Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Doosra Ghora

Doosra Ghora

سیاسی حرارت ضرورت سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ آنے والے وقت میں یہ پورے ملک اور نظام کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

مستقبل میں سیاست کس سانچے میں ڈھلے گی، اس کے بارے میں صرف قیافہ کیا جا سکتا ہے، وثوق سے کچھ بھی کہنا قدرے مشکل ہے۔ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معیشت وہ بنیاد ہے جس پر کسی بھی ریاستی ڈھانچہ کو استوار کیا جا سکتا ہے۔

اگر ملک اقتصادی طور پر توانا ہو سکتا ہے یا کیا جا سکتا ہے تو سودا مہنگا نہیں ہے۔ اگر جاپان میں ایٹم بم بھی قومی ترقی کے جذبے کو ماند نہ کر پایا، اگر جرمنی کو مکمل بربادی کے بعد بھی صنعتی قوت بننے میں صرف ایک دہائی لگی، تو ہمارے ملک کے حالات تو قدرے بہتر ہیں۔

یہاں معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں کوئی فطری رکاوٹ نظر نہیں آ رہی۔ گزشتہ چند برسوں میں یہ بیانیہ لوگوں کے ذہن میں جڑ پکڑ چکا ہے، کہ سیاسی عدم استحکام، اصل میں معاشی بدحالی کی بنیادی وجہ ہے۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے۔ کبھی کبھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات بھی صرف مفروضہ ہے۔

دلیل کے طور پر عرض کروں گا کہ مہنگائی بڑھنے کے باوجود، لوگ بدحالی کی طرف نمایاں طور پر نہیں جا رہے۔ چھوٹی چھوٹی کریانے کی دکانوں سے لے کر پھل کی ریڑھیوں تک، لوگ بنیادی ضرورتوں کو باآسانی پورا کر رہے ہیں۔ خرید و فروخت جاری و ساری ہے۔

مگر یہ سچ ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔ ہمارا سماجی اور اقتصادی نظام پہلا معاشی جھٹکا برداشت کر چکا ہے۔ ہر وقت کا رونا دھونا اپنی جگہ، مگر اقتصادی زندگی رواں دواں ہے۔ اگر سب کچھ اچھا نہیں ہے تو ہر معاملہ تاریک بھی نہیں ہے۔

باربار عرض کر وں گا کہ ملک کو کچھ نہیں ہو رہا۔ دکھ ہوتا ہے جب کئی لوگ بغیر کسی معروضی حقیقت کے یہ فرماتے ہیں کہ جناب ملک نہیں رہے گا۔ پاکستان کا جغرافیہ تبدیل ہو جائے گا۔ حضور! یہ حد درجہ غیر ذمے دارانہ اور غیر منطقی رویہ ہے۔ پاکستان تمام تر مشکلات کے باوجود کامیاب ہے۔ اس کی سالمیت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ہماری داخلی قوت اتنی مضبوط ہے کہ ہر داخلی مسئلے کو باآسانی حل کر سکتی ہے۔ اس نکتہ کو بیان کرنے کی اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ لکھاریوں اور دانشوروں کا ایک طبقہ، ہاتھ دھو کر ملکی سالمیت کے خلاف پروپیگنڈے میں مشغول رہتا ہے۔

ہر دم مایوسی پھیلانا ان کا وطیرہ بن چکاہے۔ ان کی باتیں سن سن کر تارکین وطن سب سے زیادہ مایوس ہوتے ہیں۔ کیونکہ انھیں ملک کے معروضی حالات کا بالکل علم نہیں ہوتا۔ معاملے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ مجھے کوئی ایک ملک دکھا دیجیے جہاں تمام شہری بڑے سکون سے رہ رہے ہوں اور کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔

وثوق سے عرض کروں گا کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے اندرونی مسائل اتنے شدید ہیں کہ وہ تمام وسائل کے باوجود حل نہیں ہو پا رہے۔ بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور قتل و غارت ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مگر وہاں تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ امریکا ختم ہو جائے گا۔ وہ مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اور اس میں جزوی طور پر کامیاب معلوم ہوتے ہیں۔ نکتہ صرف ایک ہے۔ ہمارے چند لوگوں کا اصل پیشہ مایوسی پھیلانا ہے۔

سیاسی حالات کی بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ چیئرمین پی ٹی آئی اپنی کوتاہیوں کی بدولت ایسے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ جہاں سے قلیل عرصے میں نکلنا ناممکن ہے۔ سائفر کو سیاسی انداز میں پیش کرنا ہرگز دانشمندی نہیں تھی۔ سائفر درست بھی تھا تب بھی اسے جلسے اور جلوسوں کی زینت بنانا ریاستی مفاد کے خلاف تھا۔ سائفر کی تاریخ یادکیجیے، اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی گئی تھی۔

وزیراعظم آئینی طریقے سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کر سکتے تھے یا اپنی جگہ تحریک انصاف ہی کے کسی معتمد خاص کو وزیراعظم بنوا سکتے تھے۔ مگر انھوں نے یہ آئینی راستہ نہیں چنا۔ اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں کو ایک ایسے عذاب میں مبتلا کر ڈالا، جس کا نتیجہ سیاسی تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ چیئرمین پی ٹی آئی اب بھی ملک کے سب سے نمایاں لیڈر ہیں۔

