Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bhallay Zamane Ke Judge Bilkul Mukhtalif Hote Thay! (2)

Bhallay Zamane Ke Judge Bilkul Mukhtalif Hote Thay! (2)

جج صاحب، ملتان سے سرگودھا آگئے اور پھر لاہور۔ اس وقت تک میں کیڈٹ کالج سے ایف ایس سی کرکے کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج آچکاتھا۔

1978ء کے لاہور کا ذکر کررہا ہوں، جج صاحبان لاہورآنے سے کتراتے تھے۔ اس کی واحد وجہ سرکاری رہائشگاہ کا مشکل سے ملناتھا۔ بہرحال، جی اوآرتھری شادمان میں دو سرکاری فلیٹ مل گئے اور والد وہاں منتقل ہوگئے۔ دوکمروں کے فلیٹ میں رہن سہن انتہائی سادہ ساتھا۔ لاہورمیںوالدکے کئی دوست، کولیگ، سیشن جج سے ترقی کرکے ہائیکورٹ کے جج بن گئے تھے۔ جن میں شیخ وحید، اوصاف علی خان، راؤاقبال کے نام یاد ہیں۔ جج صاحب ہی کے ایک کلاس فیلو، سردار محمد ڈوگر، براہِ راست ہائیکورٹ میں جسٹس تعینات ہوگئے۔ لاہور آنے سے پہلے مجھے ضلعی عدلیہ کوقریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ مگر ہائیکورٹ کے بہت سے جج صاحبان کو بھی نجی طور پرجاننے کاموقعہ ملا۔ جن حضرات کا ذکر کیاہے، ان سے بھی گاہے بگاہے ملاقات ہونے لگی۔ وہی روایتی سادگی کاعالم۔

جسٹس سردارڈوگرکاذکرکرناضروری سمجھتاہوں۔ شام کوجب بھی ان کے گھرکیا۔ گھرسے باہرفرش پر، موڑھے لگا کر بیٹھے ہوتے تھے۔ بالکل اکیلے۔ چاردیسی موڑھے اوران کے درمیان ایک چھوٹی سے میز۔ چائے کاایک ہی مینیوتھا۔ سادہ چائے اوراس کے ساتھ تین چار کباب۔ گھر میں بھی مہمان داری حددرجہ کم تھی۔ جب بھی جاتا تھا، جسٹس ڈوگرمجھے پرانے لوگوں کے قصے سنایاکرتے تھے۔ بتاتے تھے کہ جب پاکستان معرضِ وجودمیں آیا، تووہ ہندوستان سے ننگے پیروالٹن کے مہاجرکیمپ میں آئے تھے۔ بے آسرا۔ شروع میں انتہائی مشکل حالات دیکھے۔

ڈوگرصاحب لالچ سے مبراانسان۔ تنہائی پسنداورمیرٹ پرکام کرنے والاآدمی۔ بالکل یہی صورتحال، شیخ وحید صاحب کی تھی۔ وہ بھی لاہورہائیکورٹ کے جج بن چکے تھے۔ جی اوآرون میں سرکاری گھرملا تھا۔ جو سادگی ملتان میں تھی، لاہورمیں بھی بالکل وہی تھی۔ گھرکے باہردیوارنہیں تھی۔ سبزے کی ایک باڑتھی۔ پوری کالونی میں کسی قسم کی کوئی خاص سیکیورٹی نہیں تھی۔ شیخ صاحب کے گھر کے باہرکوئی سپاہی تعینات نہیں تھا۔ یہ1981 کی بات ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ان حضرات کے سامنے، پولیس کی گاڑی بھی موجودنہیں ہوتی تھی۔ کوئی ہٹوبچوکی صدا سنائی نہیں دیتی تھی۔ آج اس طرح کے طرزِعمل کا تصورکرنابھی مشکل ہے۔

لاہورہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی بابت عرض کرتا ہوں۔ ایک دن، والدصاحب کے ساتھ، لاہورآناہوا۔ ان کی وکالت کے زمانہ کادورتھا۔ خودگاڑی چلارہے تھے۔ والدنے ماڈل ٹاؤن کے ایک گھرکے سامنے گاڑی روکی۔ اس کے باہر ایک سپاہی بندوق لے کر کھڑا ہوا تھا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق، گھرکے باہرکوئی دیوارنہیں تھی۔ ایک مختلف بات جوپہلی باردیکھنے میں آئی۔

