پوری دنیا کے غیر جانبدار تحقیقاتی ادارے چیخ چیخ کر، بتا رہے ہیں کہ ہمارا ملک ہر اعتبار سے خرابے کا شکار ہے۔ اس کی مجموعی سمت مناسب نہیں بلکہ حد درجہ غلط ہے۔ معاشی، سیاسی، سماجی بلکہ ہر اعتبار سے پاکستان کی کشتی گرداب میں پھنس چکی ہے۔
ورلڈ بینک اور دیگر ادارے، اب تو گلا پھاڑ کر سب کچھ اپنی شایع شدہ رپورٹوں میں نوحہ گر ہیں۔ مگر خطرے کی گھنٹی کی آواز اگر کسی کو سنائی نہیں دے رہی، تو وہ ہمارے ریاستی ادارے ہیں۔ یہ باہر سے تو مطمئن نظر آ رہے ہیں۔ ڈاکا زنی بڑے سکون سے جاری و ساری ہے۔ مگر چند واقعات ایسے ہوئے ہیں جن کی بدولت تمام معاملات جوہری طور پر بدل سکتے ہیں۔
خطہ کے اعتبار سے حد درجہ اہم بات یہ ہے کہ چند دن پہلے چین اور ہندوستان نے ایک معاہدہ کر لیا ہے جس میں انھوں نے اپنی افواج کو 2020کی پوزیشن پر جانے کا حکم صادر کیا ہے۔ یعنی دونوں ملک، اب امن کے راستے پر گامزن ہو چکے ہیں۔ دونوں ممالک نے حددرجہ فراست سے سرحدی جھڑپوں کو اب دفن کر ڈالا ہے۔
اعلانیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب دونوں ممالک آپس کی تجارت کو فروغ دینے کو حد درجہ ترجیح دینگے۔ اس برس، دونوں ممالک کی باہمی تجارت، ایک سو چھتیس(136) بلین ڈالر تک بڑھ چکی ہے۔ ہر آنے والے برس میں، اس شاندار کاروباری شراکت کا حجم سولہ سے پچیس فیصد تک بڑھنے کا قوی امکان ہے۔ جناب، دونوں ممالک سمجھ چکے ہیں، کہ حب الوطنی کے نعرے اور جنگ، دونوں ملکوں کے عوام کو سوائے غربت اور جہالت کے کچھ بھی نہیں دے سکتی۔
ہندوستان اور چین اب ایک دوسرے کے دشمن ملک نہیں رہے۔ ہمارے ملک میں کیونکہ سنجیدہ سوچ کا فقدان ہے لہٰذا میڈیا، اخبارات بلکہ تجزیہ کاروں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ہمارے معاملات ہیں کہ کس طرح آزاد سوچ کو ٹھکانے لگایا جائے؟ موجودہ حکومت کے معروف وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں چین کے سفیر کی موجودگی میں جو کہا تھا اس سفارتی رویہ نے مسائل پیدا کیے۔
چین کے سفارت کار حد درجہ محتاط گفتگو کرتے ہیں۔ مگر دو ہفتے قبل، اس محترم تقریب کے اختتام پر، چینی سفیر نے ہمارے جزوقتی وزیر خارجہ سے شکایت کی کہ آپ نے چینی افراد کے متعلق درست نہیں کہا جو پاکستان میں مکمل غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ چینی سفیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ سی پیک اور دیگر منصوبے کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔
کیونکہ پاکستان مجموعی طور پر چینی شہریوں کو حفاظت مہیا کرنے میں ناکام ہو چکاہے۔ اس کے بعد، ہماری وزارت خارجہ کا بیان غیر دانشمندانہ تھا۔ بہر حال، ہماری وزارت خزانہ اس نازک معاملہ کو قطعاً سنبھال نہیں سکی۔ نکتہ صرف یہ ہے کہ اب ہمارے چین سے تعلقات بھی ٹھنڈے پڑنے کے خدشات ہیں۔ مگر یہاں کسی کو بھی کوئی فکر نہیں ہے۔
اب ایک حد درجہ نازک نکتہ کی طرف آتا ہوں۔ پچھلے ماہ کراچی ایئرپورٹ کے نزدیک چینی انجینئر کی گاڑیوں پر حملہ ہوا۔ جس سے دو اہم سطح کے چینی باشندے مارے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو کس طرح معلوم ہوا، کہ چینی وفد، کس فلائٹ اور کس وقت، کراچی آ رہا ہے؟ پھر مزید سوال اٹھتا ہے کہ ان کو کس طرح معلوم ہوا کہ چینی وفد، کس راستے سے اپنی قیام گاہ کی طرف جارہا ہے؟ یہ حد درجہ غیر معمولی بات ہے۔ حتمی طور پر کہنا توخیر ممکن نہیں مگر قیاس ہے کہ یہ معلومات باقاعدہ ایک غیر ملکی ایجنسی کو بھاری قیمت پر فروخت کی گئیں۔ چینی حکومت کو بھی اس بابت کافی معلومات مل چکی ہیں۔
ہمارے پاس کوئی بھی اس سطح کا سیاسی قائد نہیں، جس پر چین کی حکومت آنکھ بند کرکے اعتماد کر لے۔ یہ تمام معاملات، ہماری مجموعی ناکامی ظاہر کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ، اس معاملہ کو سنبھالنے کی دانش مندی بھی معدوم نظر آتی ہے۔ وزیراعظم کا اظہار افسوس یا چین کے سفارت خانے جا کر تعزیت کرنا، محض نمائشی سے اقدام ہیں۔
جن کی عملی حیثیت بالکل نہیں ہے۔ مگر کیا کریں۔ ہمارا پورا نظام ہی مذمتی بیانات پر چل رہا ہے۔ ہاں ایک اور بودا سافقرہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کا نوٹس لے لیا گیاہے۔
