Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Americi Dora

Americi Dora

وزیراعظم کادورہِ امریکا حددرجہ خوشگوارنظرآیا۔ بین الاقوامی سیاست کامعمولی ساطالبعلم ہونے کی بدولت احساس تھاکہ یہ دورہ نتائج کے لحاظ سے دونوں طرف جا سکتا ہے۔ یعنی مکمل طورپرناکام بھی ہوسکتاہے اورکامیاب بھی۔ اس کی صرف ایک وجہ نہیں تھی۔

عام تجزیہ کے مطابق امریکا کو افغانستان میں پاکستان کے اثرورسوخ کی بے حدضرورت ہے۔ مگرمعاملہ صرف یہی نہیں ہے اس کے علاوہ بھی انتہائی اہم اورنازک معاملات ہیں۔ جن کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان اورڈونلڈٹرمپ کے مابین، "ون ٹوون ملاقات" کی ضرورت پیش آئی۔

تنہائی میں کون کون سے معاملات زیرِ بحث آئے، اس کے متعلق صرف اندازہ یا قیافہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ مگرامریکی صدرکے گزشتہ تین چارماہ کے بیانات اور پالیسی تقاریرکوپرکھیے تو بہتر طور پر تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت افغانستان کے علاوہ، دوتین دیگر معاملات کواہم سمجھتے ہیں۔ ان کے متعلق بات کرتے رہتے ہیں۔ اس میں ایران کی موجودہ حکومت اوران کے سیاسی نظام پرحددرجہ تنقیدکرتے ہیں۔ دوسرا، سعودی عرب کی اس وقت کے حکومتی شاہی خاندان کی عملی حفاظت ہے۔ یعنی بادشاہ اورولی عہد، محمدبن سلمان کی بھرپورسلامتی درکارہے۔

پہلے نکتہ پرآئیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی حکومت کانظام مکمل طورپرمذہب کے تابع ہے۔ وہاں، انسانی حقوق، آزاد رویوں کی پرورش، ایک خاص طرزِعمل کے رویوں سے مختلف سوچنے اوربولنے کی ممانعت اوراس کے ساتھ ساتھ مذہب کے ایک مخصوص خیالات کی عملی ترویج ہے۔ ہرملک اورخطے کی اپنی شناخت اورحیثیت ہوتی ہے۔

ایران میں ہزاروں برس کی ایک حددرجہ مضبوط تہذیب موجودرہی ہے۔ ان لوگوں میں ایک نسلی تفاخرموجود ہے۔ ایران فتح کرکے قبضہ کرنے والوں نے، مقامی تہذیب کو اپنایا۔ باہر سے آنے والے، اسی رنگ میں رنگے گئے۔ نکتہ صرف یہ کہ اس احساس برتری اورمذہب کی بنیادپروہاں ایک ایسانظام جڑپکڑچکاہے، جسکی بنیادیںہی حددرجہ گہری اورمضبوط ہیں۔ یہ تفاخریورپ میں جرمنی میں بھی موجود ہے۔

اگرآپ اسرائیل کے معاملات کودیکھیے تونسلی برتری اورمذہب کی آمیزش وہاں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسرائیل موجودہ حالات میں دنیاکاطاقتورترین ملک بن چکا ہے۔ خیراس پربحث کسی اوروقت کروں گا۔ عرض کرنے کا مقصدیہ ہے کہ ایران کے اندرونی معاملات کوان کے عوام پر چھوڑنا، ایک مناسب رویہ ہوسکتاہے۔ طاقت کے زور پر انھیں ڈرانا دھمکانا اَزحد غیر مناسب ہے۔ ایران، کسی صورت میں کمزورملک نہیں ہے۔ ہم سب سے زیادہ ڈونلڈٹرمپ کو ایران کے اندرونی حالات کی خبر ہے۔ لہذا ایران پرحملہ کرنا ایک غیرممکن اَمرہے۔ ویسے بین الاقوامی سیاست میں کچھ بھی ہوسکتاہے۔ مگرایران پربراہِ راست حملہ موجودہ صورتحال میں ممکن نہیں۔ ایران اور ہمارا ملک ہمسائے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے افغانستان اورہم ہر طور پرجڑے ہوئے ہیں۔