وہ گھرکے باہرایک خیمہ تھاجس میں پولیس کے دوتین اہلکاربیٹھے ہوئے تھے۔ تجسس سے میں بھی والدصاحب کے ساتھ اندر چلا گیا۔ گھنٹی بجائی تو اندر سے ایک دیوہیکل آدمی باہرنکلا۔ چھ فٹ سے لمباقد۔ سرخ و سفیدرنگ۔ سفیدبھنویں۔ مجھے ایسے لگاکہ امیرحمزہ کی کہانیوں والاجن ہے۔ ڈرکر، واپس گاڑی میں آکربیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد، وہی شخص والدصاحب کو باہرچھوڑنے آیا۔ تومجھے دیکھ کر ہنسنے لگا۔ والدسے پوچھاکہ یہ بچہ مجھے دیکھ کرکیوں بھاگ گیا۔

والدصاحب نے جواب دیا، آپ خودپوچھ لیں۔ پوچھاتومیں نے کہاکہ کہیں آپ داستانِ امیر حمزہ کے جن تو نہیں ہیں۔ اس شخص نے قہقہہ لگا کر میرا گال تھپتھپایا اور کہا، نہیں، میں دیونہیں ہوں۔ وہ شخص لاہور ہائیکورٹ کاچیف جسٹس تھا۔ اپنے وقت کا سب سے طاقتور آدمی۔ یادآتاہے توحیرانی ہوتی ہے۔ گھنٹی پرخوددروازہ کھولنا، مہمان کو باہر خود گاڑی تک چھوڑنا، اس کے بیٹے سے گپیں لگانا۔ یہ طرزِ زندگی، مکمل طور پر غیر مصنوعی تھا۔ دراصل، اس وقت کے لوگوں میں غرور یا تکبر بالکل نہیں تھا۔ شخصیت کی سادگی، رہن سہن میں بھی نظرآتی تھی۔ یہ پرانے وقت کی بات ہے۔ آج کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ عدلیہ کے چنداہم اراکین کوبھی پروٹوکول کااتناہی شوق ہے۔ جتنا، سیاستدانوں کواور بیوروکریٹس کو۔ شائدمعاشرہ ہی تبدیل ہوچکاہے۔

طرزِزندگی کی سادگی کی مثال بھی دے سکتاہوں۔ شیخ وحیدصاحب، اس وقت لاء سیکریٹری تھے۔ انھیں پتہ کا آپریشن کرواناتھا۔ سروسزاسپتال میں پروفیسرآف سرجری تھے۔ نام بھی وحیدتھا۔ شیخ صاحب نے اپناآپریشن سروسزاسپتال میں کروایا۔ وہی آپریشن تھیٹرجوعام مریضوں کے لیے مختص تھا۔ والدصاحب کوکوئی عارضہ لاحق ہوا۔ کسی کو بتائے بغیر لاہور کے ایک سرکاری اسپتال میں گئے۔

وہاں ایمرجنسی میں ڈاکٹر سے علاج کرایا۔ ڈیوٹی ڈاکٹرنے انھیں اسپتال میں داخل کرلیا۔ رات گئے پتہ چلاتوفوراًاسپتال پہنچا۔ وہاں، جج صاحب، عام وارڈ میں موجودتھے۔ رات گزاری اوربڑے آرام سے صبح گھرآگئے۔ کسی کوبتایاتک نہیں کہ وہی، اسی شہرمیں سیشن جج ہیں۔ کوئی مبالغہ آرائی نہیں کررہا۔ کوئی فسانہ نہیں سنارہا۔ سادہ زندگی کی یہ روش ماضی کی عدلیہ میں موجود تھی۔ سماجی تقاریب میں بھی یہی عالم تھا۔ جس وقت میری چھوٹی ہمشیرہ، کی شادی ہوئی توجج صاحب سیشن جج جہلم تھے۔ پوری زندگی میں اپنے والدکوپریشان نہیں دیکھا۔ مگر چھوٹی بہن کی شادی پروہ اَزحدمتفکر تھے۔

اس وقت لاہورجم خانہ میں شادی کی تقاریب کی اجازت تھی۔ شادی وہیں ہوئی تھی۔ انتظام بھی سادہ سے تھے۔ اب توایک سے زیادہ کھانوں پرپابندی ہے۔ مگراس وقت بھی اس تقریب کاکھاناسادہ ساہی تھا۔ دویاشائدتین کھانے۔ بیٹیوں کی شادی پرباپ کا پریشان ہونالازم ہے۔ عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ اس وقت کی عدلیہ، جسکودیکھنے کانایاب موقعہ ملا، حددرجہ سادہ اور منکسرالمزاج تھی۔ ہرگزیہ عرض نہیں کررہاکہ اس وقت یعنی ماضی میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ مگراُصول اورانصاف کرنے والے جج صاحبان کی تعدادزیادہ تھی۔

