ہیلن کیلر(Helen Keller)البامہ میں پیدا ہوئی۔ انتہائی پیاری اورگول مٹول سی بچی۔ چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ، ہنس مکھ چہرہ۔ مگریہ سب کچھ حددرجہ مختصروقت کے لیے تھا۔ صرف انیس مہینے کے لیے۔ انیس ماہ کے بعد ہیلن کوبخارہوگیا۔ 1880کی بات ہے۔ کسی ڈاکٹرکواس بخارکا علاج نہیں آتاتھا۔ دراصل یہ Scarlet Feverتھاجوایک صدی پہلے لاعلاج مرض تھا۔ انیس ماہ کی ہیلن کیلرکی بصارت ختم ہوگئی۔ یعنی وہ نابیناہوگئی۔ بدقسمتی صرف یہاں تک محدودنہیں رہی۔ اس کی قوت سماعت بھی ختم ہوگئی۔ یعنی وہ معصوم بچی سن سکتی تھی نہ دیکھ سکتی تھی اورنہ بول سکتی تھی۔
ہیلن کیلر ان جسمانی مصائب کے ساتھ تقریباًاسی برس زندہ رہی۔ ان آٹھ دہائیوں میں اس نے پوری دنیا تبدیل کر ڈالی۔ آج تک اس کے ہماری عملی دنیا پرمثبت اثرات روزکسی نہ کسی انداز میں سامنے آتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے جیسے ادنیٰ معاشروں میں تو اکابرین کے منفی اثرات قائم ودائم ہی رہتے ہیں۔ جیسے ان کے عالیشان محلات، مبالغہ کی حد تک زیادہ دولت اوراس کے بعد اپنی پارسائی کا مسلسل اعلان۔ یہ منافقت ہمارے طاقتورطبقے کااوڑھنا بچھونا ہے۔ یہ عناصرمرتے دم تک صرف جھوٹ بول کرلوگوں کی ہمدردیاں بٹورتے ہیں۔ بہرحال میں ان ادنیٰ لوگوں کاذکرکرے قلم کی حرمت کوگزندنہیں پہچاننا چاہتا۔ ان سے معاشی طور پر مستفیدہونے والے سرکاری ملازم، دانشوراورطبلچی حددرجہ فعال ہیں۔ مسلسل تعریف کرنا، ان میرعالموں کا کام ہے۔ میرے جیسے ادنیٰ مزدروں کا نہیں۔
بات ہیلن کیلرکی ہورہی تھی۔ اس کے والدکی گراہم بیل سے بہت دوستی تھی۔ وہی گراہم بیل جس نے دنیا کوفون جیسا تحفہ دیا۔ بیل نے مشورہ دیاکہ بچی کوکسی اسپیشل اسکول یاذاتی اُستادکے ذریعے تعلیم دلوانے کا سلسلہ شروع کیاجائے۔ اس مشورہ نے ہیلن کی زندگی بدل دی۔ بوسٹن میں "پرکنزانسٹیٹیوٹ "سے "اینی سلوین" کاانتخاب کیاگیا۔ اس عظیم خاتون استادنے معذوربچی کودوسرے لوگوں سے ابلاغ کی مکمل فہم دے ڈالی۔ یہ حیرت انگیزکارنامہ تھا۔ ہیلن نے سلوین سے "برائیل نظام"کے تحت مکمل پڑھنا لکھناسیکھ لیا۔ ہاتھ کے اشاروں سے بولناشروع کردیا۔ ساتھ ساتھ اس عظیم خاتون استاد نے اس کی چھونے کی صلاحیت کوبے مثال کرڈالا۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھاکہ اس لڑکی کو خدانے کتنازبردست دماغ دے رکھاہے۔
بارہ سال کی عمر، جی ہاں۔ صرف بارہ سال کی عمرمیں ہیلن نے اپنی پہلی کتاب لکھی۔ اس کا نام تھا"میری زندگی کی کہانی" The Story of my life۔ کتاب نے تہلکہ مچاڈالا۔ کسی کوبھی یقین نہیں تھاکہ یہ صرف بارہ برس کی بچی کی ادبی کاوش ہے۔ کیاآپ جانناچاہینگے کہ انگریزی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کاکتنی زبانوں میں ترجمہ ہوچکاہے۔"میری زندگی کی کہانی" ستر زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ آہستہ آہستہ ہیلن کی کتابیں دنیامیں سب سے زیادہ پڑھی جانے لگیں۔ ان میں دین پرایک کمال کتاب بھی ہے۔ سماجی مسائل پربھی لازوال کتاب لکھی گئی۔ اس عظیم لکھاری نے اپنی اُستاد، یعنی سلووین (Sullivan) کی زندگی پربھی شہرہ آفاق کتاب تحریر کی۔
