مئی 2020 میں کورونا، پوری دنیا کو لپیٹ میں لے چکا تھا۔ متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن ہو چکا تھا۔ زندگی کافی حد تک مفلوج تھی۔
لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے بھی کتراتے تھے کیونکہ کووڈ اس وقت عذاب کی طرح انسانی جانوں پر حملہ آور تھا۔ پوری دنیا میں خوف و ہراس کی فضا تھی۔ تمام ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی سماجی میل جول پر پاپندی تھی۔ حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن لگ چکا تھا۔
پورا برطانیہ حکومتی فیصلہ کا احترام کر رہا تھا۔ وزیراعظم بورس جانسن پوری قوت اور جانفشانی سے اس عفریت سے کامیابی سے لڑ رہا تھا۔ مئی کے مہینے میں، وزیراعظم کے ذاتی اسٹاف نے ایک باغ میں پارٹی رکھی اور اس میں بورس جانسن نے بھی شرکت کی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی پارٹی کھلی جگہ پر تھی اور اس میں "سماجی فاصلے " کا اصول بھی مد نظر رکھا گیا تھا۔
بہر حال یہ نہ کوئی عوامی اجتماع تھا اور نہ ہی کسی قسم کی قابل ذکر تقریب تھی۔ چند ہفتے قبل یعنی 2021 میں کسی رپورٹر نے اس پارٹی کی خبر چھاپ دی۔ اس نے یہ لکھا کہ وزیراعظم نے پورا ملک تو کورونا کی وجہ سے بند کر رکھا تھا۔ مگر بذات خود، اصولوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک گارڈن پارٹی میں شرکت کی تھی۔ اس کے بعد پورے برطانیہ میں قیامت برپا ہو گئی۔ سوال صرف ایک تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ برطانیہ کا وزیراعظم لاک ڈاؤن کے اندر، اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو پامال کر دے۔ اور اپنے اسٹاف کی سماجی تقریب میں شامل ہو جائے۔
یہ ایک غیر اصولی اور غیر اخلاقی حرکت تھی۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس انکشاف کے بعد برطانیہ کی پارلیمنٹ یعنی ہاؤس آف کامنز میں کیا طوفان برپا ہے۔ اس معاملہ کو "پارٹی گیٹ اسکینڈل" کا نام دے دیا گیا ہے۔ بورس جانسن پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا حد درجہ دباؤ ہے کہ وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ اس کی اپنی سیاسی جماعت میں ممبران نے کہا ہے کہ بورس جانسن نے حد درجہ غیر اخلاقی حرکت کی ہے اور اس کے مستعفی ہونے میں کوئی قباحت نہیں۔ برطانوی حکومت جس کا سربراہ وزیراعظم ہے۔
اسی کے ایک ڈپارٹمنٹ نے بورس کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ وزیراعظم کا پورا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔ بورس جانسن نے پارلیمنٹ میں آ کر نہ صرف قوم سے معافی مانگی ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ یہ کوئی سماجی اجتماع نہیں تھا بلکہ اسٹاف کی طرف سے کام کرنے اور مختلف معاملات پر فیصلہ کرنے کی ایک میٹنگ تھی۔ اس میں کسی قسم کے قاعدے کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ اس نے پارٹی میں شمولیت صرف اس بنیاد پر کی کہ یہ ایک سرکاری کام نبٹانے کی نشست تھی۔ ان دنوں برطانوی سیاست پارٹی گیٹ اسکینڈل کے اردگرد گھوم رہی ہے۔
موجودہ وزیراعظم حد درجہ مصیبت میں مبتلا ہے۔ وجہ صرف یہ کہ جو اصول عوام کے لیے بنائے گئے تھے۔ وہی ضابطہ، وزیراعظم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ بورس جانسن کسی صورت میں عوام کے لیے مختص قاعدے سے بالاتر نہیں ہے۔ دعوت میں جا کر اس نے حد درجہ غیر ذمے داری اور بے اصولی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب اسے سیاست کے میدان سے کنارہ کشی کر لینی چاہیے۔ اس امر کا اب قوی امکان ہے کہ بورس جانسن مستعفی ہو جائے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ برطانیہ کے وزیراعظم نے کس قانون کی خلاف ورزی کی ہے؟ کیا سرکاری وسائل کو نقصان پہنچایا ہے؟ کیا اس نے کسی قسم کی کوئی کرپشن یا مالی بے ضابطگی کی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بورس جانسن نے کسی قسم کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس کی کوتاہیوں میں ایک تو اخلاقی لغزش ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے قاعدے کی خلاف ورزی کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ وہ عوام سے بالاتر نہیں ہے۔ جو اصول عوام کے لیے کارگر ہے، وہی ضابطہ وزیراعظم کے لیے بھی لازم ہے۔ یعنی کسی قانون کی خلاف ورزی کیے بغیر بورس جانسن اپنی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔
وہاں کسی ریاستی ادارے یا عدالت نے بورس کو کچھ نہیں کہا۔ یہ صرف اور صرف عوامی دباؤ ہے جس کی بدولت وزیراعظم بند گلی میں داخل ہو چکا ہے۔ جوہری طور پر یہ مسئلہ قانونی نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔ اس واقعہ کے تناظر میں اب آپ اپنے ملک کے موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں کو پرکھیے۔ ان کی حرکات دیکھ کر انگلیاں چبا لیں گے۔ ہمارے عوام کی یادداشت کمزور ہے۔ مگر اتنی بھی کمزور نہیں۔ کئی معاملات تو لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ دسمبر 1971 کو ہمارا ملک دولخت ہو گیا۔ یہ جنگ کا زمانہ تھا۔