ایران کے متعلق، وزیراعظم پاکستان سے بہرحال بات ہوئی ہے۔ یہ نکتہ، ڈونلڈٹرمپ کے لیے حددرجہ اہم ہے اوراب مغربی دنیاکے لیے بھی۔ اس صورتحال میں پاکستان کاکردارکیا ہوگا۔ یہ امریکا سے زیادہ، ہمارے لیے قابل غوراوراہم ہے۔

میراخیال ہے کہ اس میں محترم عمران خان اورآرمی چیف کارویہ حددرجہ متوازن ہے۔ یعنی اولین کوشش یہی ہوگی کہ کوئی تنازعہ پیداہی نہ ہو۔ خدانخواستہ اگرایران پرحملہ ہوبھی، توپھربھی پاکستان، کا رول ایک ثالث کاہو، نہ کہ فریق کا۔ یہ حکمتِ عملی، امریکا کو سیاسی اورفوجی سطح پرواضح کی گئی ہے اوریہ حددرجہ خوش آیند بات ہے۔ ہماری اسی پوزیشن کو امریکا نے فی الحال تسلیم کیا ہے۔ آگے چل کرمعاملات کیسے تبدیل ہوتے ہیں۔ اس معاملہ میں کچھ بھی کہناقبل ازوقت ہے۔ طالبعلم کی دانست میں ایران کے اندرونی معاملات میں ہماری طرف سے کسی قسم کافریق نہ بننادرست طرزِعمل ہے۔

امریکا کے معاشی مفادات سعودی عرب سے منسلک ہیں۔ جس میں حالیہ طورپر، تیس بلین ڈالرکے ہتھیاروں کے خریدنے کافیصلہ، امریکا جنگی صنعت کے لیے ہوا کا خوشبودار جھونکاہے۔ اس کے علاوہ تیل بھی امریکی مفادات میں حددرجہ اہمیت رکھتاہے۔ عرض کرنے کا مقصدیہ ہے کہ کون سااسلامی ملک ہے جوسعودی عرب میں اتنااثرورسوخ رکھتا ہے، جس سے امریکی مفادات ڈانواں ڈول نہ ہوں۔ یہ صرف اورصرف پاکستان ہے۔ اگرکھل کر سوچا جائے توپاکستانی فوج ہے۔ سعودی عرب کواپنی حفاظت کے لیے ہماری حددرجہ مدد کی ضرورت ہے۔ لہذا، اس نکتہ پر ہمارے اورامریکی مفادات ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔ لازم ہے کہ ٹرمپ کے لیے بھی حددرجہ آسودہ بات ہے کہ وہ ہمارے اورشاہی خاندان کے روابط سے اپنے مالی مفادات کی حفاظت کرپائے۔

افغانستان کے متعلق جومعاملات ہیں، وہ ٹرمپ کے سامنے ہیں۔ مگرہمیں ان معاملات پرغورکرناچاہیے جو نظر نہیں آرہے۔ اوروہ اتنے ہی اہم ہیں، جتنے نظرآنے والے معاملات۔ ڈونلڈٹرمپ ذہین انسان ہے۔ وہ متوسط طبقے کے سفیدفام کالیڈرہے۔ ان پڑھ" نیم خواندہ، سفیدفام امریکیوں کی آوازہے۔ بالکل اسی طرزپراس کی ذاتی مخالفت بھی شدید ہے۔ مگریہ انکااندرونی معاملہ ہے۔ ہاں، ایک اہم بات۔ اگرمیں یہ عرض کروں کہ حالیہ دورہ سے پہلے ہندوستان کے تحفظات کودورکرنے کے لیے امریکی وزارتِ خارجہ نے مکمل ہوم ورک کیاتھا توکوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

ٹرمپ کے پاکستانی دوست، ساجد تارڑ صاحب کھل کرکہہ چکے ہیں کہ وائٹ ہاؤس اور امریکا کے طاقتور اداروں میں ہندوستان کا عمل دخل بے حد زیادہ ہے۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں ہرکلیدی جگہ پرموجودہیں اور ان کا بے حداثرورسوخ ہے۔ ساجد تارڑ نے یہ بات ہرجگہ کہی ہے۔ کشمیر پر ثالثی، اسکا منصفانہ حل، تمام نکات پہلے سے طے شدہ فیصلوں کے مطابق کیے گئے ہیں۔ ہندوستان کا شوروغوغا صرف اور صرف اس کی اندرونی سیاست کے مطابق ہے۔ صرف عام آدمی کومطمئن کرنے کے لیے ہے۔ ٹرمپ کی کشمیرپرایک امن پرمبنی حکمتِ عملی اختیارکرنا، موجودہ وزیراعظم بلکہ پاکستان کی سفارتی فتح ہے۔ آج تک کبھی بھی کسی بھی پاکستان وزیراعظم کویہ اعزازحاصل نہیں ہوسکا۔

