علی کو ہمیشہ روشنی سے عشق تھا۔ اس سے منسلک مختلف اشیاء کو بھی بڑے غور سے دیکھتا تھا۔ والدین نے پڑھنے کے لیے لندن بھیجا۔ تعلیم کے بعد، مانچیسٹر میں نوکری بھی کرتا رہا۔ تنخواہ بھی مناسب تھی۔ مگر پتہ نہیں کیوں، مختلف شہروں میں جا کر، دفتروں اور گھروں میں لگے ہوئے ٹیبل لیمپ، فانوس، بلب اور دیواروں پر لگی ہوئی لائیٹس دیکھتا رہتا تھا۔
جو بھی روشنی سے منسلک چیز پسند آتی تھی۔ اسے ذہن نشین کر لیتا تھا۔ پھر بڑی احتیاط سے کاغذ پر اس کا خاکہ ترتیب دیتا تھا۔ بلکہ کوشش کرتا تھا کہ انھیں بہتر اور مزید جاذب نظر کر سکے۔ بہر حال یہ شوق تھا۔ اس کے خاکے دیکھ کردوست نے مشورہ دیا کہ علی، روشنی سے منسلک آرائشی کام کو تم اپنا کاروبار کیوں نہیں بنا لیتے۔ علی کوایسے لگا کہ دوست نے اس کے دل کی بات پڑھ لی ہے۔ چھٹیوں میں لاہور آیا۔
مختلف مارکیٹوں میں فانوس، لیمپ اور دیگر اشیاء دیکھتا رہا۔ فی الفور اندازہ ہوا کہ اس شعبے میں ابھی بہتر کام کرنے کی بہت گنجائش ہے۔ لاہور میں فانوس، چین سے بن کر آ رہے تھے اور آج بھی یہی حال ہے۔ مگر چینی اور ہمارے ملکی ذوق میں حد درجہ فرق ہے۔
اس کے علاوہ چینی آرائشی مصنوعات میں جدت کی بہت کمی تھی۔ علی نے زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کیا۔ مشغلہ کو اپنا ذریعہ معاش بنا ڈالا۔ گھر کے ایک کمرے میں اپنے ہاتھ سے تیار کردہ شیشے اور روشنی کے ملاپ کی کمال خوبصورت اشیاء ترتیب دے دیں۔ اس نے شوروم بھی نہیں بنایا۔ بس مکمل کاروبار کو اپنے گھر کے کمرے میں سما دیا۔ ساتھ ساتھ ویب سائٹ بنوائی اور تمام سامان قیمتوں کے ہمراہ وہاں ڈال دیا۔
لوگوں کو جب نظر آیا کہ عام روش سے ہٹ کر حد درجہ خوبصورت فانوس، لاہور کے ایک گھر سے دستیاب ہیں۔ اور اسی طرح دیواروں پر لگائی جانے والی بتیاں بھی منفرد انداز میں موجود ہیں۔ تو بڑے آرام اور سکون سے علی سے خریداری کرنے لگے۔ ایک امیر تاجر کو جب اس کے بارے میں معلومات ہوئیں تو فوراً علی کے پاس آیا۔ اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ کے لیے، درجنوں فانوس خرید لیے۔ اس لیے بھی کہ اس طرح کی متعدد اشیاء پاکستان کی مارکیٹ تو کیا، پوری دنیا میں موجود نہیں تھیں۔
اب علی نے دیگر تمام کام چھوڑ دیے اور صرف یہی کام کرنا شروع کر دیا۔ اس نے حد درجہ مناسب پیسے کمانے شروع کردیے۔ دوماہ پہلے جب کسی نے، اس کے کام کے متعلق بتایا تومیں اس کے گھر چلا گیا۔ علی سے ملاقات ہوئی۔ اس نے گھرکے ایک وسیع کمرے میں اپناکام سجا کر رکھا ہوا تھا۔ اتنی خوبصورت اور نایاب اشیاء دیکھ کرمیں ششدر رہ گیا۔
بہر حال علی اب ایک کامیاب انسان ہے۔ اس کے بنائے ہوئے فانوس، لیمپ اور بتیاں، ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ سوچیے کہ اس نے کیا کیا ہے۔ صرف اپنے مشغلہ کو اپنا کاروبار بنا دیا ہے۔ اور اس سے بڑی خوش قسمتی کوئی اور نہیں ہوتی کہ ہابی آپ کی معاشی طاقت بن جائے۔
اس فیلڈ سے بالکل مختلف مگر اسی طرح کا واقعہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ لاہور ہی میں، نوید کا ایک نجی اسکول ہے۔ درمیانے درجہ کے تعلیمی ادارہ سے اس کی دال روٹی چل رہی ہے۔ بچپن ہی سے نوید کو پرندوں اور پالتو جانوروں سے انس تھا۔ اپنی حد تک بھی عرض کرونگا کہ مجھے تو آج بھی پرندے خدا کی وہ خوبصورت مخلوق نظر آتے ہیں جس میں قدرت کے رنگ لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔
