یَزل کا یہ قطعی فیصلہ ہے، جو اُس کے احکامات سے مُنہ موڑ لیتاہے، راندۂ درگاہ ہو جاتاہے۔ خالقِ کائنات نے قُرآن میں جابجا اپنے بندوں کی نشانیاں بتائی ہیں۔ سورۃ الفرقان آیت 63 میں ارشاد ہوا "رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل اُن کے مُنہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام"۔ سورۃ السجدہ آیت 16 میں مومنین کی یہ نشانی بتائی گئی "اُن کے پہلو (رات کو) بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں اور اپنے رَب کو خوف اور طمع سے پکارتے ہیں "۔ پھر حکم ہوا "اور اپنے دِل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رَب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح ومسا اُسے پکارتے ہیں۔۔۔۔ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط وتفریط پر مبنی ہے" (سورۃ الکعف 18)۔ اِن آیاتِ مبارکہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کیا آج کا مسلم رَب کے بنائے ہوئے معیارات پر پورا اُترتا ہے؟ ہم میں سے کتنے ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے رَب کے نام کی تبلیغ کرتے ہیں؟ کتنے ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں؟ کتنے ہیں جن کے پہلو رات کو اُن کے بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں اور وہ رَب کے خوف سے سہمے رہتے ہیں؟ حقیقت پھر اقبالؒ کی زبان میں

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے

ہم سے کب پیار ہے، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے

یہاں تو عالم یہ کہ کوئی انانیت کے بُت توڑنے کو تیار نہیں۔ ہم ہوسِ زَر میں اتنے اندھے ہوچکے کہ رمضان شریف کے بابرکت مہینے کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ جب کوئی لازمۂ انسانیت سے تہی ہو جائے اور رَب کا باغی تو پھر نصرتِ ربی نہیں، عذاب آیا کرتا ہے۔ آج عالمِ اسلام کی یہ حالت کہ اللہ سے واجبی سا رشتہ لیکن طاغوت کے آگے سجدہ ریز۔ حضورِاکرمﷺ نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا "لوگو! میں تم میں وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں جسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے یعنی کتاب اللہ"۔ اگر ہم قُرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تو وہ رَب جس نے ابرہہ کے بَدمست ہاتھیوں کی فوج کو ننھی مُنی ابابیلوں کے ذریعے ایسے نابود کر دیا جیسے کھایا ہوا بھُس، وہ اللہ ہماری مدد کو بھی ضرور پہنچتا لیکن ہم تو اللہ کو چھوڑ کر طاغوتی طاقتوں کے آگے لرزہ بَراندام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا لیکن ہم گھوڑے بیچ کر سو گئے۔ ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا "بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلے " (سورۃ الرعد11)۔ جب ہم خودہی اپنی حالت بدلنے کو تیار نہیں تو پھر اِس میں دینِ مبیں کا کیا قصور۔ البتہ اپنی حرکتوں کی بنا پر ہم سیکولرز کو طنز کے تیر برسانے کا موقع ضرور فراہم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو دنیا جہاں کی ہر نعمت عطا کر رکھی ہے لیکن ایک طرف تو ہم نے اُن نعمتوں کو اپنی عیاشیوں کا ذریعہ بنا رکھا ہے جبکہ دوسری طرف عالمِ اسلام باہم جوتم پیزار۔ لگ بھگ ایک کروڑ آبادی پر مشتمل اسرائیل اتنا طاقتور کہ یورپ میں "ہولوکاسٹ" کا ذکر تک ممنوع حالانکہ ہولوکاسٹ یہودیوں کا مذہبی معاملہ بھی نہیں اور یہ ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے محض ایک ڈرامہ ہے کیونکہ ہٹلر کا 6 ملین یہودیوں کو قلیل وقت میں گیس چیمبروں کی نذر کرنا ممکن نہیں۔ پھر بھی اِس جھوٹ پر زبان کھولنا ممنوع۔ دوسری طرف شرق تا غرب پھیلے ہوئے عالمِ اسلام کی یہ حالت کہ جس گستاخ کا جی چاہتا ہے مسلمانوں کی عزیزترین ہستی حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ اقدس پر کبھی کتاب لکھ دیتا ہے تو کبھی خاکے بنا دیتاہے اورہم اتنے کمزور کہ مُنہ توڑنے کے قابل بھی نہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ محض جُرمِ ضعیفی کی سزا ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔ عالمِ اسلام ضعف کا شکار اور باہم متصادم۔ اگر پورا عالمِ اسلام یک جان ہوتا تو فرانس کا صدر "آزادیٔ اظہار کا بہانہ نہ تراشتا اور ہمارے وزیرِاعظم کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ اگر فرانس کے سفیر کو نکال دیا تو پورا یورپ ناراض ہو جائے گااور اِس سے ہماری تجارت ختم ہو جائے گی، پیسے پر بوجھ بڑھے گااور مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا۔ بجا مگر اہلِ مغرب سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ جب ہولوکاسٹ پر کوئی بات کرے تو لائقِ تعزیر ٹھہرتا ہے اُس وقت تمہارا "آزادیٔ اظہار" کا شور کہاں جا مرتاہے۔ اگریہودیوں کے جذبات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اظہار کی آزادی کسی گَٹر میں جا سوتی ہے تو کیا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مُردہ ہو چکے؟ قصور اہلِ یورپ کا نہیں، ہمارا اپناہے کہ ہم نے مدت ہوئی "اپنے گھوڑے تیار رکھنا" چھوڑ دیا۔ تاریخ میں جھانک کے دیکھیئے، اہلِ مغرب بھی یہی تھے، مسلمان بھی یہی مگر مسلمانوں کی حکومت کا سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب مسلمان احکامِ الٰہی کے پابند ہوتے تھے۔ اب ہم طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے ہنگامے کرکے اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں اور اہلِ یورپ دور بیٹھے مزہ لیتے ہیں۔