Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Kya Ye Dehshat Gardi Nahi?

Kya Ye Dehshat Gardi Nahi?

جب 14 مارچ کو میرے سوہنے شہر لاہورکے ایک مخصوص حصے کو "نو گو ایریا" بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی تو مجھے عروس البلاد کراچی یاد آگیا۔ روشنیوں کے اِس شہر کو الطاف حسین نامی دہشت گرد نے اجاڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُس نے کراچی میں جگہ جگہ نوگوایریاز بنائے۔ اُس کے مختصر دَور میں کراچی اُجڑ کے رہ گیا اور اُس کی روشنیاں ماند پڑ گئیں۔ بدقسمتی سے اُس دہشت گرد کو پال پوس کر سامنے لانے والی اسٹیبلشمنٹ تھی اور ماضی قریب میں بھی "لاڈلے" کو گود میں کھلانے والی اسٹیبلشمنٹ ہی تھی۔

سوال یہ ہے کہ لاہور کی اِس تباہی کا دوش کس کو دوں؟ ، اسٹیبلشمنٹ کو، لاڈلے کو یا پھر عدلیہ کو۔ صاحبانِ فکرونظر کہتے ہیں کہ نیوٹرل ہونے کے باوجود فوج کا ایک حصہ آج بھی لاڈلے کی پُشت پر ہے اور اب فوج کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے اُسے گود لے لیا ہے۔ اب تو یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے لاڈلے کے لکھے گئے فیصلوں کو ہی عدلیہ پڑھ کر اپنے فرئضِ منصبی سے عہدہ بَرآ ہو جاتی ہے۔ یہ بھی عین حقیقت کہ تاریخِ عالم میں ایسے فیصلوں کی کہیں نظیر نہیں ملتی جو ہماری محترم عدلیہ لاڈلے کے لیے کرتی ہے۔ انتہا یہ کہ اُس کے لیے تو آئین تک RE-WRITE کر دیا جاتا ہے۔

14 مارچ کو محض ایک ہی رات میں دہشت گردوں نے لاہور کی خوبصورت سڑک (مال روڈ) کو اُجاڑ کے رکھ دیا۔ آرائشی محرابوں اور ٹائلز کو اُکھاڑ کر پتھراؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔ جگہ جگہ آگ لگا کر کنال روڈ کی ساری سجاوٹ پھونک دی گئی۔ وارڈنز کی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور چوکیوں کو جلا دیا گیا۔ پولیس کی 8گاڑیوں کو آگ لگاکر تباہ کر دیا گیا، 2 واٹر باؤزر، ایک بَس اور کئی پرائیویٹ گاڑیوں کو بھی آگ لگا ئی گئی۔ کنال روڈ پر ہر طرف آگ اور دھوئیں کے بادل ہی نظر آئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف گاڑیوں کے نقصان کا تخمینہ ہی 2 کروڑ روپے سے زیادہ کا لگایا جا رہا ہے۔

اِس بربادی کی وجہ یہ بنی کہ توشہ خانہ کیس میں لاڈلے کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے جن کی تعمیل کے لیے نہتی پولیس نے زمان پارک پہنچنے کی جرأت کی جو طبع نازک پر گراں گزری۔ چنانچہ زمان پارک کے بنکرز میں بیٹھے لاڈلے نے پولیس کو سبق سکھانے کا حکم صادر فرما دیا۔ پھر ملک کے مختلف حصوں سے اکٹھے کیے گئے دہشت گرد نہتی پولیس پر چڑھ دوڑے۔

اِس تصادم میں پولیس کے 60 سے زیادہ اہلکار زخمی ہوکر ہسپتال پہنچنے جن میں اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی، گوجرانوالہ کے ڈی پی او اورلاہور پولیس کی لیڈی ایس پی بھی شامل ہیں۔ ڈنڈوں، پتھروں اور غلیلوں سے مسلح دہشت گرد بار بار نہتی پولیس پر حملہ آور ہوتے رہے۔ حیران کُن مناظر تو وہ تھے جب پولیس پر پٹرول بم پھینکے گئے۔ یہ پٹرول بم درختوں پر بنی آماجگاہوں سے پھینکے جاتے رہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ آماجگاہیں پہلے سے تیار کی گئی تھیں۔ یاد رہے کہ پٹرول بم بنانے کے لیے ماہر ہاتھوں کی ضرورت

ہوتی ہے جو لاڈلے کو دستیاب تھے۔ پھر جب لاڈلاباہر نکلا تو لوگوں نے دیکھا کہ اُس نے نیٹو فورس کا ماسک پہن رکھا تھا۔ یہ وہ ماسک تھے جو نیٹو افواج نے افغانستان جنگ کے خاتمے پر وہیں چھوڑ دیئے جو بعد ازاں افغان طالبان کے ہاتھ لگے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ماسک زمان پارک میں پہنچے کیسے؟ کیا تحریکِ طالبان پاکستان کے دہشت گرد بھی گھر کے اندر موجود تھے؟ یہ تو بہرحال طے کہ لاڈلے نے زمان پارک میں دہشت گردی کا پورا بندوبست کر رکھا تھا جو ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے اور اِس نیوکلیئر سٹیٹ کو چیلنج کرنے کا بین ثبوت ہے۔ اِس لیے اب معاملہ محض ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کا نہیں رہا بلکہ دہشت گردی اور حکومتی رِٹ کو چیلج کرنے کا ہے جس پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

