Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Do Dabbay

Do Dabbay

پروفیسرنے کلاس کے بلیک بورڈپرانگریزی زبان میں "دوڈبے"Two Boxesتحریرکیا اور طالبعلموں سے پوچھاکہ ان لفظوں کاکیامطلب ہے۔ تقریباً سو طلباء اورطالبات مختلف جوابات دیتے رہے۔ پروفیسر انکارکرتارہا۔ بیس پچیس منٹ گزرگئے۔ کوئی بھی استاد کے ذہن کونہ پڑھ پایا۔ سب خاموش ہوگئے۔

کلاس میں سکوت دیکھ کرپروفیسرڈائس پرآیا۔ زورسے کہنے لگا، یہ دوڈبے انسانی زندگی کامحورہوتے ہیں۔ ان دوڈبوں کے درست توازن سے ملکوں کی قسمت بدل جاتی ہے۔ یہ ترقی یافتہ اورترقی پذیرملکوں کااصل فرق ہیں۔ انھی پر اقوام کی تقدیرکاانحصارہوتاہے۔ کسی طالبعلم کوکچھ سمجھ نہ آیا۔ سب میں تجسس تھاکہ پروفیسر بالاخر کہنا کیا چاہتا ہے۔ پروفیسربات کرتا رہا۔

ایک ڈبے کانام ہے نااہلی اوردوسرے ڈبے کا نام ہے بددیانتی یا کرپشن۔ اگر دیکھا جائے توانسانی زندگی بھی اسی توازن کوقائم رکھنے ہی کانام ہے۔ ایک ایساتوازن جس کے لیے ہرلمحے محنت ہوتی ہے۔ کسی اسٹوڈنٹ کے پلے کچھ نہ پڑا۔ پروفیسر نے مزیدتفصیل سے بتاناشروع کردیا۔ یہ کوئی معمولی کلاس روم نہیں تھا۔ ویسے توکوئی بھی کلاس روم معمولی نہیں ہوتا۔

نیویارک یونیورسٹی کے بین لاقوامی تعلقات (International Ralations)کی پوسٹ گریجویٹ کلاس تھی۔ پوری دنیاکے طالبعلم اور طالبات موجود تھے۔ افریقہ سے لے کرلاطینی امریکا تک۔ جنوبی ایشیاء سے لے کر آسٹریلیا تک، ہر خطے کے طالب علم موجود تھے۔ پروفیسر کانام تھا مائیکل جون ولیمز۔

پروفیسرکالہجہ طاقتورہورہاتھا۔ پوری دنیا صرف اور صرف دوحصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ یہ ایک جیسی دوالماریاں ہیں، جن کے کواڑبندرہتے ہیں۔ انھیں کھولنے والااس ملک کااصل سیاسی قائد ہوتا ہے۔ ڈبوں والی بات پردوبارہ واپس آتے ہوئے کہنے لگا۔ ترقی یافتہ ممالک اورترقی پذیر ملک اس دنیاکی اصل تقسیم ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ہرچیزموجودہے۔ انصاف پرمبنی نظام، وسائل کی کافی حدتک جائزتقسیم، قانون کی حکمرانی اور اپنے اپنے مذہبی، سیاسی رجحانات پرقائم رہنے کی اجازت۔ جب کہ ترقی پذیرملکوں میں طاقتورطبقہ ہر قانون سے بالاترہوتاہے اورپساہواطبقہ ہر سہولت سے محروم۔ امیرطبقہ، غریب طبقہ کو بیوقوف بنانے میں مصروف رہتا ہے۔ اسی لیے ترقی پذیرممالک ترقی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

تیسری دنیاکے ممالک عوام کے لیے دلکش نعروں کاانتخاب کرتے ہیں۔ جن کاکوئی عملی مطلب نہیں ہوتا۔ لوگوں کی زندگیاں اسی جذباتیت کی نذر کر دی جاتی ہیں۔ مگرصرف غریب لوگوں کی۔ امیرلوگ یاطبقہ اپنے ملک کے حالات کوجوں کاتوں رکھتاہے اورہمیشہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوجاتاہے۔

