Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bhool Jane Wala Khana (1)

Bhool Jane Wala Khana (1)

ذوالفقار علی بھٹو حددرجہ ذہین انسان تھے۔ لفظوں کے جادوگر اور تقریر کے فن میں یکتا۔ ان کی صلاحیت جیسا قائد شاید ان کے بعد کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ ایک ایسی صفت کے مالک بھی تھے جو کافی حد تک نایاب ہے۔ یادداشت بلا کی تھی۔

اپوزیشن کی سخت کوشی کے دوران اگر کسی کھوکھے والے نے انھیں احترام سے چائے پیش کر دی تو بھٹو صاحب اس کو بھی یاد رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب کی یادداشت مثالی تھی مگر اس پارہ نما صفت کا ایک منفی پہلو بھی تھا۔ جس شخص نے ان کے ساتھ کبھی بھی بدسلوکی کی تھی، اسے بھی یاد رکھتے تھے اور اس کے مخالف بن جاتے تھے۔

بھول جانے کی عادت کا ان کے کردار سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اگر بھٹو صاحب کے دور ابتلا کو غور سے دیکھیں تو ان کے سیاسی دشمن ان کی دشمنی کو یاد رکھنے کی جبلت سے سخت خوف زدہ تھے۔

انھیں معلوم تھا کہ اگر بھٹو جیل سے باہر آ گیا تو ان کے لیے قبر کھود دے گا۔ چنانچہ ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ بھٹو کو مار دیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نہ بھولنے والی عادت سے جڑا ہوا ایک واقعہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ قاسم رضوی کمشنر ملتان تھے۔ بھٹو صاحب اس وقت اپوزیشن کی حدت برداشت کر رہے تھے۔ پیپلزپارٹی نے ملتان میں ایک جلسہ کرنا تھا۔

مقامی قیادت کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ جب بھٹو کو معلوم ہوا تو فون پر قاسم رضوی سے بات کی اور سیاسی جلسہ کرنے کی اجازت مانگی۔ کمشنر نے حددرجہ تمیز سے بتایا کہ صوبائی حکومت کے حکم کے مطابق جلسہ کرنے کی اجازت دینا ان کے اختیار سے باہر ہے۔ لہٰذا وہ انھیں کسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کر سکتے۔

بھٹو صاحب کو قاسم رضوی کی یہ بات بہت ناگوار گزری مگر برداشت کر گئے۔ پیپلزپارٹی، ملتان میں وہ جلسہ کرنے میں ناکام رہی۔ خیر الیکشن ہوئے، بھٹو صاحب ٹوٹے ہوئے ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ وزارت عظمیٰ کے اولین کاموں میں بھٹو صاحب نے بیورو کریسی میں افسران کو نکالنے کی فہرست مرتب کروائی۔ اس میں سابقہ کمشنر ملتان قاسم رضوی کا نام موجود تھا۔

بھٹو صاحب کو ان کے ساتھیوں نے بہت سمجھایا کہ قاسم رضوی حددرجہ ایماندار اور نیک نام افسر ہے۔ اس کو نوکری سے برخاست کرنا بہت زیادتی ہوگی۔ مگر بھٹو صاحب کے دماغ میں"بھولنے والا خانہ" موجود ہی نہیں تھا۔ جب برطرف افسران کی فہرست نکالی گئی تو قاسم رضوی اس میں شامل تھے۔ ذوالفقار بھٹو کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو یاد رکھنے کی عادت ان کی بدترین دشمن ثابت ہوئی۔

مزاج میں اس عادت سے اتنی تلخی آ گئی کہ اپنے پرانے دوستوں کو دشمن بنانے کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔ بھٹو صاحب تختہ دار پرلٹکا دیے گئے۔ انھیں ایک جعلی اور جھوٹے مقدمہ میں سزائے موت سنائی گئی۔ مگر اس قبیح واردات کی بنیادمیں بہرحال ان کی انتقامی عادت کا بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ ایک حددرجہ زرخیز ذہن، انھی بشری کمزوریوں کی تاب نہ لا سکا اور وہی ہوا جو ہمارے جیسے پسماندہ ملک میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

ہم میں سے ہر ایک شخص کو کہیں نہ کہیں جبر، ظلم اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر ایک کو کسی ایسے گناہ کی سزا دی جاتی ہے جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں۔ اکثریت اس جبر کے ردعمل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زندگی کا طویل عرصہ، اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لینے یا انتقامی کارروائی مرتب کرنے میں گزار دیتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ متعدد لوگوں کے لیے یہ درست رویہ ہو مگر ٹھہر جائیں۔ ہر انسان کے ذہن میں دو خانے ضرور ہوتے ہیں۔ ایک یاد رکھنے والا اور ایک بھول جانے کا۔ اگر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو بھول جانے والے خانے میں مقید کر دیں تو آپ کی زندگی حیران کن حد تک بہتر ہو جائے گی۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ ہر ظلم بغیر کسی وجہ کے برداشت کرتے جائیں۔

اگر جبر ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو اس کے سامنے سینہ سپر ہونا ازحد ضروری ہے۔ مگر زندگی میں اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے انسان کو بھول جانے میں وہ انسانی عظمت ہے جو دشمن کو بھی ایک دن آپ کے در پر سرنگوں کر دیتی ہے۔

