Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 342

342

جناح کالونی، لائل پور میں ایک متوسط طبقے کی آبادی ہے۔ لائل پورجسے مجبوری میں اب فیصل آباد کہنا پڑتا ہے۔ اس وقت ایک حد درجہ ترقی کرتا ہوا شہر تھا۔

بڑے وثوق سے عرض کر سکتا ہوں کہ آج سے ساٹھ برس پہلے یہ شہر کی بہترین کالونیوں میں سے ایک تھی۔ جس شخص نے بھی اسے ڈیزائن کیا تھا، وہ بھی کمال ذرخیز انسان ہوگا۔ اس میں حد درجہ کشادہ گراؤنڈ موجود تھے۔

میرے گھر کے نزدیک، چھتری والا گراؤنڈ تھا۔ اس کانام اس لیے پختہ ہوگیا کہ سبزو شاداب میدان کے عین وسط میں ایک بڑی سی چھتری بنی ہوئی تھی۔ اس کے نیچے دس بارہ یا شاید اس سے بھی زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی۔ کالونی کا ذکر چھوڑ کر، وہاں کے مکینوں کی بات کرنا بھی اہم ہے۔ بلکہ حد درجہ ضروری ہے۔

ہمارے گھر کا نمبر342تھا۔ گہرے سبز رنگ کا لکڑی کا مین گیٹ تھا۔ عجیب اتفاق تھا کہ گھر کے گرد و اطراف، تقریباً ایک ہی عمر کے بہت سے بچے تھے۔ جو کہ اب تمام کے تمام بابے بن چکے ہیں۔ آپس میں کھیلنے کے بھرپور مواقع موجود تھے۔

گھر کے بالکل سامنے شاہد، زاہد، اور عابد کا گھر تھا۔ زاہد بھائی، کراچی منتقل ہو گئے۔ انھوں نے نصف صدی پہلے فوٹو گرافی کو پیشہ بنا لیا۔ طول عرصہ، روزنامہ مساوات سے منسلک رہے۔ محترمہ بے نظیر کے حد درجہ قریب تھے۔ مگر عجیب قلندر انسان تھا کہ کبھی بھی محترمہ سے کسی قسم کا کوئی مالی فائدہ نہیں لیا۔

بس ایک جنون تھا کہ ان کے کیمرے سے کھینچی ہوئی تصویروں کا کوئی مقابلہ نہ ہو۔ اور ویسے تھا بھی نہیں۔ کمال سادہ انسان۔ چند دن پہلے معلوم ہوا کہ صاحب فراش ہیں۔

عابد بھائی، ڈسٹرکٹ انفارمیشن افسر، لائل پور بن گئے اورجوانی میں ہی فوت ہو گئے۔ ماجد اور واحد بھی انھیں کے بھائی تھے۔ ماجد، آج فیصل آباد کا بہترین فوٹو گرافر ہے۔ شریف النفس اور حد درجہ مخلص انسان۔ خدا ان لوگوں کے لیے آسانیاں در آسانیاں پیدا کرے۔

اب ذرا دوستوں کی طرف آتا ہوں۔ طارق شریف کا گھر بھی گلی ہی میں تھا۔ طارق سے تعارف بھی حد درجہ عجیب انداز میں ہوا۔ خیال ہے، میں کوئی آٹھ نو برس کا ہوں گا۔ اور طارق کوئی دس گیارہ سال کا ہوگا۔ طارق اور میں چوک کی طرف جا رہے تھے۔

طارق سے کوئی دس بارہ قدم پیچھے تھا۔ اتفاق سے طارق پھسل کر گر پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہنے لگا کہ تم نے مجھے دھکا دیاہے۔

حیران رہ گیا۔ کیونکہ میں کافی پیچھے تھا۔ خیر ہم دونوں کی خوب لڑائی ہوئی۔ پہلی ملاقات خیرقطعاً خوشگوار نہیں تھی۔ خیر دو چار دن بعد، دوبارہ چوک میں ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا۔ دوستی ہوگئی جو آج تک قائم ہے۔