اس طرح کے ادنیٰ بیان دینے سے بہتر ہے کہ ہمارے حکومتی عمال خاموش رہیں اور دہشت گردی کی وارداتوں کا قلع قمع فرمائیں۔ بلوچستان اور کے پی کے بدامنی کے اصل حقائق، آج بھی قوم کے سامنے نہیں رکھے جا رہے۔ وہاں سے ملنے والی مصدقہ اطلاعات کے مطابق، دونوں صوبائی حکومتیں، لوگوں کو تحفظ دینے میں مکمل بے بس ہو چکی ہیں۔ ہم ہر وقت گوادر کی شان میں قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں۔ مگر بلوچستان کی صوبائی حکومت، گوادر کو جانے والے راستوں کو بالکل محفوظ نہیں بنا سکی۔
چین سے ذرا نکل کر اب امریکی الیکشن کے متوقع نتائج کی طرف نظر دوڑانا بھی صائب بات ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ایک متاثر کن عوامی تائید سے قصر صدارت میں واپس آیا ہے۔ امریکی سیاسی تاریخ میں، Grovar Cleveland کے بعد، وہ واحد امریکی صدر ہے جو ایک ٹرم کے بعد الیکشن میں ناکام ہوا تھا اور پھر حیرت انگیز طریقہ سے وائٹ ہاؤس میں واپس آیا ہے۔ ٹرمپ کا جیتنا حد درجہ متوقع تھا۔ وہاں یہ بات مستحکم ہو چکی تھی کہ دیہی علاقوں میں کملا ہارس کی بہت کم پذیرائی ہے۔
وہاں ٹرمپ کا ووٹ بینک بہت مضبوط تھا۔ اس کے علاوہ، سفید فام لوگوں کا مجموعی رجحان، ٹرمپ کی جانب تھا۔ کملا دیوی نے ایک کمال ضرور کیا ہے۔ انھوں نے اپنے آپ کو امریکا کی افریقی نژاد افراد کے ساتھ منسلک کر لیا۔ حالانکہ ان کا افریقہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی والدہ، تو ساؤتھ انڈین تھیں۔ مگر کملا دیوی ہارس نے اس سچ کو بڑی کامیابی سے چھپا کر، امریکا میں نسل پرستی کے کارڈ کو کھیلنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
اگر آپ غور فرمائیں تو وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے زورًپر، چور دروازے سے صدارتی امید وار قرار دی گئی تھیں۔ ڈیمو کریٹس کے امریکی صدر کے سیاسی چناؤ کے طریقہ کار سے تو ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو اس اہلیت کی مالک ہی نہیں تھیں۔ کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے ضابطے کے مطابق صدارت کی امیدوار بن پاتیں۔ اب آپ کو کھیل سمجھنا چاہیے۔ امریکا میں یہ الیکشن امریکی اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان ہوا ہے۔ جس میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کو مکمل ناکامی ہوئی ہے۔
یہ نازک نکتہ، پاکستان میں صاحب فہم لوگوں کے علم میں ہے۔ اس کے ہماری داخلی سیاست پر کیا اثرات ہونگے۔ اس کے متعلق قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ٹرمپ نے تقریباً دو ماہ بعد اقتدار کی مسند پر براجمان ہونا ہے۔ دوبارہ عرض کرونگا کہ نوے دن کے عرصہ میں، ممکنہ طور پر ہمارے ملک میں کافی کچھ بدل سکتا ہے۔ ارسطو اور بزرجمہر سیاستدان جس طرح ٹرمپ کے خلاف، اپنی ماضی کی ٹویٹس کو ڈیلیٹ کر رہے ہیں۔ وہ اس خوف کو ظاہر کر رہا ہے۔ جو ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد، ہمارے چند مضبوط حلقوں پر طاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے ٹرمپ کے خلاف جو منفی ٹویٹس کیے تھے وہ بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔
ان کے قائد اب ٹرمپ کو مبارک بادوں کے پیغامات دے رہے ہیں۔ جن کا بہر حال اب تک ٹرمپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ مسلم لیگ ن کے خوشہ چینوں کی طرف سے فرمایا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے آنے سے قیدی نمبر 804اور اس سیاسی جماعت کے لیے کوئی بہتری نہیں ہوگی۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا، اس سے متضاد باتیں کر رہا ہے۔
زلفی بخاری اور ٹرمپ کے داماد کے درمیان رابطے کی باتیں، اب خاص عام کے علم میں ہیں۔ آنے والے وقت میں ممکنہ طور پر کیا ہوگا اس کے متعلق صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی صدر کی خواہشات، ہمارے مقتدر طبقے کے لیے حکم سے بڑھ کر حیثیت رکھتی ہیں۔ بہر حال اگلے تین ماہ فیصلہ کن ہیں۔ دیکھیے، سرکس کا ہاتھی، چھوٹی سائیکل چلاتے ہوئے گرتا ہے یا سائیکل مسلسل چلتی رہتی ہے؟