1918میں ہیلن نے نابینالوگوں پرایک فلم بنائی، جسکانامDeliverenceتھا۔ اس نے عورتوں کے مساوی حقوق اورامریکی معاشرے کوجدیدبنانے کے لیے حددرجہ محنت کی۔ اس کی قائم کردہ فاؤنڈیشن کولوگ عطیہ دینااعزازسمجھتے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں کلیولینڈ سے لے کرلینڈن جانسن جیسے سیاسی قدکاٹھ والے صدور، تمام کے تمام ہیلن کے ساتھ کھاناکھانے کواپنے لیے فخر کی بات سمجھتے تھے۔ دنیاکے سب سے طاقتور سیاستدان، بزنس مین، ہیلن کیلرکی زندگی سے سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس سے پہلے کہ کچھ مزیدعرض کروں۔
کیلرکے کہے اورلکھے ہوئے چندجملے آپکی نذ ر کرنا چاہتا ہوں۔"دنیاکی خوبصورت ترین چیزوں کونہ دیکھاجاسکتاہے اورنہ ہی چھوا جاسکتا ہے۔ ان کوصرف اورصرف محسوس کیا جاسکتاہے"۔ زندگی انتہائی خوبصورت ہے، مگریہ صرف اس وقت خوبصورت ہوتی ہے جب اسے دوسروں کے لیے وقف کردیا جائے۔ دنیاکی کوئی تعلیمی درسگاہ آپکو اُچھوتے خیالات نہیں دے سکتی"۔ ہم نے دنیاکی تمام برائیوں کا علاج دریافت کرلیاہے۔ مگرہم انسانوں میں موجودبے حسی کاکچھ نہیں کرپائے۔ دنیامیں کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہے، جسکے آباؤاجدادمیں غلام نہ ہوں۔ کوئی غلام ایسا نہیں ہے جسکے خاندان سے کوئی بادشاہ نہ نکل سکے۔ لوگ سوچناپسندنہیں کرتے۔ اس لیے کہ سوچنے سے حتمی نتائج سامنے آتے ہیں اوروہ اکثربہت خوشگوارنہیں ہوتے۔ صبرکسی بھی دماغ کاسب سے بڑاتحفہ ہے۔
اس لیے بھی کہ اس میں دماغ کواتنی ہی محنت کرنی پڑتی ہے جتنی سائیکل پرتوازن قائم کرنے کے لیے درکار ہے"۔ صاحبان!میں اس طرح لکھتارہونگاتوضخیم کتاب بن جائے گی۔ مگرہیلن نے مکمل طورپرمعذورہونے کے باوجود، دنیاکوبہترین لٹریچردیا۔ معذورلوگوں کوکامیابی سے زندہ رہنے کاڈھنگ سکھایا۔ معذورلوگوں کولکھنے پڑھنے کے لیے برائل نظام کی کامیابی کواستحکام دیا۔ اس نے ناکامی کے خوف کوختم کرڈالا۔ ثابت کیاکہ اصل معذوری جسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اگرایک انسان نابینا ہے تووہ واقعی دیکھ نہیں سکتا۔ اگر ایک انسان قوتِ سماعت سے محروم ہے تووہ واقعی سن نہیں سکتا۔ اگرانسان گونگا اور بہرہ ہے تو دنیاپراثراندازنہیں ہوسکتا۔ یہ ایک فکری انقلاب تھاجوہیلن کے دم قدم سے شروع ہوااورآج تک جاری وساری ہے۔