طارق فوج میں چلاگیا۔ برگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوا۔ اورکراچی منتقل ہوگیا۔ لاہور آتا جاتا رہتا ہے۔ طارق شریف، ایک پرتاثیرشخصیت کا مالک ہے۔ ڈاکٹر فاروق علوی کے بقول اگر طارق، پرانے زمانے میں ہوتا تو کسی بادشاہ کے پاس، داستان گو ہوتا۔ کراچی سے لاہور بڑے آرام سے گاڑی چلا کر آ جاتا ہے۔ ایک اتفاق اور بھی ہے۔

میں، ملتان میں اے سی تعینات ہوا، تو طارق ملتان میں بطور کیپٹن موجود تھا۔ شروع شروع میں، طارق کے میس میں منتقل ہوگیا۔

19لانسرز کے تمام افسر، طارق کی وجہ سے دوست بن گئے۔ جب طارق کی شادی ہوئی تو خدیجہ بھابھی نے حد درجہ وضعداری اور خاندانی پن سے شوہر کے پرانے دوستوں کو قبول کیا۔ خدا، بھابھی کو ہمیشہ آسانیوں کی چھتر چھاؤں میں رکھے۔

پچھلی گلی میں ہی، ارشد بٹ کا گھر تھا۔ اس کے والد محترم ایس ڈی بٹ، امریکا سے کیمسٹری کرکے زرعی یونیورسٹی میں تدریس فرماتے تھے۔ بہت سادہ اور شفیق انسان۔ پچاس کی دہائی میں جب امریکا ڈاکٹریٹ کرنے گئے۔ تو وہاں انھیں شہریت دلوانے کی یونیورسٹی نے کاوش کی، مگر بٹ صاحب نے امریکی شہریت حاصل کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اپنے ملک لوٹ آئے۔ طالب علم، انھیں اس سطح کے بزرگوں میں شامل کرتا ہے۔

جنھوں نے خون اور محنت سے اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ارشد بچپن ہی سے اردو ادب کا دیوانہ تھا۔ دس بارہ سال کی عمر میں، پاکستان کے چوٹی کے ادیبوں کو خط لکھتا تھا۔ اور ان کا جواب ہم سب کو سناتا تھا۔ ویسے اچھا زمانہ تھا۔ احمد ندیم قاسمی، شورش کاشمیری اور دیگر ادیب، ہر خط کا جواب دیتے تھے۔

ارشد کے پاس آج بھی یہ خطوط شاید محفوظ ہوں۔ ارشد بٹ بھی حیرت انگیز انسان ہے۔ میں اسے "مرد صحرا" کہتا ہوں۔ پیشہ کی نسبت سے تو ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے۔ مگر اردو ادب پر حد درجہ گہری نظر ہے۔ تاریخ اسلام کی جزئیات سے واقف ہے۔

اور موسیقی کے علم کا سمندر ہے۔ جب بھی اسلامی تاریخ کے کسی واقعہ پر دلیل سے بات کرنی ہو، تو سننے اور سنانے کے لیے "مرد صحرا" کے علاوہ اب پورے شہر میں کوئی نظر نہیں آتا۔ ہاں، موسیقی کی نازک ترین رمزیں، ارشد کی روح میں رچ بس چکی ہیں۔ اگر یہ عرض کروں، کہ سنجیدہ موسیقی سے مجھے روشناس کروانے والا شخص، صرف مرد صحرا ہے۔ جب موڈمیں آتا ہے تو ہلکا سا گنگنا بھی لیتا ہے۔ ویسے ارشد اور طالب علم کی ایک حیرت انگیز تحقیق ہے۔ کشمیری قوم، ہندوستان اور پاکستان میں معدودے چند فیصد ہے۔

دو چار فیصد سے زیادہ کیا ہونگے۔ مگر جتنے زرخیز اور قد آور لوگ، کشمیری قبیل سے ہیں، اس کا تناسب بذات خود محیر العقو ل ہیں۔ ہندوستان کی سیاست پر نہرو خاندان اور پاکستان میں آل شریف، تمام کشمیری نسل کے ہیں۔

