Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aqliaton Ke Huqooq Ki Zamin Riyasat Hai

Aqliaton Ke Huqooq Ki Zamin Riyasat Hai

عبداللہ ملک سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو میرا تاثر ان کے متعلق ایک عام وکیل کا تھا۔ آہستہ آہستہ جب انھیں سمجھنے اور پر کھنے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ وہ بے غرض اور سادہ انسان ہے۔ دس دن پہلے فون آیا کہ "اقلیتوں کے حقوق" کے حوالے سے ایک سیمینارمنعقد ہو رہا ہے۔ اس میں ضرور آنا ہے۔

سیمینار اور کانفرنسوں سے میری جان جاتی ہے۔ اس لیے کہ ان سے کسی قسم کا کوئی نتیجہ کم ہی برآمد ہوتا ہے لیکن میں ان کی بات کو ٹال نہ سکا۔ معلوم ہوا کہ وہ سول سوسائٹی نیٹ ورک تنظیم کے روح رواں بھی ہیں اور خاموشی سے بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کر رہے ہیں۔ انکار نہ کر سکا۔ تقریب میں چلا گیا۔ وہاں جا کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔

کانفرنس "انسٹیٹیوٹ آف آرٹ اینڈ کلچر" میں طے پائی تھی۔ صاحبان، انسٹیٹیوٹ کا لفظ سن کر ہو سکتا ہے، آپ غلط فہمی کا شکار ہو جائیں۔ یہ بہت پر شکوہ، وسیع اور قابل قدر ادارہ ہے۔ عجیب بات یہ کہ اتنے بڑے ادارہ جو کہ یونیورسٹی کے برابر ہے، مجھے اس کا کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ یقین جانیے، ادارہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ سیمینار شروع ہونے میں کچھ وقت تھا۔ وائس چانسلر کے کمرے میں انتظار کے لیے گیا تو وہاں دیوان سچل بیٹھے ہوئے تھے۔ سندھ سے ایم پی اے اورسچا انسان، باتیں شروع ہوگئیں۔

چند منٹ بعد پروفیسر کلیان سنگھ بھی آگئے۔ سکھوں کے روایتی لباس میں ملبوس، کلیان جی، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ حد درجہ سادہ انداز میں گہری باتیں کرتے رہے۔ تھوڑی دیر میں چانسلر فیصل جنجوعہ بھی آ گئے۔ تقریب سے پہلے بڑی پر مغز گفتگو ہوتی رہی۔

آڈیٹوریم پہنچا تو شاندارہال، طلباءاور طالبات سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ صوبائی وزیر برائے اقلیت اعجاز اسلم آگسٹن بھی آئے ہوئے تھے۔ تقریب شروع ہوئی۔ عبداللہ ملک نے سیمینار کے متعلق دلیل سے مختصر سی گفتگو کی۔ انتہائی دشوار مضمون پر بے لاگ گفتگو کرنا ہمارے نظام میں آسان نہیں۔ اقلیتوں کے حقوق اور ان کے حوالے سے حد درجہ پر مغز گفتگو کی گئی۔ مقررین اپنی اپنی باری پر آتے رہے۔ کلیان جی نے ٹھیٹھ پنجابی میں اقلیتوں کے معاملات پر اظہار خیال کیا۔ ویسے ان کی پنجابی اتنی مشکل تھی کہ کسی جگہ مجھے بھی سمجھنے میں دقت ہوئی۔

دیوان سچل ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے پوچھا تو کہنے لگے کہ انھوں نے اتنی مشکل پنجابی پہلی بار سنی ہے۔ کلیان جی نے حد درجہ استدلال کے ساتھ بتایا کہ ہمارے ملک میں سکھ چند مشکلات کا شکارضرور ہیں، مگر ان کے ساتھ کوئی ظلم یا زیادتی روا نہیں ہے۔ محترمہ سیدہ مہناز نقوی تشریف لائیں۔ انھوں نے اقلیتوں کے اسلام میں حقوق پر سیر حاصل گفتگو کی۔

مہناز صاحبہ، پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ سوشل ورک کی چیئرپرسن ہیں۔ ان کابنیادی نکتہ یہی تھا کہ تمام مذاہب پھولوں کے ایک گلدستہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر ایک کو جینے کا مکمل حق ہے۔ ان کی شاعری سننے کا بھی موقع ملا۔ میری باری آئی تو دو نکات پر بات کی۔ 1947ءمیں ہمارے ملک میں چار ہزار یہودی اور ہزاروں اینگلو انڈین تھے۔ ہر شہر میں انھیں دیکھا جا سکتا تھا۔ مگر آج ان میں سے ایک بھی نظر نہیں آتا۔ وجہ یہ کہ اقلیتیں، ہمارے ناروا سلوک سے دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔

طالب علم کی دانست میں ہم یعنی مسلمان، اپنے ملک میں اقلیتوں سے عملی طور پر اچھا سلوک نہیں کر پائے۔ اس نکتہ پر مزید گزارش بعد میں کرتا ہوں۔ سابقہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، انوار الحق تھوڑی تاخیر سے آئے۔ وجہ تھی کہ ان کے بہنوئی انتقال کر گئے تھے اور گھر پر دعا تھی۔ مگر انوار صاحب خانگی سانحہ کو پس پشت ڈال کر انتہائی حوصلے سے بات کرتے رہے۔ کہہ رہے تھے کہ ہمارے نظام میں مکالمہ ختم ہو چکا ہے۔ کانفرنس اور سیمینار سے آگے بڑھ کر ہمیں ڈائیلاگ کی اشد ضرورت ہے۔

