آج کل قدرے فراغت ہے۔ باہر آناجانا موقوف ہے۔ وباء ہرایک کے سامنے موت کے پَر پھیلائے کھڑی ہے۔ بہرحال احتیاط لازم ہے۔ سائنسی تحقیق نے جوباتیں بتائی ہیں، انکواَپناکر بڑی آسانی سے موجودہ وباء یعنی کوروناسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ایک مسئلہ اوربھی ہے۔ اس پرپہلے کبھی شدت سے غورنہیں کر پایا۔
تمام دن واٹس ایپ(Whatsapp)پراَن گنت وظائف، دعائیں اورفرمودات موصول ہوتے رہتے ہیں، جوبھیجنے والوں کے نزدیک آپکوکورونایاکسی بھی وباء سے محفوظ کردینگے۔ آجکل وقت میسرہے۔ اسلیے جب اسلامی تاریخ اورمسلمانوں کے عروج کے معاملات پڑھنے شروع کیے، توآنکھیں چندھیاگئیں۔ آج سے آٹھ سویاہزارسال برس مسلمان تومکمل طورپرتدبیرکے قائل تھے۔
اس زمانے کے جنگی اورسماجی علوم کے ذریعے مسائل کوحل کرتے تھے۔ یقینادعابھی کرتے تھے۔ مگر جدیدترین علوم کوبروئے کارلانے کے بعد، قدیم وقتوں کے مسلمانوں نے ہرگزہرگزیہ نہیں کیاکہ کسی بھی بڑی مہم یاجنگ یاکسی بھی اہم معاملے کوصرف دعائوں یا وظائف سے حل کرنے کی کوشش کی ہو۔ اسی دورانیہ یعنی آٹھ سویاہزارسال قبل، مسلمانوں کی مخالف قومیں اپنے اپنے مذاہب کے حساب سے عمل کے بجائے صرف دعا پر انحصارکرتی تھیں۔ نتیجہ وہی ہوا جو قدرت کے قوانین کے عین مطابق تھا۔
مسلمان ہر میدان میں سرخرو ٹھہرے۔ ان کی جدوجہد اس قدرجامع تھی کہ دنیاکے بادشاہ بن گئے۔ اسلام دنیاکے کونے کونے میں پھیل گیا۔ دعاکی اہمیت سے انکارممکن نہیں۔ مگرعمل کے بھرپوراستعمال کے بعد دعا کارگر ہو پاتی ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ دنیادراصل اسباب اور شدید محنت کی دنیاہے۔ مگراب معاملہ مکمل طورپر اُلٹ ہوچکا ہے۔ مسلمان عمل سے کوسوں دورہیں اور تقلید، وظائف اورمحض دعائوں سے اپنے حالات درست کرنے کی کوشش میں مشغول ہیں۔
اس کے بالکل برعکس، دیگر مذاہب کے لوگوں نے عمل کی شمشیرسے ہرمسئلہ کو تسخیر کر ڈالاہے۔ ایک ہزارسال بعدمعاملہ بالکل پلٹ چکا ہے۔ مسلمان، ان کی جگہ پرپہنچ چکے ہیں اورہماری متحارب قوموں نے، ہمارے پرانے اسلوب اپنالیے ہیں۔ میرا، مقصد ہرگز ہرگز دعا سے دوری کا نہیں ہے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ کسی بھی معاملے کوحل کرنے کے لیے علم، دلیل، تحقیق اورعملی جدوجہدکووطیرہ بنائیں۔ پھر دعا کا سہارا لیجیے۔ دنیا پہلے کی طرح آپکے قدموں میں ہوگی۔
دعااورجدوجہدکے متعلق جس بہادری، جرات اورعلمیت سے ہمارے ہی زمانے کے ایک عالمِ دین اور سیاستدان یعنی ابوالکلام آزاد نے بحث کی ہے، کم ازکم پہلے میری نظرسے نہیں گزری۔ ابوالکلام آزادکے سیاسی خیالات اپنی جگہ۔ ذاتی طورپران سے متفق نہیں۔ مگر دین، تاریخ، فلسفہ اورفقہ پران کی گہری نظرسے قطعاً روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ ان کی لکھی گئی کتاب "غبارِخاطر" ایک نایاب اوربہترین کتاب ہے۔ جسکاایک ایک لفظ اسلام سے محبت اورآقاؐکی ذات سے عشق میں گندھا ہوا ہے۔
عرض کرنے کامقصدیہ کہ غبارِخاطر ایک دینی عالم نے تحقیق اورذاتی تجربات کی روشنی میں قلم بندکی ہے۔ کمال لکھی گئی ہے۔ طالبعلم، اس کتاب سے تین واقعات آپکی خدمت میں پیش کرناچاہتاہے۔ تاکہ آپکواندازہ ہوکہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اپنی سوچ اورعمل میں کتنے جدیدتھے۔ اورپھرکس طرح وہ مکمل طورپرعمل کی دنیاسے نکل گئے۔ اورپھرمکمل طورپرترقی یافتہ قوموں کی غلامی میں آگئے۔ آزادلکھتے ہیں۔