پروفیسرمزیدبتانے لگا۔ پہلاڈبہ یعنی نااہلیت کاکم ہوناازحداہم ہے۔ جب کوئی سیاسی رہنما اقتدارمیں آتاہے۔ تواسکی مرضی ہوتی ہے کہ اردگردکس سطح کے سیاستدان اورسرکاری ملازم اکٹھے کرے۔ ترقی پذیر ممالک میں ملک کا مقتدر طبقہ ہمیشہ نااہلیت کواہلیت پرترجیح دیتا ہے۔ اس لیے کہ قابل انسان کہیں بھی ہو، سنجیدہ سوالات اُٹھائیگا۔ ایک مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریگا۔ حالات کوبہتربنانے کی شعوری کوشش کرتا رہیگا۔ اس ذہنی فکرکوتیسری دنیامیں کوئی پذیرائی نہیں ملتی۔ ایک لائق انسان، اگرکسی طریقہ سے پالیسی سازی تک پہنچ جاتاہے، توگلے سڑے نظام کوکس حدتک تبدیل یا بہتر کرنے کی کوشش کرتاہے۔ یہ قدم، ان ممالک کی ایلیٹ کے لیے ناقابل قبول ہوتاہے۔

لہذاان کے لیڈرہمیشہ نااہل انسان کواپنے قریب رکھتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ کم اہلیت والے لوگ، اپنے لیڈرکے اعصاب پرقابو پالیتے ہیں۔ یہ کام کرنے کے بجائے، خوشامد، چاپلوسی، کارروائی اور شعبدہ بازی کواپناایمان بنالیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں آجاتاہے۔ اور معاشرے کا بگاڑ، بدستورجاری وساری رہتاہے۔ ہاں، اگر حادثاتی طورپرکوئی اہل شخص معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات اُٹھائے، تواسے بڑی صفائی سے راستے سے ہٹادیاجاتاہے۔ جس میں اس شخص کی موت بھی شامل ہے۔ تیسری دنیاکے قائدین پہلے ڈبے میں نااہلی کو اُوڑنابچھونابنالیتے ہیں۔

پروفیسرولیمزنے بورڈپرلکھا۔ دوسراڈبہ بددیانتی ہے۔ مضبوط طبقہ کیونکہ میرٹ کی بنیادپرمعاشرے میں ترقی نہیں کرتا۔ بلکہ اس میں موروثیت، چوری، فراڈ اور دیگرعوامل شامل کارہوتے ہیں۔ لہذایہ بددیانتی والے ڈبے کوہمیشہ فروغ دیتے رہتے ہیں۔ یعنی دیانتدار ہونا ان معاشروں میں جرم بنادیاجاتاہے۔ اس میں صرف پیسوں کے لحاظ سے کرپشن شامل نہیں، بلکہ ذہنی، نفسیاتی، جسمانی اورکردارکی بددیانتی بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ لوگ، اپنے جیسے ذہن کے لوگوں کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ہراس انسان کوخطرہ سمجھتے ہیں جن میں معمولی سی بھی دیانتداری موجود ہے۔ بلکہ اگر انھیں خدشہ ہو کہ یہ انسان فکری طور پر تھوڑا سا ایماندارہے یامالی اعتبارسے اُجلا ہے، توفوری طورپراس سیاسی شخص یا سرکاری ملازم کو بیکار بنادیاجاتاہے۔