بطورادارہ عدلیہ بہترین کام کررہی تھی۔ سفارش کاعمل دخل نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک دن والد صاحب کے کزن نے کسی عام سے کیس میں انھیں سفارش کی۔ جج صاحب نے انتہائی متانت سے چائے پلائی۔ اس کے بعدکہاکہ آیندہ تم نے میرے گھرآنے کی جرات نہیں کرنی۔ چلے جاؤ۔ اس سے پہلے میں غصہ میں کچھ اور کہہ دوں۔ رشتے کے میرے چچانے خاموشی سے راستہ ناپا۔ اس کے بعدسالہاسال، میرے والدان سے ناراض رہے اورگھرآنے پرپابندی رہی۔ یہ سب کچھ عرض کرنے کاایک مقصدہے۔ قطعاًشوق نہیں کہ چالیس پچاس برس پہلے کی عدلیہ کی تعریف کروں۔ صرف بتاناچاہتاہوں کہ ہرادارے کی طرح، عدلیہ بھی گزشتہ تیس پنتیس برس میں بگاڑکی طرف گئی ہے۔ اسکااعتراف کرنابہت مشکل ہے۔ یہ بگاڑ اعلیٰ عدلیہ میںبھی آیا۔ کالم میں ساری وجوہات بیان کرنا ناممکن ہے۔

پنجاب میں اَل شریف کے اقتدارشروع ہوتے ہی جہاں انھوں نے اے سی، ڈی سی، ایس پی اورتھانیدارتک اپنے لگانے شروع کردیے۔ اسی طرح، اپنے واقف، تعلق دار، دوست اورقرابت داروں کوبطورجج بنواناشروع کردیا۔ 1985سے آگے کے حالات یکسرتبدیل ہوگئے یاکردیے گئے۔ اس زمانے میں صوبے کے وزیراعلیٰ کاججوں کی تعیناتی میں بہت عمل دخل تھا۔ تلخ بات عرض کررہاہوں۔ اس پالیسی کے تحت، اَل شریف کو وہ وہ سہولتیں ملیں جوعام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اربوں روپے کے قرضوں کو دہائیوں تک کے لیے منجمدکرادیاگیا۔ یہ کھیل کم ازکم تیس پنتیس سال چلتارہا۔

بعینہ یہی کھیل احتساب عدالت میں بھی کھیلا گیا۔ وہی روایتی ہتھکنڈے، وہی دھمکیاں، وہی پیسے کالین دین۔ اس ترکیب کویہاں بھی استعمال کیاگیا۔ اس کے نتائج کیانکلتے ہیں، اس پرکافی کچھ کہہ سکتا ہوں۔ مگر اس وقت کیونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، اسلیے کچھ بھی عرض کرنامناسب نہیں۔ موجودہ کھیل کے ایک کردار جج ارشدملک پرضرورگزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ارشدملک کون ہے۔ کتنے مرلے کا مکان میں رہتا ہے۔ جج کیسے بنا۔ احتساب عدالت میں کس کے ذریعے لگوایاگیا۔

مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر جب ارشدملک کے نام کے ساتھ جج کالفظ لگ جاتا ہے۔ تو فوری طورپرمیرے جیسے طالبعلم کی اس عہدے کے لحاظ سے توقعات شروع ہوجاتی ہیں۔ مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں، کہ وہ کس کس سے ملتارہا۔ مگر میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیاایک منصف کاکسی بھی صورتحال میں مجرم یاملزم سے براہِ راست رابطہ مناسب ہے؟ کیا جج کاتعیناتی کے ضلع میں منشیات فروشوں کے گروہ سے شناسائی درست ہے؟کیاکسی بھی مہذب معاشرے میں جج کارنگین سماجی دعوتوں میں جانا ایک قابل قبول رویہ ہے؟ ہرگز نہیں۔ قطعاً نہیں۔ میراکسی بھی فریق سے کوئی لینادینا نہیں۔ لیکن عدلیہ کے دیرینہ شاسا کے طور پر مجھے ارشدملک کے رویے سے اَزحدرنج ہوا ہے۔ غیرجانبدارجج صاحبان کارویہ بھی شائدایساہی ہو! صرف احتیاط سے یہ عرض کرونگاکہ بھلے وقتوں کے جج صاحبان، بہت مختلف ہواکرتے تھے!