"صلیبی جہادنے ازمنہَ وسطیٰ کے یورپ کو مشرقِ وسطیٰ کے دوش بدوش کھڑاکردیاتھا۔ یورپ اس عہدکے مسیحی دماغ کی نمایندگی کرتاتھا، مشرقِ وسطیٰ مسلمانوں کے دماغ کی، اوردونوں کی متقابل حالت سے اس کی متضاد نوعیتیں آشکاراہوگئی تھیں۔ یورپ مذہب کے مجنونانہ جوش کاعلم بردارتھا، مسلمان علم ودانش کے علمبردار تھے۔ یورپ دعائوں کے ہتھیارسے لڑناچاہتاتھامسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ یورپ کا اعتماد صرف خداکی مددپرتھا۔
مسلمانوں کاخداکی مددپربھی تھا لیکن خداکے پیداکیے ہوئے سروسامان پربھی تھا۔ ایک صرف روحانی قوتوں کامعتقدتھادوسراروحانی اورمادی عمل کے ظہورکا۔ معجزے ظاہرنہیں ہوئے لیکن نتائج عمل نے ظاہرہوکرفتح وشکست کافیصلہ کردیا۔ ژواین ویل کی سرگزشت میں بھی یہ متضادتقابل ہرجگہ نمایاں ہے۔ جب مصری فوج نے منجنیقوں (Petrays)کے ذریعہ آگ کے بان پھینکنے شروع کیے توفرانسیسی جنکے پاس پُرانے دستی ہتھیاروں کے سوااورکچھ نہ تھا، بالکل بے بس ہوگئے۔ ژواین ویل اس سلسلے میں لکھتاہے،
"ایک رات جب ہم ان برجیوں پرجودریاکے راستے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھیں، پہرہ دے رہے تھے، تواچانک کیادیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک انجن جسے پٹریری(یعنی منجنیق)کہتے ہیں، لاکرنصب کر دیااوراس سے ہم پرآگ پھینکنے لگے۔ یہ حال دیکھ کر میرے لارڈوالٹرنے جوایک اچھانائٹ تھاہمیں یوں مخاطب کیا۔
"اس وقت ہماری زندگی کاسب سے بڑا خطرہ پیش آگیاہے کیونکہ اگرہم نے ان برجیوں کونہ چھوڑااورمسلمانوں نے ان میں آگ لگادی توہم بھی برجیوں کے ساتھ جل کرخاک ہوجائینگے۔ لیکن اگرہم برجیوں کوچھوڑکرنکل جاتے ہیں توپھرہماری بے عزتی میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ ہم ان کی حفاظت پرمامورکیے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں خداکے سواکوئی نہیں جو ہمارا بچائوکرسکے۔ میرامشورہ آپ سب لوگوں کویہ ہے کہ جونہی مسلمان آگ کے بان چلائیں، ہمیں چاہیے کہ گھٹنے کے بَل جھک جائیں اوراپنے نجات دہندہ خداوندسے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہماری مددکرے۔"
چنانچہ ہم سب نے ایساہی کیا۔ جیسے ہی مسلمانوں کاپہلابان چلا، ہم گھٹنوں کے بَل جھک گئے اوردعامیں مشغول ہوگئے۔ یہ بان اتنے بڑے ہوتے تھے، جیسے شراب کے پیپے اور آگ کاشعلہ جوان سے نکلتاتھا، اس کی دُم اتنی لمبی ہوتی تھی جیسے ایک بہت بڑانیزہ۔ جب یہ آتاتوایسی آواز نکلتی جیسے بادل گرج رہے ہوں۔ اس کی شکل ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے ایک آتشیں اژدہاہوامیں اُڑرہاہے۔ اس کی روشنی نہایت تیزتھی۔ چھائونی کے تمام حصے اس طرح اُجالے میں آجاتے جیسے دن نکل آیاہو۔ اس کے بعد خود لوئس کی نسبت لکھتاہے۔
