ملک کاکیاہے۔ ایسے ہی چلتارہے گا۔ یا شاید رینگتا رہیگا۔ بہترسال کاعرصہ کم نہیں ہوتا۔ پہلے دن سے لے کرآج تک یہ علاقہ آفت زدہ ہے اوررہے گا۔ ترقی کاسورج یہاں طلوع نہیں ہوسکتا۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ یہ خطہ، کسی دوسری دنیاکاجہنم ہے۔ جہاں ہم تمام لوگ سزاکے طورپرسانس لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ جھوٹ درجھوٹ کی تکرار، کسی بھی مسئلہ کاحل نہ ہونااورعام اورخاص لوگوں کے وہی دلخراش چال چلن۔ لہذامثبت تبدیلی کی ہوانہ پہلے کبھی چلی ہے اور نہ چلنے کاکوئی امکان ہے۔
ہاں، گھٹن اورحبس تو خیر بڑھتی ہی رہیگی اورزورشورسے بڑھ رہی ہے۔ جب کوئی حالات کودرست کرنے کانعرہ مارتاہے تو اکثر لوگ خوف میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ کہ نیایا پرانا شکاری، نئے یابہت نئے جال لے کرلوگوں کی حسرتوں اور خواہشات کومقیدکرنے آگیا ہے۔ ہمارامسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ریاستی سطح کے چند لوگوں کواتنابلندوارفع مقام دے ڈالاہے جس کاعملی جوازنہ ہونے کے برابر ہے۔ اگرآپ تحقیق اوردلیل کی بنیادپربات کرنے کی کوشش کریں، توآپکوساری عمر"پسِ دیوارِ زندگی" گزارنی پڑے گی۔ جس کاکسی کوکبھی بھی کوئی شوق نہیں ہوتا۔ بربادی، جعلی ترقی اورمنفی تبدیلی جاری و ساری رہے گی۔ یہی ہمارامقدرہے۔
افواہ ہے کہ خان صاحب کے دن گنے جاچکے ہیں۔ فرشتے کسی نئی تدبیرمیں غلطاں وپیچاں ہیں۔ وہی شہباز شریف، جو برطانوی جرنلسٹ کے انکشافات کاکوئی جواب نہیں دے پائے۔ دوبارہ، اقتدارکی دوڑمیں شامل ہیں۔ پرندے یہ بھی بتاتے ہیں کہ خان صاحب کوان کے انتہائی "نالائق دوستوں "نے کنویں کی منڈھیرپرکھڑا کردیا ہے۔ دھکاکب دیاجائے گا، اسکاعلم پورے پاکستان میں صرف ایک آدمی کوہے۔ اورلازم ہے کہ یہ سب کچھ Surprise کے عنصرکومدِنظررکھ کرہی پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ ویسے میں خان صاحب کے "انتہائی پست سطح کے دوستوں "سے انتہائی خوش ہوں۔ عمران خان کی شکل میں ملک کی بہتری کی جو آخری اُمیدعوام کے سامنے آئی تھی صرف اٹھارہ ماہ کے قلیل عرصے میں کمال ہوشیاری سے اسکوفناکردیاگیاہے۔
خان صاحب کواندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ ہواکیاہے۔ ممکنہ طور پران کے دوست ان کے ساتھ کیاکرنے والے ہیں۔ شاید بے خبری ان کے خیالات کامخزن ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تعویزاوردھاگوں سے اس مشکل سیاسی صورتحال کوحل کرنے کی کوشش کررہے ہوں۔ مگرقرائن ہرطرح سے ان کے خلاف جارہے ہیں۔
"احتساب"کی جتنی بھی کم بات کی جائے، درست ہے۔ کیونکہ سوال زیادہ ہیں اورجواب حددرجہ کم۔ یونان کاایک بے مثال فلسفیDiogenesدن میں شمع جلا کر پھر رہاتھا۔ پوچھاگیاکہ اس وقت تودن کی بھرپور روشنی ہے۔ پھر آپ نے قندیل کیوں روشن کررکھی ہے۔ جواب حددرجہ فکرانگیزتھا۔ اس نے کہاکہ شمع کی روشنی میں اپنے پورے ملک میں ایک"ایماندارآدمی"تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سورج کی روشنی تواس کام کے لیے حددرجہ ناکافی ہے۔ شایدموم بتی کی روشنی میں کوئی ایماندارشخص مل جائے۔ تو صاحبان!بعینہ ہی، یہی حال مملکتِ خدادادکاہے۔ یہاں اگرہمDiogenesکی طرح شمع جلاکرسچ، دلیل، انصاف اورایمانداری کوڈھونڈنے نکلیں تومکمل طورپر ناکام ہونگے۔ مگریہاں شایدموم بتی بھی ناکام ہوجائے۔ بالکل اسی طرح، جیسےDiogenes، ہزاروں برس پہلے ناکام ہواتھا۔