قدرت کا ایک عجیب توازن ہے جو کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتا۔ جو شخص، کسی بھی قسم کے ردعمل کا شکار ہو وہ خوش نہیں رہ سکتا۔ ردعمل انسان کو گھن کی طرح اندر سے کھا جاتا ہے۔ زندہ نگل جاتا ہے اور آپ کو ذہنی مریض تک بنا سکتا ہے۔ اس معاملہ کو ایک اور نظر سے دیکھیے۔ اپنے کسی بھی دشمن کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے زندگی میں حددرجہ محنت کرنا شروع کر دیجیے، جائز دولت کمایے، ریاضت کو ذاتی خوشحالی میں بدل دیجیے۔ اگر آپ کسان ہیں تو فوری طور پر بہترین طرز کی کاشت کاری شرع کر دیں۔ مالی فوائد حاصل ہوں گے۔

جائز پیسے کو اپنے ذاتی استعمال میں لایئے۔ اگر آپ محنت کش ہیں تو اپنے کام کو اتنی لگن سے کیجیے کہ اردگرد کے لوگ ششدر رہ جائیں۔ بڑے قلیل عرصے میں آپ کے انفرادی کام کی اتنی دھوم مچ جائے گی کہ لوگ منت سماجت کریں گے کہ آپ ان کے ساتھ کام کیجیے۔ جو اصول وزیراعظم کے لیے ہے بعینہٖ وہی اصول ایک مزدور اور راج کے لیے بھی ہے۔

بھول جانے والے خانے کو کبھی بھی بند نہ ہونے دیجیے۔ زندگی بہت حد تک بہتر ہو جائے گی۔ درگزر کرنے کی عادت آپ کے کردار میں وہ نکھار پیدا کرے گی جس کی لذت سے آپ مکمل ناآشنا ہوں گے۔

شخصی معاملات کے اس اصول کو ریاستی سطح پر لے جائیں۔ ملک کے بڑے بڑے مسائل کی فہرست بنایئے۔ آپ حیران رہ جائیں گے کہ اصل مسئلہ تو عرصے سے بہت پیچھے رہ چکا ہے۔ اب تو پورا ملک یا ادارے صرف اور صرف ردعمل کا شکار ہیں۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی سنتا آیا ہوں کہ بھارت، مقبوضہ کشمیر میں انسانی مظالم کی انتہا کر رہا ہے۔ اور ہم بحیثیت ملک ان مظلوم لوگوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد کرتے رہیں گے۔ ویسے ہر ایک کو معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی اداروں نے بہرحال غلطیوں کا ارتکاب ضرور کیا ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو پیروں تلے روند رہا ہے۔ مگر جب میں مقتدر طبقے سے یہ سوال کرتا ہوں کہ جناب آپ کے پاس بھی کشمیر کا ایک مکمل حصہ موجود ہے، آپ وہاں قانون کی حکمرانی، انصاف، صنعتوں کا جال کیوں نہیں بچھا دیتے تاکہ آزاد کشمیر کی شرح نمو اتنی بڑھ جائے کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہر زنجیر توڑ کر اس ترقی میں بذات خود شامل ہو جائیں۔ مگر اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ ہماری ریاستی یادداشت کے خانے میں صرف مظالم کی طویل فہرست ہے۔

ترقی کو بڑھاوا دینے کا کوئی فارمولا نہیں۔ اور خیر، جزوی نکتہ وقتی طور پر بھول جانے کی استطاعت سے بھی محروم ہیں۔ نتیجہ کیا ہوا ہے۔ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کرتے کرتے خود ایسے گرداب میں جا چکے ہیں جہاں ہمیں بھیک مانگنے کے لیے دنیا کے ہر امیر ملک اور ادارے کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر خاموش ہو جائیں۔

ہرگز نہیں۔ مگر وقتی طور پر اپنی ملکی ترقی کو اس پالیسی کے تابع نہ کیجیے۔ بھول جانے والے خانے کو کھولیے اور اس مسئلہ کو اس وقت کے لیے بھول جائیں جب تک ہمارا اپنا ملک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو جاتا۔ ہم بذات خود ایک بین الاقوامی اقتصادی طاقت نہیں بن جاتے۔ معلوم ہے کہ حددرجہ تنقید ہوگی مگر میں اب صرف اپنے ملک کے مفاد کے ساتھ وابستہ ہوں۔

جذباتیت، سیاسی خانہ جنگی اور لفاظی کے سحر سے مکمل طور پر باہر نکل چکا ہوں۔ میرا ہیرو صرف وہ ہے جو ملک کی بہتری چاہتا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرواتا ہے۔

شخصی اور ملکی سطح پر بھی بالکل ایک جیسا معاملہ ہے۔ اگر یاد رکھنے والا خانہ ضرورت سے زیادہ بھرا ہوا ہے۔ اس میں دوسرے کے خلاف انتقام ہی انتقام ہے تو سمجھ جائیں کہ نہ کوئی شخص اس منفی رویہ سے ترقی کر سکتا ہے، نہ کوئی سیاست دان سپھل ہو سکتا ہے اور نہ کوئی ادارہ ملک کی خدمت کر سکتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی بھی ملکی سطح کا بونا یا قد آور سیاست دان، ریاستی یا آئینی ادارہ بھول جانے والے خانے کو کسی قسم کی کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہا۔ ساتھ ساتھ ذاتی انتقام ابل ابل کر معاشرے کے ہر عضو کو برباد کر چکا ہے۔ ہم صرف اور صرف ایک دوسرے کے لیے عذاب بن چکے ہیں۔ قانونی جزا اور سزا کا فلسفہ بالکل ختم ہو چکا ہے۔

ہر شخص، ادارہ، اپنے یاد رکھنے والے خانے میں غصہ کا وہ سفوف بھر کر پھر رہا ہے جس سے بربادی کے گہرے بادل روشنی کی کرن کو روک رہے ہیں۔