اس وقت ملک میں جو سیاسی کہرام برپا ہے۔ مکمل طور پر غیر سیاسی ہے۔ دراصل پاکستان میں اس وقت پالیٹکس نہیں بلکہ پاور پالیٹکس (Power Politics) ہو رہی ہے۔ مطلب یہ کہ چند شخصیات کی ذاتی لڑائی ہے جو بھرپور طور پر صرف اور صرف ان کی ذات سے منسلک ہے۔
اس امر کو چھپانے کے لیے بیانات، پریس کانفرنسوں اور ٹاک شوز کی ایسی گرد اڑائی جا رہی ہے کہ کسی کو سچ کا پتہ نہ چل جائے۔ بتایا یہ جا رہا ہے کہ یہ سیاسی قیامت عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے برپا ہورہی ہے، مگر ایسا کچھ بھی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اقتدار اب چند گھرانوں اور سیاسی گروہوں کی ضرورت بن چکاہے، اور اس کے ذریعے ملکی وسائل پر بھرپور قبضہ کرنا اصل مقصد ہے۔ ذاتی دولت میں ہزاروں گنا اضافہ کرنا حاصل ِجدوجہد ہے۔
یہ اتنی تلخ بات ہے کہ نہ کوئی اس کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اس عنصر پر بحث ہوتی ہے۔ ہر غلیظ مقصد کو جمہوریت کے سنہرے کپڑوں میں ملفوف کر کے لوگوں کو فریب دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ماننا چاہیے کہ کافی حد تک یہ چند لوگ اپنے اپنے غیر مثبت کام میں کامیاب ہیں۔ مسلسل جھوٹ سننے سے اب قوم کی ذہنی ساخت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ بھی معمولی سے فائدے کے لیے زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگانے کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ اور کیوں نہ سمجھیں۔
ہمارے اکابرین میں سے بلند اخلاقی منزل پر فائز ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جس سے عوام کسی بھی صورت میں متاثر ہوں۔ یعنی بہترین بلکہ مناسب رول ماڈل کا نہ ہونا بھی اب ایک عملی مسئلہ بن چکا ہے۔
ذرا سوچیے۔ ہو کیا رہا ہے۔ ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی ملزمان جب عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ تو سرکاری کارروائی کے بعد کمرہ عدالت سے باہر آ کر لمبی لمبی بے مقصد تقاریر فرماتے ہیں۔ واحد مقصد ہوتا ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کتنے مظلوم انسان ہیں۔ ان تقاریر میں گروہی ساتھی، اپنے اپنے سیاسی لیڈر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے عین کیمرے کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں تاکہ قیادت کو معلوم ہو سکے کہ وہ ان کے کتنے وفادار ہیں۔ یہ سلسلہ کئی بار تو صبح نو دس بجے سے شروع ہو جاتا ہے اور دن بھر جاری رہتا ہے۔
اگر یہ عرض کروں کہ ہرپیشی کے بعد ایک چھوٹا سا سیاسی جلسہ منعقد ہوتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر دنیا کاایک ملک بتایئے جس میں مالیاتی جرائم کے ملزمان، عدالت میں پیش ہونے کے بعد اتنے دھڑلے سے تقاریر فرماتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالتیں بذات خود اس منفی رجحان پر پابندی لگا پائیں گی یا نہیں۔
قیاس ہے کہ عدالتوں کا موقف یہ ہو گا کہ یہ سب کچھ تو ان کی کورٹ سے باہر ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس طوفان بدتمیزی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ چلیے پھر دوسرا راستہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیاسی شخصیات پر مالی بدعنوانی کے مقدمات کو عدالت سے براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا جائے۔ اس سے کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ کون سا لیڈر پیشی بھگتنے کے بعد سچ یا جھوٹ بول رہا ہے۔ مگر مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔
یہ تقاریر اور بھاشن ایسے ہی چلتے رہیں گے اور عام لوگوں کے ذہنوں میں انتشار پھیلتا رہے گا۔ چلیے۔ اس موضوع سے صرف نظر کر کے آگے چلیے۔ شام یا رات گئے کے کرنٹ افیرز پروگراموں کو غور سے پرکھیے۔ سیاسی کارندوں کی تو خیر سرشت میں ہے کہ اپنے اپنے قائد کو دنیا کا بہترین دیوتا ثابت کریں۔ مگر اب ایسے اینکرز اور تجزیہ کاروں کی بھی کمی نہیں جو اپنی ذاتی خواہشات کو تجزیہ کا روپ دے کر لوگوں کے سامنے سیاسی تعصب سے بھرپور بات کرتے ہیں۔ چند مثالیں نام لیے بغیر عرض کرتا ہوں۔
