Monday, 30 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Khush Kabrion Ka Mosam

Khush Kabrion Ka Mosam

ہیوسٹن کا موسم دیکھ کرہمیں اپنے عظیم لیڈر عمران خاں کے یوٹرن یاد آجاتے ہیں۔ یہاں درجہ حرارت کبھی 10 سینٹی گریڈ سے کم تو کبھی30 تک جا پہنچتا ہے۔ اِسی لیے ہم سردیوں اور گرمیوں کے کپڑوں میں ایسے ہی اُلجھ کر رہ گئے ہیں جیسے ہماری پیاری اپوزیشن کبھی "آشیرباد" کی خبر پا کر "تکڑی" ہو جاتی ہے تو کبھی پارلیمنٹ میں مُنہ کی کھا کر ٹھُس۔ ہیوسٹن میں آنے کا ہمیں بہرحال ایک فائدہ تو ضرور ہوا کہ ہم بھی "سردوگرم کشیدہ" ہوگئے۔ یہاں چونکہ ہمیں کوئی کام نہیں اور بالکل "وہلے" ہیں اِس لیے وطن سے آنے والی خبروں کا مَن مرضی کا پوسٹ مارٹم کرتے رہتے ہیں۔

17 نومبر کو ہمارے عظیم لیڈر نے تحریکیوں کو اکٹھی 33 خوش خبریاں دیں جو اُن سے سنبھالے نہیں سنبھل رہیں۔ ہم بھی دیارِ غیر میں پریشان تھے کہ کہیں واقعی "وہ ہاتھ" سرہانے دھرے دھرے سو تو نہیں گیالیکن پارلیمنٹ میں شاندار فتح نے ثابت کر دیا کہ "اُس ہاتھ" کا سایہ ہمارے لیڈر کے سَرپر سلامت ہے اِس لیے "سَتّے خیراں نیں "۔ ہمیں یقین کہ اب وہ اینکر اور لکھاری جو یہ سوچتے ہوئے کہ اِس حکومت کا چل چلاؤ ہے، رَسّے تڑوا کر بھاگ گئے تھے، اب وہ بھی یو ٹرن لیتے ہوئے اُسی "کھونٹے" پر پہنچ جائیں گے اور ایک دفعہ پھر "صاف چلی شفاف چلی" جیسے نغمے گونجنے لگیں گے۔ آپس کی بات ہے ہم بھی حکومت کی پتلی حالت دیکھ کر "پھُر" ہونے کا سوچ رہے تھے لیکن بال بال بچ گئے۔

تحریکیوں کے لیے سب سے بڑی خوشخبری الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کی پارلیمنٹ سے منظوری ہے۔ تحریکیے اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اب الیکشن 2023ء میں تحریکِ انصاف دوتہائی تو کیا تین چوتھائی اکثریت سے کامیاب ہو گی اور اِن "موئے" اتحادیوں سے بھی چھٹکارا مل جائے گا جو جاوبے جا ہمارے عظیم لیڈر کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ اتنا بلیک میل تو پیپلزپارٹی کے دَور میں ایم کیو ایم نے آصف زردار ی کو نہیں کیا تھا جتنا وہ کپتان کو کر رہی ہے۔ بہرحال اب ای وی ایم کے آنے سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ تو واقعی حل ہو سکتا ہے شرط مگر یہ کہ زورآوروں کا موڈ نہ بدل جائے کیونکہ اگر موڈ بدل گیا تو یہی ای وی ایم تحریکِ انصاف کی جڑوں میں بھی بیٹھ سکتی ہے۔

حکمرانوں کے نزدیک ایک چھوٹی سی اُڑچن الیکشن کمیشن کی باقی ہے جو "ایویں خوامخواہ رَولا ڈال کر" فضول قسم کے 37 اعتراضات اُٹھا رہا ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کے وزیر شبلی فراز کہتے ہیں کہ 37 میں سے 27 اعتراضات کا تو ای وی ایم سے براہِ راست کوئی تعلق ہی نہیں اور باقی 10 اعتراضات دور کر دیئے گئے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کے مطابق کسی ایک اعتراض کا بھی شافی جواب

نہیں مل سکا۔ اِن 37 اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ ای وی ایم سے ووٹ کی سیکریسی قائم نہیں رہ سکے گی جس سے ووٹ کا تقدس مجروح ہو گا جو خلافِ آئین ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ صاحبانِ مکرم! جہاں بھٹو کی سزائے موت پر دستخط کرنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس نسیم حسن شاہ اقرار کریں کہ بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ "دباؤ" کے تحت کیا گیا، جہاں جسٹس مولوی مشتاق کو بھٹو کی سزا کے فیصلے پر تادمِ مرگ پشیمان رہے، جہاں جسٹس قیوم ملک فیصلہ کرنے کے لیے حکمرانوں کے حکم کا منتظر رہے، جہاں نوازشریف کو 7 سال قید کی سزا سنانے والا احتساب عدالت کا جج اپنے بیانِ حلفی میں کہے کہ اُسے غیراخلاقی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کیا گیا، جہاں گلگت بلتستان کا چیف جج بیانِ حلفی دے کہ اُس کی موجودگی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس کو فون پر حکم دے کہ نوازشریف اور مریم نواز کی الیکشن 2018ء سے پہلے ضمانت نہیں ہونی چاہیے، جہاں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے"اقامے" کا سہارا لیا جائے، جہاں قومی اسمبلی میں اکثریت کے باوجود سینٹر کا الیکشن حفیظ شیخ اور سینٹ میں اکثریت کے باوجود چیئرمین سینٹ کا الیکشن یوسف رضا گیلانی ہار جائیں، جہاں الیکشن 2018ء میں ایک سیاسی جماعت کی شکست دیکھ کر عین موقع پر آر ٹی ایس سسٹم بٹھا دیا جائے، جہاں دھند میں 20 پریذائیڈنگ آفیسرز غائب کر دیئے جائیں، وہاں یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ جسٹس منیر کا مولوی تمیزالدین کیس میں دیا گیا "نظریہئ ضرورت" آج بھی جاری وساری ہے۔ زورآوروں کو جب بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے "نظریہئ ضرورت" اُبھر کر سامنے آجاتا ہے۔