خان کے بدترین سیاسی مخالفین کے لیے بھی صورتحال، مزیدمشکل ہوچکی ہے۔ انھیں یقین نہیں آرہا، کہ یہ دورہ اتنا کامیاب کس طرح ہوگیا۔ اس ملکی کامیابی کو بھی، ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ یہ انکاحق ہے، مگرغیرمتعصب تجزیہ، ان کی نکتہ چینی کاساتھ نہیں دیتا۔ پاکستان پریس کوجانے دیجیے۔ امریکا کے تمام اخبارات اورالیکٹرونک میڈیانے اس دورہ کو کامیاب قراردیاہے۔ وہاں تولفافہ کلچر نہیں ہے۔ امریکی میڈیاخوفناک حدتک آزادہے۔ اگروہ یک زبان ہوکر، پاکستانی وزیراعظم کے اس دورہ کوکامیاب قراردے رہاہے تو اسکو نظر اندازنہیںکیاجاسکتا۔ ہاں، ایک اہم بات۔ واشنگٹن میں پاکستانیوں کاغیرمعمولی اجتماع ایک حیرت انگیزاَمر ہے۔ آج تک یہ نہیں ہواکہ ہزاروں کی تعدادمیں امریکی پاکستانی، اپنے وزیراعظم کی تقریرسننے کے لیے جمع ہوں۔ یہ لوگ کیوں آئے۔

کیاانھیںپنجاب پولیس اورپٹواری لے کر آئے تھے۔ صاحبان، بالکل نہیں۔ یہ ہزاروں لوگ، اپنے خرچ پر، اپنے ملکی وزیراعظم کی تقریرسننے کے لیے خودآئے تھے۔ یہ ایک جاندار جلسہ تھا۔ امریکی پریس میں اس کی کامیابی کاآج بھی چرچہ ہے۔ میرے کئی دوست، جوجلسہ گاہ میں موجود تھے، بتارہے تھے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا محیرالعقول جلسہ نہیں دیکھا۔

واشنگٹن ہی سے میرے ایک ڈاکٹردوست نے بتایاکہ یہ امریکی صدرکی الیکشن مہم میں ہونے والے جلسوں سے بھی بہت بڑااوربھرپورتھا۔ ایک بات تھوڑی سی غیرمناسب سی لگی۔ ڈونلڈٹرمپ اورعمران خان کی مشترکہ کانفرنس کے بعدسوال وجواب کاسلسلہ جاری تھا۔ اس میں اکثریت پاکستانی میڈیاکی تھی۔ ہمارے چند صحافیوں کی انگریزی زبان پرگرفت بہت کمزور تھی۔ انگریزی زبان میں بولنے کاتلفظ بھی کافی حدتک غیرمعیاری تھا۔

چند معززحضرات نے جو سوالات کیے، وہ ہماری ملکی پالیسی کے لیے شائد اہم تھے۔ مگر امریکی صدرکی سطح پریہ سوال کسی بھی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔ دل آزاری نہیں کرنا چاہتا۔ مگر معذرت کے ساتھ پاکستان میں درست طورپر انگریزی زبان بولنے اورسمجھنے والے اَزحدکم ہیں۔ اس پریس کانفرنس میں ہماری جانب سے یہ کمزوری بہرحال موجود تھی۔ دراصل پاکستان میں انگریزی میڈیامفقودہے اوراس پرکوئی خاص توجہ بھی نہیں دی جاتی۔ اخراجات کے حوالے سے بھی خان کایہ دورہ بہت مناسب تھا۔ اگرپرانے شاہی خاندانوں سے موازنہ کیا جائے، تو اس دورہ پرمعمولی سرکاری خرچہ ہوا۔ کسی بھی سیاسی تعصب کے بغیردیکھاجائے تویہ دورہ پاکستان کے مفادات کے لیے حددرجہ مفیدثابت ہوگا۔ آنے والا وقت، بہترہوتاجائے گا!