Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aik Hafta Tulu Aftab Ke Sath

Aik Hafta Tulu Aftab Ke Sath

زردرد

بے قسمت لوگوں کا سورج

سرمئی ملبوس سیاہ کے ساتھ

دل دہلانے والی بولیے

گھنٹیوں کے بغیر

ہر طرف طلوع ہو رہا ہے

یہ ایسے ہے جیسے

کوئی غرقاب کشتی کے گرد نوحہ کناں ہے

***

پرنم سائے دربدر پھرتے رہے

ان کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے

ان کی دھرتی پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنے

جس کے لیے کئی حیلے بہانے اختراع ہوئے

ان مفتوحہ لوگوں کے درمیان

بے یقینی کے ساتھ

میں رہا نوحہ کناں

کوئی منزل تھی نہ کوئی منتہا

کچھ مسائل پا بجولاں

اور کچھ پھولوں کا ہار

پورے سچ سے باقی بچے جو

میری آنکھ میں چبھتے خواب

مرگ تنہا میں پابلونرودا، لکھتا ہے!

موت کی آواز

جیسے پاؤں بن جوتا

یا پھر جیسے ہو بدن ملبوس سے باہر

یا انگوٹھی ہو انگشت بغیر نگینے سے خالی

یا آواز خلا میں

جو موت کے نقش قدم کی چاپ ہے

اور اس کے ملبوس کی گونج ہے

نوبل انعام یافتہ پابلونرودا، ایک عالمی شہرت کا حامل شاعر ہے۔ چلی سے تعلق رکھنے والا یہ شخص، اپنے خیالات اور شاعری کی بدولت ہمیشہ خرابے کا شکار رہا۔ مگر وہ جو لکھ گیا، وہ لازوال ہی نہیں، انسان کو سحر میں مبتلا کرنے والے خیالات ہیں۔

چلی کی اس زبان کا اردو سے کوئی تعلق نہیں، مگر بھلا ہو برادرم بشیر احمد شاد کا۔ جس نے حقیقت میں ایسا کام کر ڈالا، جو ایک احسان بھی ہے اور ایک شہکار بھی۔ شاد نے نرودا کی آفاقی شاعری کا اردو ترجمہ کر ڈالا۔ جو حد درجہ مشکل کام ہے۔ بشیر احمد شاد 1984سے میرا دوست ہے۔ خاموش طبع اور اجلا انسان، انکم ٹیکس کی نوکری کمال ایمانداری سے کی اور پوری زندگی اپنے دامن پر کوئی داغ نہ آنے دیا۔

مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس خاموش طبع انسان کے اندر، علم، شاعری اور تخلیق کا نیلگوں سمندر موجود ہے۔ مگر جب اس ترجمہ شدہ کتاب کو پڑھنے کا موقع ملا۔ تو کم از کم طالب علم تو ششد ر رہ گیا۔ ویسے شاد کی دو کتابیں، "دھوپ اور سائے" اور "چپ دی واج" چھپ چکی ہیں اور ذوق مطالعہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔

پابلونرودا، 1904میں ایک ریلوے کارکن کے گھر پیدا ہوا۔ قصبہ کا نام پارال تھا۔ والدہ بہت جلد دنیا سے رخصت ہوگئی۔ دو سال کی عمر میں والد اپنے خاندان کے ساتھ جنوبی چلی کے شہر "تی موکو" میں منتقل ہوگیا۔ یہاں نرودا کو فطرت کے ساتھ ہم آغوش ہونے کا موقع ملا۔ اس نے دس برس کی عمر سے شاعری شروع کر دی۔ مگر اس کے والد اس کی شاعری سے بہت تنگ تھے۔ وہ اپنے والد سے چھپ چھپ کر نظمیں لکھا کرتا تھا۔

تنہائی پسند نوجوان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے سنتیا گو جانا پڑا۔ وہاں فرانسیسی زبان کا استاد گبرائیلا مسٹرال سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ اس کی شاعری پر اپنے استاد کا حد درجہ اثر ہے۔ نرودا، نے شاعری کی چالیس کتابیں اس دنیا کو عطا کیں۔