"ہرمرتبہ جب بان چھوٹنے کی آوازہماراولی صِفت بادشاہ سنتاتھا، توبسترسے اُٹھ کھڑا ہوتاتھااورروتے ہوئے ہاتھ اُٹھااُٹھاکرہمارے نجاتِ دہندہ سے التجائیں کرتا۔ مہربان مولیٰ میرے آدمیوں کی حفاظت کر!میں یقین کرتاہوں کہ ہمارے بادشاہ کی ان دعائوں نے ہمیں ضرورفائدہ پہنچایا"۔ لیکن فائدہ کا یہ یقین خوش اعتقادانہ وہم سے زیادہ نہ تھاکیونکہ بالآخیر کوئی دعابھی سودمندنہ ہوئی اورآگ کے بانوں نے تمام برجیوں کوجلاکرخاکسترکردیا"۔ مسلمان مکمل طورپر فاتح ٹھہرے۔ (صفحہ(159-160
مگراس کے بعدمسلمان علم، تحقیق کی دنیاسے نکل کر تقلیدکے میدان میں داخل ہوگئے۔ آزادلکھتے ہیں۔ "یہ حال توتیرھویں صدی مسیحی کاتھا۔ لیکن چندصدیوں کے بعدجب پھریورپ اورمشرق کامقابلہ ہوا، تواب صورتحال یکسراُلٹ چکی تھی۔ اب بھی دونوں جماعتوں کے متضادخصائص اسی طرح نمایاں تھے، جس طرح صلیبی جنگ کے عہدمیں رہے تھے۔ لیکن اتنی تبدیلی کے ساتھ کہ جودماغی جگہ پہلے یورپ کی تھی وہ اب مسلمانوں کی ہوگئی تھی اورجوجگہ مسلمانوں کی تھی، اسے اب یورپ نے اختیارکرلیاتھا۔
اٹھارویں صدی کے اواخرمیں نپولین نے مصرپرحملہ کیا تومرادبک نے جامع ازہرکے علماء کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیاتھاکہ اب کیاکرنا چاہیے۔ علمائے ازہرنے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کاختم شروع کردیناچاہیے کہ انجام مقاصدکے لیے تیربہدف ہے۔ چنانچہ ایساہی کیاگیا۔ لیکن ابھی صحیح بخاری کاختم، ختم نہیں ہواتھاکہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کاخاتمہ کردیا۔
شیخ عبدالرحمن الجبرتی نے اس عہدکے چشم دیدحالات قلم بندکیے ہیں اوربڑے ہی عبرت انگیزہیں۔ بالکل اسی طرح، انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخاراکامحاصرہ کیاتھاتوامیربخارانے حکم دیاکہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھاجائے۔ اُدھرروسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہرکاحصارمنہدم کررہی تھیں ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے، وظائف پڑھ رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلاجوایک ایسے مقابلہ کا نکلنا تھا، جس میں ایک طرف گولہ بارودہو، دوسری طرف ختم خواجگان! دعائیں ضرورفائدہ پہنچاتی ہیں مگراُنہی کوپہنچاتی جوعزم وہمت رکھتے ہیں، بے ہمتوں کے لیے تووہ ترک عمل اورتعطل قویٰ کاحیلہ بن جاتی ہیں "۔ (صفحہ161)
اسلام بنیادی طورپر عمل کادین ہے۔ اس انقلابی مذہب کواپناتے ہوئے مسلمانوں نے پوری دنیاپرغلبہ حاصل کرلیا۔ توہم پرستی، کاہلی اور زبانی جمع خرچ سے بالاترہوکرخدااوراس کے نبیؐ کا پیغام پورے کرہِ اَرض پر پھیلا دیا۔ ماضی کی سُپرپاورز، روم اورفارس کوروندکررکھ ڈالا۔ مگر اس کے بعدہم لوگوں نے مذہب کو تقلیداوروظائف کا دین بنادیا۔ موجودہ وباء آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
خداراسوچیے کہ آج کوروناوائرس کی تحقیق میں ہمارا کیا رول ہے اورمغربی دنیاکس جانفشانی سے سائنس اور جدیدعلوم کومدِنظررکھتے ہوئے اس کا علاج دریافت کرنے کے لیے کتنی عظیم جدوجہدمیں مشغول ہے۔ خدارا، دین کی اساس کواپناتے ہوئے، سائنس، جدیدعلوم اور تحقیق کواپناروزمرہ کا وطیرہ بنائیے۔ شائدہماری تنزلی کا سفررُک جائے۔ یا ختم ہی ہوجائے۔ پرمجھے تویہ سب کچھ خواب سا لگتا ہے۔ ہمیں گہری نیندسلادیا گیا ہے۔ مسلمان آنکھیں کھول کر سوئے ہوئے ہیں۔ ہمارا مجموعی طورپر کوئی مستقبل نہیں ہے!