مقصود نے گالف کھیلتے ہوئے سفید بال کو زور سے ہٹ لگائی۔ بال انتہائی تیزی کے ساتھ غلط سمت میں جا کر جھاڑیوں میں چلی گئی۔ مقصودپروفیسرٹائپ انسان ہے۔ ٹائپ نہیں، بلکہ ریٹائرڈ اُستاد ہے۔
امریکا کی ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات پڑھانے میں ساری زندگی گزار دی۔ دو ماہ کے لیے سردیوں میں پاکستان آ جاتاہے۔ ویسے کیوں آتا ہے، اسکا جواب اسے بھی نہیں معلوم۔ میں اورمقصودکبھی کبھی لاہورکے ایک گالف کورس میں گالف کھیلتے ہیں۔ متضادسمت میں بال جانے کے بعدمقصود خاموشی سے چلناشروع ہوگیا۔
گالف کی فلائٹ میں چار لوگ تھے، دوپرانے اورجہاندیدہ فوجی افسر، میں اورمقصود۔ اس کے بعدمیری باری تھی۔ میں نے بال کوہٹ کیاتووہ قدرے توازن سے گرین کے نزدیک پہنچ گئی۔ فاتحانہ انداز میں مقصودکودیکھاتوانتہائی خاموش اورسنجیدہ نظرآیا۔ ایسے لگا کہ کسی گہری سوچ میں ہے۔ ویسے لوگوں کواندازہ نہیں، گالف انتہائی مشکل گیم ہے۔ یہ توجہ نہیں بلکہ بھرپورتوجہ مانگتی ہے۔
انسان تھوڑاسابھی ادھراُدھرسوچنے لگے تودرست طرزپرکھیل نہیں سکتا۔ مجھے لگاکہ مقصودآج کسی اورذہنی سوچ میں مبتلاہے۔ اندازے کی وجہ اس کی غلط شاٹ تھی۔ عرض کرتاچلوں کہ مقصودانتہائی زیرک اوربہترین کھلاڑی ہے۔ مگر آج کیاہوا۔ اس وقت پوچھنامناسب نہ سمجھا، کھیل کے بعدکافی پیتے ہوئے، مقصودسے پوچھاکہ کیامسئلہ ہے۔ عرض کرتاچلوں کہ مقصودامریکا کی بہترین یونیورسٹی یعنی ہارورڈکافارغ التحصیل ہے اوراپنی مرضی سے پوری زندگی درس وتدریس کے لیے وقف کر دی۔ میری نظرمیں وہ ایک اچھا انسان ہے۔
مقصود نے ایک دم کہا کہ ڈاکٹر، کیاواقعی پاکستان موجودہ کشیدہ بین الاقوامی صورتحال کے اندرامن کے ساتھ کھڑاہواہے؟ کیادنیاکاکوئی بھی ملک پاکستان کے اس بیانیہ سے متفق ہوگا؟ کیاہمارے ملک نے کبھی بھی دنیامیں امن قائم کرنے کے لیے کوئی مثبت کرداراداکیاہے۔ میں خاموشی سے سنتارہا۔ مقصودبات کرتارہا۔ بین الاقوامی تعلقات پڑھاتارہاہوں۔ امریکا یایورپ میں کبھی کسی بھی کانفرنس میں گیااوراپنے آبائی وطن کاذکرکیاتولوگ چوکنے ہوجاتے ہیں۔
اکثراوقات توان کا رویہ ہرگز مثبت نہیں ہوتا۔ کئی لوگ نفسِ مضمون بدل کرموسم پرتبصرہ شروع کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کادنیامیں تاثرحددرجہ منفی ساہے۔ کوئی بھی اسے امن کا پیامبرنہیں سمجھتا۔ بلکہ اب توکوئی بھی ہمارے بیانیے کوسنجیدگی سے نہیں لیتا۔ میراسوال تھاکہ موجودہ حکومت نے طویل عرصے کے بعدانتہائی درست فیصلہ کیاہے کہ امریکا اورایران کے مابین کشیدگی میں وہ "امن کے ساتھ"کھڑے ہیں۔ یہ بیانیہ توحددرجہ مثبت ہے۔ پاکستان نے تویہاں تک کہاہے کہ ہم ان متحارب ممالک کے درمیان سفارت کاری سے بہترنتائج برآمد کرواسکتے ہیں۔ مقصودایک دم خاموش ہوگیا۔ پھرآہستہ سے کہاکہ کیاکوئی بھی فریق اتناسادہ ہے کہ ہماری باتوں پر یقین کریگا۔ کیاسب کومعلوم نہیں کہ ہم ایک طفیلی ریاست ہیں۔ کیا ہمارا کفیل ہمیں اب حکم نہیں دیتاکہ یہ کرواوریہ نہ کرو۔ بلکہ وہ توفرمان جاری کرتاہے کہ ہم وہاں جائیں اوروہاں نہ جائیں۔