رنج و الم کے طوفان سے پوری عمر لڑتا رہا۔ بیس برس جلا وطن بھی رہا۔ 1953 میں اس کی انقلابی شاعری رنگ لا چکی تھی اور چلی ایک عوامی انقلاب کے دہانے پر کھڑا تھا۔ 1971 میں چلی کی کیمونسٹ پارٹی نے اسے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔ مگر وہ سیلواڈ ور الاندے کے حق میں دستبردار ہوگیا۔

23ستمبر1973میں یہ عظیم نوبل یافتہ شاعر کینسر سے جنگ ہار گیا۔ اور اس کا ملک چلی ایک سازش کے تحت جنرل پنوشے کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے بعد چلی میں جو انسانی حقوق کی پامالی ہوئی، وہ بیان سے باہر ہے۔ مگر پابلونرودا خوش قسمت تھا کہ اضافی قیامت دیکھنے سے پہلے دنیا سے چلا گیا۔

عنفوان شباب میں"محبت کی بیس نظمیں"لکھنے والا اور بعد میں"کانٹوجنرل" جیسے سنجیدہ شاہکار کا خالق اب ایک باوقار موت کی باتیں کرنے لگتا ہے۔

میرے محبوب

اب وقت آ پہنچا ہے

کہ اداس گلابوں کی پتیوں کو ریزہ ریزہ کر دیاجائے

ستاروں کو بجھا کر ان کی راکھ

زمین میں دفن کر دی جائے

صبح دم ہوتے ہی

جاگنے والوں کے ساتھ

اس ساحل سمندر پر اتر جائے

جس کا کوئی کنارہ نہ ہو

یا پھر سونے والوں کے ساتھ

محو خواب رہا جائے

"سمندر کا گیت مرتا ہے"

موت سے قبل، نرودا نے "جگنو" نام کی نظم تخلیق کی، جسے وہ "یاد گار کتبہ" کہتا ہے۔ اس کتبے کی چند سطریں ملاحظہ ہوں۔

آج وہ ایک گھنے جنگل میں

دشمن کی آوازیں بن کر

بھاگا جا رہا ہے

دشمن سے نہیں اپنے آپ سے دور اس انبوہ کثیر کے شور سے دور

جوہمیشہ اس کے گرد

ایک کورس کی مانند نغمہ سرا رہا

زندگی کی معانی سے دور

خاموشی کے اس پر سکون لہجے میں

لہروں کی مدھر لے

مجھے سچائی سے ہم کنار کرتی ہے

اب میں کیا کہوں؟ سب کچھ تو ہو چکا

جنگل کی تمام راہیں مسدود ہیں

سورج پنکھڑیوں کے بند منہ کھول رہا ہے

چاند ایک سفید پکے ہوئے پھل کی مانند نظر آ رہاہے

اور انسان اپنی تقدیر کے آگے سرنگو ہے

تم ہر روز میرے خیالوں سے کھیلتے ہو!

ڈر کے مارے

پرندے چھپ جائیں گے

سوکھے پتوں کو

طوفان اڑا لے جائے گا

ان کشتیوں کے بادبان کھل جائیں گے

جنھیں کل رات آسمان کے ساتھ باندھا تھا

میں اکیلا طوفان کا مقابلہ کروں گا

وینس کے ملاحوں کا گیت!

دل کی آواز کیکڑے کی چیخ بن جاتی ہے

اے سمندر

میں نے کشتیوں کی تباہی کا خوف

تمہارے پانیوں میں گھول دیا ہے

بکھری بکھری لہروں سے

جھکے جھکے سایوں سے

اور سر سبز لالے کے پھولوں سے

سمندر سوال کرتاہے

چہل قدمی!

حجام کی دکان کی بونے

مجھے سسکیاں لینے پر مجبور کر دیا

میں پتھروں اور اون کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا

میں انتظامیہ کو دیکھ دیکھ کر اکتا گیا ہوں

میں باغوں کو نہیں دیکھنا چاہتا

شیشوں کے پیچھے سجی چیزیں مجھے اب

نہیں بھاتیں

برقی سیڑھیوں پر چڑھ چڑھ کے اب میں تھک گیا ہوں

میرے دوست، بشیر احمد شاد، آپ نے یہ تخلیقی کام کرکے مجھے تو حیران کر دیا ہے۔ علم نہیں تھا، کہ آپ میں بھی کرب، تیشہ کی طرح، زخم لگا لگا کر تخلیق کا وہ سمندر باہر نکال رہا ہے جو آپ کے خاموش چہرے سے بالکل معلوم نہیں پڑتا!