15 مارچ کو تحریکِ انصاف کی یوٹیوبر ملیحہ ہاشمی نے ایک ٹویٹ کیا جس میں اُس نے لکھا "آج عمران خاں کی سکیورٹی ٹیم کی تیاری 200 گُنا زیادہ ہے۔ خیبر پختونخوا کے ٹرینڈ مجاہد پہنچ چکے۔ آج پولیس/ رینجرز نے لاقانونیت دکھائی تو بہت نقصان اُٹھائیں گے۔ وہ دہشت گرد بنیں گے تو ویسا ہی جواب ملے گا۔ آج ہیلی کاپٹر کا بھی علاج تیار ہے، وہ غلطی مت کرنا"۔ تحریکِ انصاف کی یہ یوٹیوبر مختلف ٹی وی چینلز پر بطور اینکر بھی کام کرتی رہی ہے۔ اُس کے اِس ٹویٹ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کا مقابلہ عام سیاسی کارکنان سے نہیں بلکہ دہشت گردوں سے تھا۔

عمران خاں کی طالبان سے ہمدردی اور حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ افغان جنگ کے خاتمے پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان سے واپس لا کرپاکستان میں بسانا چاہتے تھے۔ اُنہی کے حکم پر پاکستانی جیلوں میں قید بہت سے طالبان کو رہا بھی کیا گیا۔ اِسی لیے عمران خاں کو "طالبان خاں" بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ عمران خاں کے گرد طالبان ہی کا حفاظتی حصار ہو۔

اپنی گرفتاری کی خبر سُن کر عمران خاں نے زمان پارک میں جَتھے لانے کا حکم بھی دیا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ سے گفتگو کی مبینہ آڈیو لیک ہوئی جس میں یاسمین راشد نے اعجاز شاہ کو کہا "خاں صاحب کا حکم ہے کہ تمام ٹکٹ ہولڈر بندے لے کر زمان پارک پہنچیں ورنہ اُنہیں ٹکٹ نہیں ملے گا"۔ اعجاز شاہ نے جواب دیا "میں نے فون کر دیئے ہیں"۔ یاسمین راشد ہی کی صدر عارف علوی سے گفتگو کی ایک اور آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ بتا رہی ہے کہ اُن کے کارکن پٹرول بم پھینک رہے ہیں جس سے حالات مخدوش ہو گئے ہیں۔

اِس کے علاوہ شنید ہے کہ جب ڈی آئی جی اسلام آباد زمان پارک کے گیٹ پر پہنچے تو اندر موجود گلگت بلتستان کی پولیس کے سپاہیوں نے اُن پر گنیں تان لیں۔ یہ واقعات واضح طور پر دہشت گردی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اِسی لیے جب 16 مارچ کو سیشن کورٹ میں عمران خاں کے وکلاء نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست کی تو ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا "لا اینڈ آرڈر کی صورتِ حال دیکھتے ہوئے عمران خاں اپنے حقوق کھو چکے ہیں۔ عدالت کبھی بھی اس صورتِ حال کو نہیں سراہتی۔ عدالت اسے جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرنا سمجھتی ہے۔

عدالت اِس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عمران خاں کی درخواست قانون اور حقائق کے منافی ہے۔ عدالت عمران خاں کی وارنٹ معطلی کی درخواست مسترد کرتی ہے"۔ ایڈیشنل سیشن جج کے اِس فیصلے کو ہر محبِ وطن نے سراہا کیونکہ اُمید بندھ چلی تھی کہ عدل کی عمل داری ہوگی لیکن "اے بسا آرزو کہ خاک شدہ"۔ ہوا یوں کہ عمران خاں کے وکلاء نے ایک دفعہ پھر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا حالانکہ محض 2 دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق صاحب نے یہی درخواست مسترد کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کو فیصلے کرنے کا حکم دیا تھا۔

حیرت انگیز طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے پولیس کو عمران خاں کے خلاف 18 مارچ تک کارروائی سے روک دیا۔ اُدھر لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے بھی سوائے توشہ خانہ کیس کے باقی تمام کیسز کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔ بصد ادب سوال ہے کہ کیا پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلے بھی کبھی ایسا ہوا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا یقین کر لیا جائے کہ پاکستان میں زورآور کے لیے قانون اور ہے اور کمزور کے لیے اور؟ حقیقت یہی کہ ایسے ہی فیصلوں کی بنا پر لاڈلے کو شہ ملی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اب تحریکِ انصاف حکومتی رِٹ کو چیلنج کرتے ہوئے دہشت گردی پر اُتر آئی ہے۔

یہ تماشا آج نہیں بلکہ 2014ء سے جاری ہے۔ یہ کوئی قصّہئ پارینہ ہے نہ قوم مرضِ نسیاں میں مبتلاء کہ ڈی چوک اسلام آباد کے 126 روزہ دھرنے کو بھول جائے۔ اِس دھرنے کے دوران عمران خاں نے پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے، سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے یوٹیلٹی بِل جلائے، وزیرِاعظم کو ایوانِ وزیرِاعظم سے گھسیٹ کر باہر لانے کا اعلان کیا، پی ٹی وی پر قبضہ کیا، ڈی ایس پی اسلام آباد کی ہڈیاں توڑی گئیں، تھانے پر حملہ کرکے اپنے کارکُن چھڑوائے گئے اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کی تلقین کی۔

اُس وقت بھی شاہراہِ دستور کو مکمل طور پر برباد کرتے ہوئے فُٹ پاتھوں کی اینٹیں تک اُکھاڑ دی گئیں۔ تب بھی قانون حرکت میں نہیں آیا۔ اِس لیے عمران خاں کو حوصلہ تو ملنا ہی تھا۔