ان کے بقول، اصل کامیابی یہ ہے کہ سامعین اور اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان سوال و جواب ہوں۔ ان کا اٹھایا ہوا نکتہ از حد قابل توجہ تھا۔ دیوان سچل نے بہت غیر روایتی باتیں کیں۔ سانگھڑ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بتانے لگے کہ سندھ میں ہندوو ں کی کثیر تعداد رہتی ہے۔ اور انھیں بہت معمولی قسم کے مسائل ہیں۔ تفریق یا زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ ہر شعبہ زندگی میں بڑے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں۔ دیوان صاحب دل سے بات کر رہے تھے۔ کہنے لگے کہ اسٹیج پر جو بوڑھے براجمان ہیں۔ ان سے کچھ نہیں سیکھا جا سکتا۔

یہ نوجوان نسل کا کام بلکہ ذمے داری ہے کہ جدید سوچ کے ساتھ اقلیتوں کے معاملات کو دیکھیں اور حل کرنے کی کوشش کریں۔ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی بھی معمولی سی تاخیر سے آئے۔ ان کی طبیعت ناساز تھی۔ مگر کوشش کر کے پہنچ گئے۔ سادہ مگر پر کشش باتیں کیں۔ پرانے زمانے سے مثال دینے لگے کہ پاکستان میں مذہبی رواداری بدرجہ اتم موجود تھی۔ چند ذاتی مثالیں بھی دیتے رہے کہ کس طرح مسیحی لوگ، انتہائی ذمے داری سے کام کرتے تھے اور مسلمان ذاتی احترام اور یگانگت سے پیش آتے تھے۔ وزیر برائے اقلیتی امور، اعجاز اسلم آگسٹن کی تقریر آخر میں تھی۔ ذاتی خیال تھا کہ گھسی پٹی سرکاری اور بے جان سی باتیں کریں گے۔ مگر توقعات سے بالکل برعکس زمینی حقائق کے حساب سے باتیں کیں۔

مسیحی برادری کے ساتھ جا بجا ناروا سلوک کی باتیں بھی کیں۔ روایت کے مطابق چانسلر فیصل جنجوعہ نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ ہاں۔ اس سے پہلے سوال و جواب کا مختصر سا دورانیہ رہا۔ میری دانست میں اس نشست کی بنیادی کمزوری، طویل سوال و جواب کا نہ ہونا تھا۔ اس لیے کہ تقاریر کرنا تو سب سے آسان ہے۔ مگر نئی نسل کے ساتھ مکالمہ سب سے ضروری ہے۔ اگلا سیشن سوال وجواب کا تھا۔ حد درجہ معنی خیز تقریب جب اختتام پر پہنچی تو طالب علموں اور طالبات کی موجودگی میں مثبت اندازہ ہوا کہ یہ مٹی ابھی تک حد درجے زرخیز ہے۔ میجر(ر) ارشد اور رجسٹرار کی بہترین انتظامات کرنے پر تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ جسٹس (ر) انوار الحق صاحب نے جاتے جاتے جس محبت سے میرے والد محترم، راو محمد حیات کا ذکر کیا۔ اسے میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔

اقلیتوں کے معاملہ میں ہمارے رویے مکمل انصاف پر مبنی نہیں ہیں۔ ہمارے نظام میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ستم جاری رہتا ہے۔ سینیٹری ورکر، جو کہ گھروں، دفتروں، کارخانوں، گلیوں، محلوں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ آج بھی اکثریت انھیں نامناسب نام سے بلاتی ہے۔ کیا یہ واقعی شرافت ہے۔ جو لوگ ہر طور سے پورے ملک کی صفائی ستھرائی کرتے ہیں۔

انھیں صرف اور صرف سینیٹری ورکر، یا کوئی اور بہتر نام کیوں نہیں دے سکتے۔ کیا پارلیمنٹ میں اس حوالے سے قانون سازی نہیں ہونی چاہیے کہ مسیحی برادری کے صفائی کرنے والے لوگوں کو نامناسب نام سے پکارنا جرم ہے۔ ہمارے سماجی رویے انتہائی سفاک اور منافقانہ ہیں۔ ان میں بہتری کی کم از کم مجھے امید نہیں ہے۔ Centre for research and security studies نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اقلیتوں کی حالت زار بہت دلیل سے رقم کی ہے۔ ریاست وعدے کر کے خاموش ہو جاتی ہے۔ ہیومن رائٹس رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً ایک ہزار، ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے۔

اقلیتوں کے ساتھ مظالم کی فہرست ازحد طویل ہے۔ اور یہ ہرلحاظ سے ناقابل قبول صورت حال ہے۔ اس تنگ نظر اور گھٹے ہوئے ماحول میں عبداللہ ملک نے اقلیتوں کے حوالے سے جو کام شروع کیا ہے وہ قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ آہستہ آہستہ نئی نسل میں مذہبی، سماجی اور اقتصادی تعصب کم سے کم کرنے کا یہ لا جواب طریقہ ہے۔ منصفانہ سوچ کو آگے بڑھانا، عدل کی کسوٹی پر اقلیتوں کے حقوق کو پرکھنا از حد ضروری ہے۔ کاش اس طرح کے سیمینار اور مکالمہ سماج کے ہرطبقے میں رائج ہو جائےں، تاکہ ملک سے نفرتیں اور تنگ نظری کسی طور پر تو کم ہو۔ شاید معاملات بہتر ہو جائیں!مگر اقلیتوں کی بھرپور حفاظت کی ذمے داری تو ریاست کی ہے جس میں وہ مکمل ناکام ہے۔