اس نازک ترین وقت میں ملک کا صدر یحییٰ خان کیا کر رہا تھا۔ اس کی خواب گاہ کے باہر سرخ رنگ کا بلب جل رہا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ ملک جل رہا تھا اور یحییٰ خان، عیش و عشرت اور بادہ نوشی کے گڑھے میں مکمل طور پر غرق تھا۔ ہمارا پورا ملک برباد ہو کر رہ گیا۔ مگر اس قبیح فعل میں شامل کسی شخص کو اس کی غفلت، نالائقی اور بدکرداری کی سزا نہیں ملی۔ یہ المیہ سب کے سامنے ہے اور اس سے کوئی مفر نہیں کہ یحییٰ خان اور ان کے ساتھی، اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ مگر آپ ہمارا ادنیٰ نظام دیکھیے کہ اس کو کچھ بھی سزا نہ مل سکی۔ معاملہ کو رفع دفع کر دیا گیا۔
ہمارے قومی سیاست دان، ادارے اور اہم ترین لوگوں کا مسئلہ ذاتی اور اجتماعی اخلاقیات کا نہ ہونا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور کے وزیراعظم جن کا تعلق ملتان سے ہے۔ ان کے دور اقتدار میں ملک میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔ اس قیامت کو دیکھنے اور مدد کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر انجلینا جولی پاکستان تشریف لائیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ سیلاب زدگان کی محرومیاں، ان کے گھروں کی مکمل تباہی، بیماریوں نے اسے ذہنی طور پر حد درجہ متاثر کیا۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ پاکستان مشکل میں ہے۔
اس کی مدد کرنی چاہیے۔ دورہ کے اختتام پر وہ وزیراعظم ہاؤس میں ہمارے وزیراعظم سے ملی۔ وہاں جو چائے اور خاطر مدارت کا پرتعیش انتظام تھا۔ اسے دیکھ کرپریشان ہو گئی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قوم سیلاب کے ہاتھوں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے اور وزیراعظم ہاؤس میں اس کے لیے اتنی بیش بہا ضیافت کا انتظام کیا گیا ہو۔ انجلینا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ حد درجہ کا ظلم تھا کہ ملک ڈوب رہا تھا اور ملک کا حکمران اس قدر عیاشی میں مبتلا تھا۔ مطلب یہ کہ اسے عوام کا اصل میں کوئی خیال نہیں ہے۔
یہ جملے اس کی کتاب میں موجود ہیں۔ آپ خود پڑھ سکتے ہیں۔ کیا اس حرکت کے بعد ملک کے وزیراعظم کو کوئی سیاسی نقصان پہنچا۔ دکھ یہ بھی ہے کہ عوام میں بھی اس بے عملی اورکٹھور پن کا کوئی منفی تاثر نہیں۔ یہ ہمارا اصل پاکستان ہے۔ جس میں خواص اور عوام میں کسی قسم کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ بلکہ ہمارے معاشرے کا اخلاقی بلند قدروں سے کسی قسم کا دور دور تک تعلق نہیں۔ یہاں عرض کرتا چلوں۔ اگر بگاڑ، حکمران طبقے میں ہے، تو یہی ابتری عوم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ انیس بیس کا بھی فرق نہیں۔
موجودہ معاملات کو دیکھیے۔ آپ کو اخلاقی گراؤٹ بدبودار حد تک دکھائی دے گی۔ کیا امریکا کے صدر کے وہم و گمان میں آ سکتا ہے کہ پچیس بلین روپے، وائٹ ہاؤس کے ملازمین کے اکاؤنٹ میں کوئی اجنبی منتقل کر دے۔ جب اس سے پوچھا جائے کہ اتنی کثیر دولت، ملازمین کے اکاؤنٹ میں کیسے پہنچی۔ تو استدلال یہ ہوکہ مجھے تو قطعاً علم نہیں ہے۔ غور فرمایئے۔
دنیا کا طاقتور ترین شخص یہ حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر ہمارے قومی رہنما دھڑلے سے فرماتے ہیں کہ پچیس بلین روپوں کے آنے جانے کا انھیں کچھ معلوم نہیں۔ اخلاقی گراوٹ کی انتہا تو دیکھیے کہ عدالت میں پیشی کے وقت ان پر پھول برسائے جاتے ہیں۔ کس کس ابتری کا ذکر کروں۔
ہمارے موجودہ وزیراعظم ریاست مدینہ کا ذکر کرتے تھکتے نہیں ہیں۔ مگر انکا دولت خانہ بھی تین سو کنال کا ہے۔ ریاست مدینہ کی بنیادیں اخلاقی برتری میں گندھی ہوئی تھیں۔ ہر وقت اس ریاست کا ذکر کیا جاتا ہے جس کے کسی اصول اور ضابطے پر عمل نہیں ہو رہا۔ قیامت تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے نے عمرو عیار کی وہ زنبیل رکھی ہوئی ہے جس کا قارون کی دولت سے بھی پیٹ بھرتا ہی نہیں۔ سندھ کی قیادت کا کسی بھی اخلاقی اصول کے مطابق ذکر کرنا صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔ اب خود بتایئے کہ اس غیر اخلاقی پاتال سے کیسے اور کیونکر نکلا جائے۔
مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یو کے کا وزیراعظم تو ہمارے حکمرانوں کے مقابلے میں طفل مکتب ہے کہ صرف ایک گارڈن پارٹی میں شامل ہو کر اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا بیٹھا۔ اسے غیر اخلاقی تربیت کے لیے فوری طور پر پاکستان منتقل ہو جانا چاہیے۔ بچے کا سیاسی مستقبل، ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمران سنوار دیں گے!