ایک اینکر صاحب کا سوال ملاحظہ فرمایئے۔ "اگر وزیراعظم کو اسٹیبلشمنٹ سے ٹیلی فون آئے کہ انھیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ تو کیا وزیراعظم استعفیٰ دے دیں گے یا نہیں؟" آپ اس سوال کی ساخت دیکھیے۔ پہلی بات تو یہ کہ اس مفروضہ کی بنیاد کیا ہے؟ پھر اگر یہ مفروضہ نہیں تو اینکر صاحب کو بتانا چاہیے کہ انھیں اس چوٹی کی خبر کا کیسے پتہ چلا؟ اگر یہ بھی نہیں اور یہ موصوف کی ذاتی خواہش ہے تو پھر اس کو لفاظی میں چھپانے کا کوئی جواز نہیں۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ سیاسی نظام میں کون سی پارٹی یا شخصیت حکومت کر رہی ہے۔
میں تو صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ کسی بھی وزیراعظم پاکستان کے متعلق خیال آرائی کا کیا جواز بنتا ہے۔ کیا بی بی سی، سی این این یا کسی اور عالمی چینل کے قد آوراینکر ایسے سوال پوچھ سکتے ہیں۔ ہرگز ہرگز نہیں۔ وہاں تو اس طرح کی بے پرکی باتوں کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ دوسری مثال اس سے بھی زیادہ غیر منطقی ہے۔ چند تجزیہ نگار روز حکومت گراتے ہیں اور اس کے متعلق غیر سند یافتہ باتیں کرتے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ سیاسی پسند اور نا پسند صاف نظر آتی ہے۔
صبح سے دوپہرتک سیاسی ملزمان کی تقاریر کو اٹھا لیجیے اور شام کو اسی تسلسل سے ان کے حواریوں کی باتوں کو اپنے انداز سے بیان فرمانا سن لیجیے۔ ایسے لگتا ہے کہ قیامت صغریٰ برپا ہے۔ ان کا محبوب لیڈر دراصل ایک فرشتہ ہے اور باقی سب ملک دشمن لوگ ہیں۔ ان غیر ضروری مباحثوں میں اپنے اپنے غم تو بتائے جاتے ہیں۔ مگر کوئی بھی سیاسی فریق یہ نہیں کہتا کہ عام لوگوں کے بنیادی مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔ ان کے پاس کونسا پروگرام یا ترکیب ہے جس سے عوام کو تھوڑی سی ٹھنڈی ہوا کے جھونکیں آئیں اور انھیں معمولی سا سکون مل پائے۔
موجودہ اور ماضی کے سیاسی قائدین کے پاس لوگوں کے بنیادی مسئلہ حل کرنے کے لیے سوائے باتوں کے کچھ بھی نہیں ہے۔ لفظی ہمدردی میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں۔ عملی طور پر زمین پر مسائل جوں کے توں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ ہمارا سیاسی اور اخلاقی ڈی این اے حد درجہ ضعیف ہے۔ تہتر سال میں کافی کچھ ہو سکتا تھا۔ تھوڑا سا ہوا بھی ہے۔ مگر عام آدمی کے لیے پہاڑ جیسے مسائل جوں کے توں ہیں۔
اس موقعے پر مہنگائی پر بات کرتے ہیں۔ اس وقت قیامت خیز مہنگائی نے غریب اور سفید پوش طبقہ کی کمر توڑ دی ہے۔ پاکستان اور ہمارے ہی ملک کے سابقہ حصے یعنی بنگلہ دیش کا تقابلی جائزہ لیجیے۔ 2021 میں پاکستان میں مہنگائی کی اوسط نو(9) فیصد رہی جب کہ بنگلہ دیش میں یہ شرح ساڑھے 5۔ 5 فیصد تک محدود رہی۔ ہندوستان میں یہی شرح 5۔ 3فیصد رہی۔ گزشتہ برس کی بات کر رہا ہوں۔
کیا یہ جائز سوال نہیں کہ ہمارے ہی جیسے ممالک نے مہنگائی کی شرح کو کیسے مقید رکھا۔ آخر کسی سطح پر تو ہمارے ہاں بہت مہیب غلطی ہو رہی ہے۔ اگر یہ جواز دیا جاتا ہے کہ مہنگائی پوری دنیا میں بڑھی ہے، جو کہ درست بات ہے۔ تو یہ پوچھنا بھی بنتا ہے کہ ہمارے ہاں، اتنی زیادہ مہنگائی کیوں برپا ہوئی ہے۔ کوئی حکومتی جغادری پہلوان اس تقابلی جائزہ پر بات کرتا کیوں نظر نہیں آتا۔
آخر خرابی کو معلوم کر کے اس کا علاج کرنا حکومت ہی کا کام ہے۔ اگر ذخیرہ اندوزی ہوئی ہے تو اس میں شامل لوگوں کو نشانہ عبرت کیوں نہیں بنایا گیا۔ غیر متعصب بات یہی ہے کہ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ سیاسی عزم نہیں ہے جس سے مہنگائی کے خلاف سفاک احکامات جاری ہو سکیں۔ صرف یہ فرما دینا کہ مہنگائی تو پوری دنیا میں ہوئی ہے۔ اس سے بات نہیں بنتی۔
یہ بات بھی سچ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں حد درجہ کرپشن ہوئی ہے۔ مگر کرپشن تو ہندوستان میں ہمارے ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر کیا وجہہ ہے کہ وہ نو سے گیارہ فیصد پر ترقی کر رہا ہے۔ اور ہم چار پانچ فیصد سالانہ شرح ترقی پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ جوہری بات شاید یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کوعوام کے اصل مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ ان میں وہ خاصہ ہی نہیں کہ لوگوں کے مصائب کو ذاتی تکالیف سمجھ کر یکسو ہو جائیں۔
ہمارا پورا معاشرہ چند شخصیات کے رحم و کرم پر ہے اور وہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے صرف اور صرف پاور پالیٹکس میں مصروف ہیں۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے، وہ اپنے ہی مسائل کے بوجھ تلے معمولی سی سانس لیتے رہیں گے اور زندہ باد یا مردہ باد کے نعروں سے بہلتے رہیں گے۔