ہیلن نے اصل میں ایک انتہائی اہم نکتہ لوگوں کے سامنے اُجاگرکیاکہ اصل معذوری جسمانی نہیں ہوتی۔ جسمانی معذوری سے کسی بھی انسان کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اصل معذوری ذہنی ہوتی ہے۔ جوبالکل صحت مند مرداورخواتین کواپنی صلاحیتیں بروئے کارلانے کی استطاعت سے محروم کردیتی ہے۔ یہ ذہنی معذوری دراصل خودساختہ ہوتی ہے۔ اکثراوقات لوگوں کواندازہ ہی نہیں ہوتاکہ وہ زندگی میں آگے کیوں نہیں بڑھ رہے۔ یہ نکتہ حددرجہ فکرانگیزہے اورقابل توجہ بھی۔ اردگردکے لوگوں کابغورجائزہ لیجیے۔ ان کی عادات، حرکات وسکنات، ذہنی رویے اور سوچنے کے اندازہ کوپڑھناشروع کر دیں۔
آپ حیران ہوجائینگے کہ صحت مندنظرآنے والے لوگوں کی اکثریت ذہنی معذوری کی بدولت کچھ بھی نہیں کرپارہی۔ وہ کام میں اپنی فکرکے اُچھوتے پن کو استعمال کرنے پرغوربھی نہیں کرپارہے۔ اپنی ناکامی کا ملبہ نظام، معاشرے اورقدرت پرڈال کرخاموش ہوجاتے ہیں۔ طالبعلم کے طوپرملاحظہ کیجیے۔ ہمارے ملک میں بائیس کروڑ افراد ہیں۔ مگران میں سے اکثریت ذہنی طور پر فکراورسوچنے کی صلاحیت کواستعمال کرناگناہ سمجھتی ہے۔ محنت کرکے اپنے حالات بدلنے پرغورکرنے کی اہلیت کو ہرگز ہرگز سامنے نہیں لاتے۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
بہتربرس سے سیاسی اکابرین کوپرکھیے۔ اپنے صدور، وزراء اعظم، وزراء اعلیٰ، جج صاحبان، سرکاری ملازمین اوروزراء کے عملی رویے کو دیکھیے۔ ان میں سے نناوے فیصدلوگ صرف کسی نہ کسی حادثاتی وجہ سے بڑے عہدوں پرپہنچتے ہیں۔ اس کے بعدیہ سوچنا مکمل طورپر چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کاہر مقتدر شخص صرف لکیر کا فقیر اور ضابطے کے اندر محدود ہوجاتا ہے۔ ہمارے وزرائے اعظم یا آمروں کی بہترسالہ تقاریرکاریکارڈنکال کردیکھ لیجیے۔ ان کے نام تھوڑی دیرکے لیے فراموش کردیجیے۔ ششدررہ جائینگے کہ وہ سات دہائیوں سے بالکل ایک جیسے دعوے اور اعلانات کررہے ہیں۔ سیاستدانوں کو چھوڑ دیجیے۔ آپ کسی بھی طبقہ پرغورکیجیے۔
وہ اپنے مسائل کا ذمے داردوسرے کوٹھہرائے گا۔ صنعت کاروں پر غورکیجیے۔ ان میں سے ایک بھی، جی ایک بھی، اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر، دنیامیں نئی مصنوعات دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ چند استثناء ہوسکتی ہیں۔ مگر ہماراسرمایہ کاراس اہلیت سے محروم ہے۔ جس سے بل گیٹس، وارن بوفٹ، لاری ایلسین، کارلوس سلم یاامانیسو اورٹیگو بن پائے۔ ہمارا دانشور طبقہ، مذہبی رہنما، سماجی کارکن مکمل طور پر نئی فکرسے محروم نظرآتے ہیں۔ دراصل معذوری کی تعریف ہی بدل دینی چاہیے۔ معذوروہ نہیں جودیکھ نہیں سکتا، چل نہیں سکتا، سن نہیں سکتا۔ اپاہج تووہ ہے، جوسوچ نہیں سکتا۔ اپنے مسائل کوحل کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد نہیں کر سکتا۔ اپنے فیصلے خودنہیں کرسکتا۔ کم ازکم، ہیلن کیلر جیسی عظیم خاتون نے توہمیں یہی سمجھایا ہے کہ اصل معذورکون ہے!