ویسے اب سیاسی حالات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ آپ دس سے بارہ سرخیاں یادکرلیں۔ پھرگزشتہ دہائیوں کے اخبارات کامطالعہ کرلیں۔ بالکل ایک جیسے نعرے، ایک جیسی خبریں اورایک جیسے دعوے۔ کسی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ ہاں چندسڑکیں، عمارتیں اورپُل ضروربنے ہیں۔ نہریں بھی کھودی گئی ہیں۔ مگرانھیں عوامی سہولت کے پیشِ نظر نہیں، بلکہ خواص کے مالی فائدے کے لیے"دکھاوے"کے طورپر تعمیر کیا گیاہے۔ مزدوروں اورہاریوں کے رفیق جماعت کے سرکردہ سرپنچ، پیرس میں محل کے مالک ہیں۔
جہاں ان کی اولاد جوکہ بالکل انھی کی طرح ہاریوں اورغریب طبقوں کی نمایندگی کرتی ہے۔ اس محل میں چھٹیاں گزارتی ہے۔ ہاں، اہتمام کیاجاتاہے کہ اخبارمیں خبرنہ آئے۔ اس طرح کے درجنوں محل دنیاکے ہرکونے میں موجودہیں۔ ہاں ایک خبرشوق و ذوق سے لگوائی جاتی ہے کہ ہمارے اکابرین مسلمانوں کے مقدس مقامات پرعبادت میں مصروف ہیں۔ ویسے اس عبادت کاسفراکثرسرکاری پیسوں سے سرانجام دیاجاتا ہے۔ پاکیزگی اورراست بازی کاڈھول پیٹاجاتاہے۔ لوگ بڑے اہتمام سے ہرباربیوقوف بنائے جاتے ہیں۔
یکسانیت سے تنگ آکرکیاکیاجائے۔ دل اور روح کے غم کوکیسے کم کیاجائے۔ ہرشخص کااس معاملہ میں اپناذاتی طریقہ کارہے۔ غریب کےCatharsisکاطریقہ اور ہے۔ اورامیرکااپنے جرائم کے بوجھ کم کرنے کاطوربالکل الگ۔ جب روزگار عنقاہوں۔ جب ہردفتر، بازار اور قبرستان میں ریٹ لسٹ لگی ہوں توپھربائیس کروڑ میں، ایک کروڑ تو منشیات کے مستقل عادی ضرورہونگے۔ باقی شرفاء چھپ کر اپناشوق پوراکرتے ہیں۔ لیکن یہ پوری قوم ذہنی امراض کا بھرپورشکارہوچکی ہے۔ تسلیم کوئی نہیں کرتا۔ جولوگ مشرقی اقدارکاٹوکراسجاکرعقیدت کے گُل یاکانٹے فروخت کررہے ہیں۔ وہ بھی اصل حالات دیکھ کرانگلیاں چبارہے ہیں۔ مگر یہ اتنے کائیاں لوگ ہیں کہ حقیقت جاننے کے بعد، اپنی نہیں، بلکہ دوسروں کی انگلیاں چبانے میں مصروف ہیں۔
آپ کسی بڑی یاچھوٹی تعلیمی درسگاہ میں چلے جائیے۔ اساتذہ یاطلباء کواعتمادمیں لے کرپوچھیں۔"بوائے فرینڈ"اور "گرل فرینڈ"کے واقعات عام ہوچکے ہیں۔ ان کے ساتھ جڑے ہوئے معاملات بھی بالکل اسی سطح کے ہیں جومغرب میں مروجہ ہیں۔ مگرکوئی بھی اس سچ پرکھل کربات نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ اخلاقیات کوڈنڈے کے زورپر لاگو کیا جاتا ہے جوہردورمیں ناکام رہاہے۔ ہمارے معاشرہ کی اخلاقی قدریں سوفیصدتبدیل ہوئی ہیں۔ وجوہات اَن گنت ہیں۔ مگرانکوماننابہت دل گردے کاکام ہے۔ بہرحال اس پر کیابات کرنی۔ بلکہ یہ سوچتاہوں کہ کیوں کی جائے۔