خیر بات نوید کی ہو رہی تھی۔ اسکول کے پیچھے ایک خالی جگہ تھی۔ نوید نے اس میں پرندے پالنے شروع کر دیے۔ کشادہ پنجرے بنائے۔ اور اس میں ہر قسم کے منفرد طوطے رکھ لیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، انٹرنیٹ پر طوطوں کے متعلق تمام معلومات کو حددرجہ سنجیدگی سے پڑھتا رہا۔ کتابیں بھی خرید لیں، جن میں ان پرندوں کے تمام اوصاف درج تھے۔
انھیں کیا پسند ہے۔ یہ لوگوں سے گھبراتے ہیں یا نہیں۔ یہ پالتو بن سکتے ہیں کہ نہیں۔ ان کے انڈے دینے اور سینچنے کا دور کون سا ہوتا ہے۔ تمام جزئیات کوجاننے کے باوجود 2013 میں کاروبار میں کافی نقصان ہوا۔ غلطی یہ تھی کہ اس نے یہ تحقیق نہیں کی کہ کس درجہ حرارت پر کون سا پرندہ خوش و خرم رہتا ہے۔ گرمی اور سردی میں ان قیمتی پرندوں کا رویہ کیسا ہوتا ہے۔ کتنے درجہ حرارت پر یہ زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں۔
نوید نے ہمت نہیں ہاری۔ مسلسل محنت بلکہ ریاضت کرتا رہا۔ اب اسے اپنے شعبے پر عبور تھا۔ صرف چند سالوں میں اس کا یہ کاروبار اتنا چل پڑا، کہ اسکول بند کر ڈالا۔ اپنی تمام توجہ صرف اور صرف پرندوں پر مرکوز کر دی۔ اس کے ذہن میں ایک جدت کا خیال آیا۔ مختلف رنگ کے طوطوں کا اختلاط اس طرز سے کروایا کہ فقیدالمثال رنگوں کے بچے انڈوں سے برآمد ہونے لگے۔ جدت نے اسے کروڑ پتی بنا دیا۔ اب وہ سارا دن اور رات، اپنے پرندوں کی خدمت پر مرکوز رہتا ہے۔ اور ان کی نسل بڑھانے کی فکر کرتا رہتا ہے۔
یہی اس کا کاروبار ہے۔ غورکیجیے۔ نوید نے اپنے شوق کو اپناکاروبار بنا ڈالا۔ آج وہ حد درجہ پرآسائش زندگی گزار رہا ہے۔ آج کل میں خود پرندوں کا ایک بڑا برڈ فارم کھولنے کے متعلق سوچ رہا ہوں۔ مگر کر نہیں پا رہا۔ اس لیے کہ کاروباری مصروفیت اتنی زیادہ ہے کہ اس میں سے، نئے کام کے لیے وقت نکالنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ دن میں بارہ تیرہ گھنٹے محنت کرنے کے بعد حقیقت میں کوئی اور کام کرنے کودل نہیں چاہتا۔
عرض کرناچاہتا ہوں کہ میرے پاس ان گنت لوگ بیروزگاری کو حل کرنے کے طریقے پوچھتے رہتے ہیں۔ دفتر آ کر، نظام، سیاسی لوگوں اور عمال کوکوستے ہیں۔ غصے سے ان کی رال ٹپک رہی ہوتی ہے۔ کوئی قدرت کی ستم ظریفی کا رونا روتا ہے۔ توکوئی ملک میں میرٹ کے نہ ہونے کا مرثیہ پڑھتا ہے۔ کوئی سفارش کی عدم دستیابی کوناکامی کو وجوہ گردانتا ہے اورکوئی وہم کا شکار ہوکر تعویز گنڈوں کی طرف گامزن نظر آتا ہے۔
تمام تلخیاں بڑی سنجیدگی سے سنتا ہوں۔ انھیں کھل کر بولنے کا موقع دیتا ہوں۔ کافی یا چائے پلاتا ہوں، پھرصرف ایک بات پوچھتا ہوں کہ آپ کی ہابی کیا ہے۔ حیران رہ جاتا ہوں جب کئی نوجوان فرماتے ہیں کہ ان کا کوئی مشغلہ نہیں ہے۔ بس سوشل میڈیا تک محدود ہیں۔ مگر کریدنے سے ہر خاص و عام کی کوئی نہ کوئی ہابی نکل ہی آتی ہے۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے۔ جب میں انھیں صرف ایک مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آپ کا کوئی بھی مشغلہ ہے تو اسے اپنا ذریعہ معاش بنا لیجیے۔ کسی بھی نوکری کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلکہ الٹا آپ، ان گنت لوگوں کوروز گار مہیا کر سکیں گے۔ مگر اس بات کو ذہن نشین کروانا حد درجہ مشکل کام ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ اپنے مشغلے سے کسی طرح کا روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔
دراصل انھیں نہ اپنے اوپر اعتماد ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی ہابی کے مؤثر ہونے پر۔ اب سوال یہ ہے کہ کیسے اور کیونکر پہلا قدم اٹھایا جائے۔ شاید آپ کو مثال بری لگے۔ مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس مثال سے کافی کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری اکثر خواتین اور چند مرد حضرات، لا جواب کھانا بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ تمام گھروالے، رشتہ دار اور دوست احباب، ان کے لذیز پکوان بنانے کے ہنر کے معترف ہوتے ہیں۔ تعریف بھی کرتے ہیں۔
اگر یہی لوگ کھانا پکا کر اسے ان لوگوں کو فروخت کرنا شروع کر دیں جو مصروفیت کی وجہ سے کھانا نہیں بنا یا بنوا سکتے۔ تو سمجھیے، ایک معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔ حوصلہ کرکے ایک بار تجربہ تو کریں۔ ان گنت ایسے دفترہیں، جہاں دوپہر کوکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی باصلاحیت انسان، صرف ایک دفتر میں کھانا بناکربھجوانا شروع کر دے۔ تو سمجھیے کہ کمال ہو جائے گا۔
ہماری وہ خواتین، جنھیں گھر میں کھانا پکانے کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ بلکہ یہ ایک ذمے داری کے طور پر کرتی ہیں۔ ان خواتین کو بھی اس طرح کے اقدامات اٹھانے سے کمال معاشی آسودگی حاصل ہو جائے گی۔ یاد آیا۔ کووڈ کے دنوں میں لاہور کے ایک بچے نے برگر بنا کر گھر سے فروخت کرنے شروع کردیے۔ تازہ برگر بنانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
صرف دو سال میں بچے نے اپنا کاروبار اتنا پھیلا لیا ہے کہ اب اس کے تین چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹ ہیں۔ ہزاروں مثالیں دے سکتا ہوں۔ جس میں لوگوں نے اپنی ہابی کو اپنا پیشہ بنا لیا اور کامیابی نے ان کے قدم چوم لیے۔
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اچھے دنوں کا انتظار کرنا، حماقت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی بھی حکومت نوجوان، بچے اور بچیوں کوباعزت روزگار نہیں دے سکتی۔ ہمارے ملک کی بے قابو بڑھتی ہوئی آبادی میں تو اب سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر ذریعہ معاش فراہم کرنا ناممکن ہے۔ لہٰذا اب کیاکرنا چاہیے۔ ٹھنڈے دل سے سوچئے۔ کہ آپ کادل کیا کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ ذہنی سکون کس طرح ملتا ہے۔ اس کے بعد، عملی قدم اٹھائیے۔
اپنے مشغلہ کو اپنے روزگار میں بدل دیجیے۔ حیران رہ جائیں گے کہ قدرت آپ کی کس طرح مدد کرتی ہے۔ ہمت کیجیے، اور اپنامقدر، اپنے مشغلہ کے ذریعے، بہترین آمدنی میں بدل دیجیے۔ کچھ عرصے بعد آپ کو اپنی قسمت پر رشک آئے گا۔ اور لوگ آپ کی کامیابی کی مثالیں دیں گے۔