پروفیسرنے بات ختم کرتے ہوئے بورڈپر مزید دوڈبے بنائے اورانھیں بالکل قریب قریب کردیا۔ ایک حکمران کااصل کام ان دونوں ڈبوں میں توازن پیدا کرنا ہوتاہے۔ اس کا اختیار ہوتاہے کہ اہل ٹیم کاانتخاب کرے یا نا اہل کا۔ اس فیصلے سے اس قوم کامستقبل جڑا ہوتا ہے۔ یہ چنائو ہرگزہرگزآسان نہیں ہوتا۔ دوسراڈبہ میں بددیانتی کاراج ہوتاہے۔ کوئی بھی لیڈراگراس ڈبے میں سے کم ایماندارٹیم یابددیانت ٹیم کاانتخاب کر لیتا ہے توملک کاترقی کرناناممکن ہوجاتاہے۔ وہاں ایک اورمسئلہ بھی ہے۔ زیادہ اہلیت والے لوگ، بہت کم مکمل دیانتدار ہوتے ہیں۔ مکمل طورپر ایماندارلوگ، اکثراوقات بہت کم اہلیت کے حامل ہوتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے۔ جواب یہ ہے کہ کوئی بھی قائدان دونوں ڈبوں کے توازن سے ٹیم بنالے، توسب کافائدہ ہو سکتا ہے۔ مگراسکی نوبت بہت کم آتی ہے۔ کیونکہ ہرخطے میں مفادات، فیصلے پراثرانداز ہوتے ہیں۔ لیکچر تو خیر دو گھنٹے کاتھا۔ اورتمام باتیں لکھی بھی نہیں جاسکتیں۔

پروفیسرمائیکل جون ولیمزکی باتوں کے بعد اگر آپ ہمارے بدقسمت خطے یاملک کی طرف دیکھیں توہرچیزسمجھ آجاتی ہے۔ ملک بننے کے نتیجے میں ہمارے پاس ایسے لیڈربہت کم آئے ہیں جنھوں نے اہلیت اور دیانت کے مروجہ اُصولوں کے حساب سے اپنی ٹیم کاانتخاب کیا ہو۔ فیصلہ سازی کیسے ہوتی رہی۔ یہ ہرایک کومعلوم ہے اوراس پراب بحث کرنالاحاصل ہے۔ پاکستان میں یہ ادنیٰ کھیل پہلے دن سے جاری وساری ہے۔ چلیے، مثال کے طورپرآپ گزشتہ، تین ادواردیکھ لیجیے۔ معاملہ فہمی میں آسانی ہوجائیگی۔

پرویزمشرف کے دورکو دیکھیے۔ پرویزمشرف کوایک ایسی ٹیم کی ضرورت تھی جواسکی ہاں میں ہاں ملائے۔ اس کے شخصی اقتدارکوطول دینے کے علاوہ اورکوئی سوچ کاحامل نہ ہو۔ لہذااس دور میں بھول کربھی دیانتداری اوراہلیت کی کسوٹی پرلوگوں کاانتخاب نہ کیا گیا۔ آپ گراوٹ کی انتہادیکھیے، کہ موصوف کوخوش کرنے کے لیے بڑے بڑے سینئر حضرات، سیکڑوں لوگوں کے سامنے رقص کرتے تھے۔

جنرل صاحب، ان دونوں ڈبوں میں توازن قائم کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد پرزرداری صاحب برسراقتدار آئے، پنجاب پی ایم ایل ن کے حوالے کیاگیا۔ شہباز شریف اسی شطرنج کے کھلاڑی تھے۔ ذاتی پسند، ناپسنداوروفاداری اصل بنیادبنادیے گئے۔ پروپیگنڈے کی مکمل مشین ترتیب دی گئی۔ جو ہر وقت شفافیت اوردھیلے کی کرپشن نہ ہونے کو سند عطاکرتی رہی۔ مگرمعاملات جوں کے توں رہے۔ جب یہی لوگ مرکزمیں آئے توپنجاب کی ساری خرابیاں مرکزمیں منتقل ہوگئیں۔

ہر ایک کومعلوم ہے کہ وہاں کیا کیا ہوتارہااورکون کون کیا کیا کرتا رہا۔ اب عمران خان کی حکومت ہے۔ بدقسمتی سے اس نے بھی پرانی حکمتِ عملی ہی اپنائی۔ کم اہلیت والے لوگ مسندپربٹھائے گئے اور دیانتداری کے دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے۔ آج وہ سب کچھ ہو رہاہے جوپہلے ہوتارہا۔ پروفیسرکی دو ڈبوں والی مثال پندرہ برس پہلے کے پاکستان کے لیے درست تھی اورآج بھی درست ہے!