تحریکیے کہتے ہیں عجیب بات ہے کہ ہمارے الیکشن کمیشن کو اب آئین یاد آگیا۔ جس آئین کا رَولا اب الیکشن کمیشن ڈال رہا ہے، 90 فیصد سے زائد آئین سازوں نے تو شاید آئین کی کتاب کھول کر بھی نہیں دیکھی ہو گی۔ جب 37 سال تک جمہوریت مارشل لاؤں کے دَر کی لونڈی گھر کی باندی بنی رہی، تب آئین کہاں تھا؟ کیا الیکشن کمیشن نے مارشل لاؤں کے دوران الیکشن نہیں کرائے؟ اگر کرائے تو پھر کس آئین کے تحت؟ یقیناََ اُس وقت بھی جسٹس منیر کا "نظریہئ ضرورت" ہی کام آیا ہوگا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہماری ای وی ایم کو بھی "نظریئہ ضرورت" ہی سمجھ لیا جائے کیونکہ ہمیں نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے کم از کم 10 سال مزید چاہئیں جو ای وی ایم ہی کے ذریعے ہی ممکن ہے، اب "ساڈی واری رَولا کیوں "؟ ابھی تو ہم نے قوم سے کیے گئے سارے وعدے پورے کرنے ہیں۔ ابھی ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھردینے ہیں۔ ابھی کَٹوں، وَچھوں، مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے ملکی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ ابھی سارے قرضے اُتار کر آئی ایم ایف پر تین حرف بھیجنے ہیں اور ابھی تو ہم نے "ریاستِ مدینہ تشکیل دینی ہے۔ صاحبانِ فکرونظر خوب جانتے ہیں کہ اِن مقاصد کی تکمیل کے لیے کم از کم 20 سے 25 سال درکار ہیں۔ ہم نے تو صرف 10 سال ہی مانگے ہیں پھر حاسدوں کے پیٹوں میں مروڑ کیوں؟

الیکشن کمیشن کے دیگر اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے کہ پولنگ سٹاف کی ٹریننگ کے لیے وقت درکار ہے، ہر پولنگ بوتھ کے لیے ایک آئی پی ماہر کی ضرورت ہے، 2018ء کے انتخابات میں 2 لاکھ 40 ہزار پولنگ بوتھ تھے جو 2023ء کے انتخابات میں 3 لاکھ ہو جائیں گے۔ اِس لیے 3 لاکھ آئی ٹی ماہرین درکار ہوں گے۔ اگر کسی پولنگ سٹیشن پر 20 سے زائد اُمیدوار ہوں گے تو ایک الگ ای وی ایم درکار ہو گی (گزشتہ الیکشن میں آدھے سے زائد پولنگ سٹیشنوں پر 20 سے زائد اُمیدوار تھے)۔ ایسی صورت میں مزید ایک لاکھ ای وی ایم درکار ہوں گی۔ خراب ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر ایک لاکھ اضافی ای وی ایم کی بھی ضرورت ہوگی۔

یہ ای وی ایم جدید ٹیکنالوجی سے لیس نہیں ہیں اِس لیے 2028ء کے عام انتخابات میں یہ ای وی ایم ناقابلِ استعمال ہو جائیں گی۔ اگر قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروائے جائیں تو 30لاکھ مشینیں درکار ہوں گی جن کی حفاظت کے لیے ڈیٹا سنٹر قائم کرنا پڑے گا۔ اِس تمام پریکٹس پر150 سے 200 ارب روپے کی خطیر رقم صرف ہوگی جبکہ 2018ء کے عام انتخابات میں 20 سے 25 ارب روپے کے اخراجات ہوئے تھے۔ زائد رقم کہاں سے لی جائے گی؟ جہاں تک زائد رقم کے حصول کا تعلق ہے تو وہ بجلی، پٹرول اور گیس مہنگی کرکے وصول کی جا سکتی ہے۔ ہماری حکومت کے عظیم حکمران خوب جان چکے ہیں کہ مہنگائی جتنی جی چاہے کر دو یہ قوم "چوں " تک نہیں کرتی۔ اگر پھر بھی پیسے پورے نہ ہوں تو آئی ایم ایف زندہ باد جس کی 5 کڑی شرائط ہم مان چکے۔

پہلی شرط سٹیٹ بینک ترمیمی بِل کی منظوری سے پوری کر دی گئی۔ اِس ترمیم کے بعد گورنر سٹیٹ بینک کو مکمل طور پر خودمختار بنا دیا گیا۔ دوسری شرط بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کی تھی، یہ اضافہ بھی کیا جا چکا۔ تیسری شرط ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ کا خاتمہ، چوتھی شرح سود میں اضافہ۔ یہ شرائط بھی پوری کر دی گئیں۔ پانچویں شرط ڈالر ریٹ 200 روپے تک بڑھاناہے جس کا شنید ہے کہ وعدہ کیا جا چکا۔ جہاں تک باقی اعتراضات کا تعلق ہے اُن کا جواب بھی حکومت کے پاس ہے۔ اپوزیشن ای وی ایم پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر چکی۔ اگر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو بلایا تو وہ اِن تمام اعتراضات کے ساتھ سپریم کورٹ جائے گا۔ پھر جو فیصلہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کرے۔