یو۔ اے۔ ای بھی ہمیں اپنے گھڑے کی مچھلی سمجھتاہے۔ عرب ممالک میں پاکستانیوں کے متعلق "مسکین"کاصیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایران میں بھی مجموعی طورپرہمارامثبت تاثرنہیں ہے۔ میرا جواب تھاکہ درست ہم نے ماضی میں فاش غلطیاں کی ہیں۔ مگر انھیں درست بھی تو کیا جاسکتا ہے۔
مقصودنے کہاکہ ممکن نہیں۔ ہاں اگر سوئٹزرلینڈجیسی بصیرت والی قیادت ہو تو ہوسکتا ہے۔ کیونکہ دنیامیں وہ ان چندممالک میں سے ہے جوواقعی عملی طور پر غیرجانبدارہیں۔ مگرمکمل غیرجانبدارہونے میں انھیں حددرجہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دوچاردہائیوں میں نہیں ہوا۔ بلکہ عزت کے اس مقام پرپہنچنے کے لیے انھیں تین سے چار صدیاں لگی ہیں۔ میرے لیے صدیوں کی بات بہت عجیب سی تھی۔ ایسے لگاکہ اردگردسبزگھاس سے تمام سوئے ہوئے جگنو باہر نکل کرتالیاں بجارہے تھے اورکہہ رہے تھے، غیرجانبدار، غیرجانبدار، پاکستان غیرجانبدار۔ سوئٹزرلینڈ بھی غیرجانبدار۔ دونوں ملک نیوٹرل۔ پھرجگنوؤں نے قہقہے لگانے شروع کردیے۔ میں اس خاموش شورسے اُٹھااور گھر واپس آگیا۔
اگلے دن سوئٹزرلینڈکی تاریخ پڑھی توحیران رہ گیا۔ کہ خدایاایسے بھی ملک ہوتے ہیں جنکے قائدین1515میں بھی اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ انکاملک کسی قسم کی جنگ سے دوچارنہ ہو۔ دراصل1515میں سوئس کنفیڈریشن کو مارگ نانو(MarigNano)میں شکست ہوئی۔ یہ جنگ ستمبرمیں ہوئی تھی۔ اس کے ٹھیک دس ماہ بعدسوئس حکومت نے فرانس کے ساتھ امن کامعاہدہ کرلیا۔ یہ1516کی بات ہے۔ یعنی آج سے پانچ سوسال پہلے ان لوگوں کومعلوم تھاکہ امن کے فوائدکیاہیں اورلوگوں کے لیے پرامن ماحول کتنا ضروری ہے۔ کیاآپ اس امرسے حیران نہیں ہونگے کہ اس وقت برصغیرمیں کیاہورہاتھا۔ ہمارے آباؤاجدادکس عہد سے گزررہے تھے۔
یہ دور، دہلی سلطنت کاتھا، جو 1206 سے لے کر1526پرمحیط تھا۔ جس میں مملوک، خلجی، تغلق، سید اورلودھی خاندان حکومت کرتے رہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب یورپ میں ملک امن کے متعلق سوچ رہے تھے توبرصغیرمیں امن نام کی کوئی فاختہ نہیں تھی۔ باہمی لڑائیاں، جنگیں اورخلفشارپورے برصغیرکا وطیرہ تھا۔ اسی افراتفری میں 1526میں اپنے علاقے میں بابرجیسے ناکام حکمران نے وسط ایشیاسے آکراس پورے خطے کوفتح کرلیااورمغل دورشروع ہوگیا۔ ایک تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی۔ یعنی آج سے پانچ چھ سوسال پہلے بھی مسلمان ایک دوسرے کی گردن کاٹ رہے تھے۔ بدقسمتی سے آج بھی بالکل وہی حال ہے۔ مگر دنیاخصوصاً یورپ کاخطہ فکری اورعملی طورپربدل رہا تھا۔
1648 میں سوئٹزرلینڈمیں Peace of Westphotia جیسے معاہدے ہورہے تھے جن میں جوہری طورپرخطے کو جنگ سے دوررکھنے کے اقدامات تھے۔ 1798 میں فرانس نے سوئٹزرلینڈپرقبضہ کرلیا۔ یہ ایک انتہائی بدقسمت وقت تھا۔ مگر1798 میں ایک علاقائی آئین بنایاگیاجس میں فرانس نے تسلیم کیاکہ وہ بحیثیت ملک، سوئٹزرلینڈکی غیرجانبداری کی حفاظت کریگا۔ پہلی جنگ عظیم کاوقت سوئٹزرلینڈکی فکری اساس پرکافی بھاری تھا۔ اس میں غیرجانبداررہنامشکل نظرآرہاتھا۔ ملک متحارب فریقین کے درمیان جغرافیائی طورپرپھنساہواتھا۔