ان کا ووٹ بینک بھی محفوظ ہے۔ اور یہ بھی سچ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ قرائن ہیں کہ تین سے چھ ماہ میں تحریک انصاف کے حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔ چیئرمین پی ٹٰی آئی نے تو سیاسی غلطیاں کیں، مگر مسلم لیگ ن اتنے زوال پذیر راستے پر کیوں چل پڑی ہے۔

ن لیگ کے لیے بہترین سیاسی حکمت عملی یہ ہوتی کہ تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہوتے ہی، نئے الیکشن کی طرف چلی جاتی۔ مگر محترم شہباز شریف نے وزیراعظم بن کر تمام مسائل کو گلے کا ڈھول بنا لیا۔ اٹھارہ ماہ کی حکومت کے لیے مسلم لیگ ن نے اپنے سیاسی سرمایہ کو آتش دان میں جھونک دیا۔ رہی سہی کسر وزیرخزانہ کی معاشی حکمت عملی نے پوری کر دی۔

ڈالر کو تین سو روپے سے بھی اوپر کر دیا۔ سینئر اقتصادی ماہر سے گفتگو ہوئی، کہنے لگے کہ سابقہ وزیر خزانہ کے پورے دور میں، ملک میں ایک بھی کارخانے کا اضافہ نہیں ہوا۔ ڈالر کے باہر لے جانے کی قدغن نے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو زوال بخشا۔ ڈارصاحب، اپنی پرانی سوچ کے جال میں پھنستے چلے گئے۔

مگر معاملہ یہاں تک محدو د نہیں رہا بلکہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ ترین قیادت نے بھرپور تاثر دیا گیا کہ ان کا ملک کے مقتدر طبقے سے سمجھوتہ ہو چکا ہے، انھیں ہر طرح کی سہولت دی جائے گی۔ واقفان حال نے سب کچھ سر عام بتانا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا نے ن لیگ کے اس بیانیے کو حد درجہ متنازعہ بنا دیا۔ ایک سبزی فروش سے لے کر، مزدور تک سے پوچھ کر دیکھیے، آپ کو فی الفور بتائے گا کہ نواز شریف ایک ڈیل کے ذریعے ملک میں واپس آ رہے ہیں۔ مگر ن لیگ کی قیادت یہ فراموش کر گئی کہ لوگوں کے ذہن میں اس کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔

نواز شریف کی راولپنڈی ایئر پورٹ پر وکلاء کی موجودگی میں بائیو میٹرک حاضری لگوانے نے ن لیگ کے ڈیل والے تاثر کو مزید پختہ کردیا، ان کے مقدمات کی ہینڈلنگ سے بھی قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا۔

لاہور کے جلسے پر مبینہ طور پر سرکاری وسائل کے استعمال کی باز گشت بھی سنائی دی۔ سب کچھ کرنے کے باوجود، اس جلسے کو اہل لاہور نے اتنی پذیرائی نہیں بخشی جتنی توقع کی جارہی تھی۔ یہ ن لیگ کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی اور ہے۔ ڈیل کے تاثر کو کم یا ختم کرنے کے لیے، مسلم لیگ ن نے اپنی میڈیا ٹیم کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ مگر یہ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسا الیکشن جس کی تاریخ کا کسی کو معلوم نہیں مگر یار لوگ نتائج پہلے ہی سنا رہے ہیں، یہ ریاستی اداروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ وہاں بھی سوچ میں تبدیلی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ن لیگ اگر سیاسی فیصلہ کرتی، اورنواز شریف کو ایک دو مہینے جیل میں رہنے کے لیے قائل کرتی یا ان کے گھر کو سب جیل قرار دلوا دیتی، اس سیاسی فیصلے سے مسلم لیگ کی مقبولیت بحال ہوسکتی تھی۔ مگربے وقوف دوست، دانا دشمن سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔ اب بھی مسلم لیگ کے پاس ایک ایسا راستہ ہے جس سے وہ ریاستی بیساکھیوں کے بغیر الیکشن جیت سکتی ہے۔

وہ یہ محترمہ مریم نواز کو سیاسی بساط پر اہم ترین کردار دیں۔ ان کو وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار بنائیں۔ مریم بی بی میں وہ سیاسی کشش اور دانائی ہے کہ وہ ن لیگ کی مشکلات کو کم کر سکتی ہیں۔ دوسری صورت میں اگر الیکشن وقت پر ہو بھی گئے، نواز شریف وزیراعظم بن بھی گئے تو ان کی حکومت کا دورانیہ حد درجہ کم ہو سکتا ہے۔

ابھی وقت ہے۔ دانائی اور سیاسی حکمت عملی کے مطابق فیصلے کریں۔ شاید معاملات درست ہو جائیں۔ بصورت دیگر، ڈیل کا بھرپور تاثر، مسلم لیگ ن کی سیاست کو آکاش بیل کی طرح کھا جائے گا۔ دوسری اہم ترین بات، ریاستی ادارے رخ بدلنے میں قطعاً وقت نہیں لیتے۔ انھوں نے ہر میدان میں د وسرا گھوڑا تیار رکھا ہوتا ہے۔

قرائن یہی ہیں کہ دوسرا اسپ عربی، اصطبل میں کھڑا ہے اور اس کو اچھا چارہ مہیا کیا جا رہا ہے۔ ملک کی سیاست ایک حیرت کدہ ہے، اسے پہچان کر کھیل کھیلیے!