جب دل اُداس ہوتاہے اورموجودہ یاماضی کی صورتحال سے دل اُچاٹ ہوجاتاہے توماضی کی بہترین آوازیں، یعنی کے ایل سہگل، بیگم اخترفیض آبادی اوربڑے غلام علی خان سنتاہوں۔ آج سے ٹھیک ایک برس پہلے، جب میں واقعی زندہ تھا، ایک دوست سے مشورہ کیاکہ پرانے گلوکاروں کو سننا چاہتاہوں۔ اس کے لیے کون سامیوزک سسٹم خریدوں۔ اس کا جواب تھاکہ میوزک سسٹم کازمانہ ختم ہوگیا۔ اب تووائی فائی پر صرف ایک اسپیکرکی ضرورت ہے۔ اس نے "Bose" کا اسپیکرخریدنے کے لیے کہا۔ معلوم کیاتولاہورمیں یہ اسپیکر موجود ہی نہیں تھا۔ کراچی میں ایک دکان تھی۔ ان کے پاس دوتین اسپیکرموجودتھے۔ انٹرنیٹ پرایک اسپیکرپسندکیا۔
دام اداکیے اوروہ اسپیکرچاردن میں میری اسٹڈی میں آگیا۔ اب سرِشام، اس اسپیکرپرپرانی کلاسیکل غزلیں سنتاہوں اورخاموشی سے کوئی کتاب پڑھتاہوں۔"دختر ِرذ"سے کنارہ کیے عرصہ دراز گزرگیا۔ اب موسیقی ہی دل کوسہارادیتی ہے۔ ویسے کیایہ کمال بات نہیں کہ بیگم اخترجیسی نایاب آوازکانوے فیصد لوگوں کواب کوئی علم نہیں ہے۔ کے ایل سہگل کے متعلق پوچھیے توہوسکتاہے کہ جواب ملے گا کہ وہ ناسامیں انجینئر تھے اور بڑے غلام علی خان، دراصل کتابیں بیچنے کاکام کرتے تھے۔ ہماراتنزلی کاسفر انتہائی درجے کا خوشگوارہے۔
ہاں ایک اوربات، ہمارے مستندترین گلوکاروں کے گائے ہوئے شہکاروں کوجس طرح مسخ کرکے آج کل پیش کیاجارہاہے۔ اس سے اَزحد تکلیف ہوتی ہے۔ غلام فرید صابری قوال کی سحرانگیزقوالی "تاجدارِحرم"کوجس بھونڈے طریقے سے دوبارہ، عصرِحاضرمیں گایاجارہاہے، وہ قوالی سے ایک دردناک مذاق ہے۔ خیرشام کواپنی اسٹڈی میں کتابوں اورموسیقی کے درمیان گھرارہتاہوں۔ بہت سے صحرائی سفریادآتے ہیں۔ بہت سے زخم دوبارہ خون آلود ہوجاتے ہیں۔ مگراب خدانے اتناحوصلہ عطاکردیاہے کہ کسی سے بھی کوئی نفرت نہیں ہے۔ ان سے بھی، جنھوں نے مجھے حددرجہ نقصان پہنچایااوران سے بھی جومیرے قلم اُٹھانے پر بھی معترض ہیں۔ دل میں ایک سمندرہے جوبالکل خاموش ہوچکاہے۔ ٹھہرچکاہے۔ لہذاکیاگلہ اورکیاشکوہ۔
یقین سے عرض کررہاہوں کہ ہمارے لیڈربھی دروغ گوئی میں یکتاہیں اورعوام بھی جھوٹ کے ملمع میں دفن ہیں۔ وہ ہرایک کی باتیں اوردعوے سن کرتالیاں بجاتے ہیں۔ مگر دل میں جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ عبث ہے۔ کسی نے خان صاحب کویادکروایاہے کہ "فنی تعلیم" بہت اہم ہے۔ درست بات ہے۔ مگر کیا ہمارے انتہائی پست درجے کے سرکاری اور غیرسرکاری فنی ادارے واقعی معیاری تعلیم دینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
عرصہ درازسے ایک ہی راگ اَلاپا جا رہاہے کہ فنی تعلیم سے ملک ترقی کریگا۔ مان لیا۔ مگرگزشتہ بیس پچیس برس میں "ٹیکنیکل تعلیم"سے ہنرکے کون سے دریا بہائے گئے۔ کم ازکم میرے جیسے طالبعلم کوتوبالکل نظرنہیں آرہے۔ یونیورسٹیوں کی بھرمارکردی گئی کہ تعلیم بہت ضروری ہے۔ مگرادنیٰ ڈگریاں دے دے کربے روزگاروں کی فوج جمع کردی گئی۔
میڈیکل کالجوں کوگلی اورمحلوں تک پھیلا دیا گیا۔ دراصل ہماراپورانظام اتناپست ہے کہ اس میں معیار نام کی کوئی چیزنہیں ہے۔ ویسے کوئی گلہ نہیں۔ اس لیے کہ جیسے ہم لوگ ہیں، ویسے ہی ہمارے لیڈرہونگے، ویسے ہی ہماری درسگاہیں ہونگیں اورویسے ہی ہمارے قومی ادارے ہونگے۔ ہرچیزایک دوسرے سے منسلک ہے۔ یہ ایک گرداب ہے جس سے نکلنااب ناممکن ہوچکاہے۔ آپ بھی دن کی روشنی میں شمع جلاکرایمانداری، انصاف، روزگار، سچ اور انسانیت کے دنیاوی پیکروں کوتلاش کیجیے۔ آپ بھی ہزاروں برس پہلے کے ڈاؤ جینزکی طرح ناکام ہونگے!