اس میں جرمن نسل کے لوگ بھی موجودتھے جوکہ جرمنی اورآسٹریاکے ذہنی طور پر بہت قریب تھے۔ اس کے متضادفرانس اوراٹلی، اس کے ہمسایہ تھے اور جرمنی کے خلاف لڑرہے تھے۔ آپ سوئٹزرلینڈکی قیادت کاکمال دیکھیے کہ پہلی جنگِ عظیم میں وہ غیرجانبدار رہنے میں کامیاب ہوگئے۔ 1920میں لیگ آف نیشنز (League of Nations)نے سوئٹزرلینڈکومکمل طورپرنیوٹرل ملک تسلیم کرلیا۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔ یہ بلندمنصب برصغیرکی قسمت میں اس وقت بھی نہیں تھا اوربدقسمتی سے آج بھی نہیں ہے۔
خیردوسری جنگِ عظیم تک سوئس سوچ بہت بالغ ہوچکی تھی۔ اس بارپھراس امن پسندملک نے کسی بھی فریق کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکارکردیا۔ جرمنی نے سوئٹزرلینڈ پرحملہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ مگرسوئس لوگوں نے جرمنی کا ساتھ دینے سے انکارکردیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں سوئٹزرلینڈنے اپنی فضائی حدودکوامریکا، برطانیہ اورجرمنی کے جنگی ہوائی جہازوں کے لیے بھی بندکردیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعدسے لے کرآج تک یعنی2020تک سوئٹزرلینڈکسی بھی جنگ میں فریق نہیں بنا۔ بلکہ دنیامیں امن کے لیے بھرپور کوشش کرتارہا۔
دنیامیں کسی جگہ بھی جنگ ہوتویہ پُرامن ملک دشمن فریقین کواپنے خطے میں مذاکرات کی سہولت مہیا کرتاہے۔ کسی ملک میں خانہ جنگی ہو، تب بھی یہ حکومت اورباغیوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیتاہے کہ آؤ اوربات چیت سے معاملے کوحل کرنے کی کوششیں کرو۔ یہ معاملہ محض ایک یادودہائیوں سے نہیں، بلکہ چار پانچ سوبرس کی محنت کانتیجہ ہے۔ یہ زبانی کلامی بھی بات نہیں۔ سوئٹزرلینڈنے اپنے عمل سے ثابت کیاہے کہ وہ دنیامیں امن اورصرف امن کاپیغام ہے۔
اس کے بالکل برعکس ہماراملک1947سے ہرطرح کے مصائب، خانہ جنگیوں اورجنگوں سے مزین تصویر ہے۔ ہم جس دن سے آزادہوئے ہیں، ٹھیک اسی دن سے کسی نہ کسی طریقے سے جنگ میں مصروف ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ ہم نے اردگردہرملک سے لڑائی مول لے رکھی ہے۔ کیا ہندوستان، کیاافغانستان۔ ایران سے ہماراتعلق کبھی بھی خوشگوارنہیں رہا۔ آپ ہمسایے ملکوں سے لڑائیوں کو نظر انداز کردیجئے۔ حالانکہ انھیں بھلاناناممکن ہے۔ ہم نے 1969-70میں اپنے ہی ملک میں خانہ جنگی کی انتہابھی دیکھی ہے۔ جس میں ہمارامشرقی بازوکٹ گیا۔ ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ آج بھی ہمارے دوصوبوں میں یورش موجود ہے۔
وہاں بھی کم تریابرترسطح پر جنگ جاری ہے۔ ہم نے اپنی حفاظت کے لیے ایٹم بم بنالیاجوکہ ایک راست قدم ہے۔ مگر وہ بھی ہمیں ذہنی تحفظ فراہم نہیں کرسکا۔ فکری اورعملی طورپرآج بھی ہم غیرمحفوظ ہیں۔ اندرونی خلفشارہمیں اژدھابن کربھینچ رہاہے۔ دنیامیں ہم سعودی کیمپ کے خوشہ چیں ہیں۔ امریکا ہم پراعتبارکرنے کوتیارنہیں۔ موجودہ حالات میں ہمارے دوست بہت کم ہیں۔ اس مشکل صورتحال میں کیاہم لوگ واقعی امن کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ سوال حددرجہ مشکل اورپیچیدہ ہے۔ ویسے اگر غیرجانبدار ملک دیکھناہے توسوئٹزرلینڈکی تاریخ پرنظرڈالیے۔ شائد ہمیں امن کامطلب سمجھ آجائے۔ مگریہاں کوئی بھی سمجھنا نہیں چاہتا۔ سوچنانھیں چاہتا!