آج بھی دونوں ممالک کی سیاست ان کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت علامہ اقبال سے لے کر، نثر کے بادشاہ، سعادت حسن منٹو تک، موسیقی کے گرو، خواجہ خورشید انور سے لے کر شورش کاشمیری تک، یہ تمام لوگ کشمیری ہیں۔ اس کے علاوہ ان گنت قد آور شخصیات ہیں۔ ویسے یہ ایک خوشبودار قوم کی نشانی ہے۔ تعداد حد درجہ کم اور اثر حد درجہ زیادہ۔

محلہ کی نکڑ پر صفدر رہتا تھا۔ اس کا پورا نام مجھے یاد نہیں۔ پر سب اسے صفدر تلی کہتے تھے۔ وہ بنیادی طور پرایک سائنسدان تھا۔ فیوز شدہ بلبوں کو دوبارہ ٹھیک کر لیتا تھا۔ اس کے پاس پچاس سی سی کی موٹر سائیکل تھی۔ جس کے آگے ایک ٹوکری لگائی ہوئی تھی۔ بہت محفلی انسان تھا۔ عمر میں ہم سے قدرے بڑا، مگر بچپن کے تمام خوائص موجود تھے۔

میرے گھر سے متصل گھر، صالح محمد کا تھا۔ صالح محمد ایک نایاب انسان تھا۔ خدا نے اسے تخلیقی قوتوں سے لبالب سرفراز کیا ہوا تھا۔ بنجو سے لے کر ستار، بلکہ ہر ساز کمال مہارت سے بجاتا تھا۔ ساتھ ساتھ خوبصورت ترین پینٹنگز بناتا تھا۔ قدرتی مناظر پر آرٹ ورک اس کا خاصہ تھا۔ شطرنج میں حد درجہ مشاق تھا۔

ملکی سطح پر اس سنجیدہ کھیل کا چیمپئین رہا۔ صالح محمد کہتا تھا کہ جب شطرنج کی بساط پر پہلی چال چلتا ہوں تو اگلی ساٹھ چالیں ازبر ہوتی ہیں۔ آج بھی سمجھتا ہوں کہ اگر اسے مواقع ملتے تو وہ دنیا میں اس کھیل میں نام پیدا کر سکتا تھا۔ خیر جوانی میں خدا کے حضور پیش ہوگیا۔ اب کبھی کبھی اس کے بچوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔

محسن شیخ کا گھر، بھی نزدیک تھا۔ اس کے والد محترم نے اتحاد ٹیکسٹائل مل کی بنیاد رکھی۔ اور آج وہ اور اس کے چچا زاد بھائی کپڑے کا حد درجہ کامیاب کاروبار کر رہا ہے۔ اعظم کا گھر بھی قریب ہی تھا۔ وہ صرف انگلش گانے سنتا تھا۔ پڑھنے لکھنے سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔

آج کل امریکا میں ہے اور آسودہ حال ہے۔ نزدیکی چوک، میں امیر الدین زلف تراش، طیفا بوتلوں والا، رمضان برف والا، موجود تھے۔ یہ تمام حیرت انگیز لوگ تھے۔ امیرالدین کہتا تھا کہ ایٹم بم دراصل اس کے فارمولے کے تحت بنا ہے۔ طیفے سے تمام بچے ادھار پر بوتلیں پیتے رہتے تھے۔

اس نے کبھی پیسوں کا تقاضا نہیں کیا۔ بڑی خاموشی سے بل ہمارے بزرگوں سے وصول کر لیتا تھا۔ یہ چوک اچھے لوگوں کا گلدستہ تھا۔

بھائی عتیق اور ایزد بھائی اکثر چوک پر موجود رہتے تھے۔ ان کا ذکر خیر پھر کبھی سہی۔ ہاں ایک بات عرض کرتا چلوں۔ اپنے گھر کی نسبت سے، آج تک جو بھی گاڑی خریدی ہے۔ اس کا نمبر کوشش کرکے 342 ہی لگوایا ہے۔ ویسے لائل پور کی جناح کالونی میرے لیے جہان حیرت ہے۔ شاید دنیا کی کامیاب ترین یونیورسٹی۔