تحریک خلافت کے نتائج پرغورفرمائیے۔ 1919 سے شروع ہوکر 1922 میں ختم ہونے والی اس تحریک سے مسلمانوں نے کیا فائدہ حاصل کیا؟ شدید جذباتیت سے شروع ہونے والا یہ قصہ ہندوستان کے مسلمانوں کو پستی کی اس انتہا پر لے گیا۔ جہاں سے عملی طورپر نکلنا بہت مشکل ہوگیا۔
جوہر برادران، ان کی والدہ، ابوالکلام آزاد اور گاندھی نے ترکی کی خلافت کوکیا بچانا تھا۔ انھوں نے جمعیت علماء ہند کے فتویٰ کے تحت انڈیاکو دار الحرب قرار دلوا دیا۔ ان گنت مسلمان اپنے خاندان سمیت، افغانستان (دارالسلام) ہجرت کر گئے۔ افغانستان کے بادشاہ نے مہاجرین کو لینے سے انکار کردیا۔ اٹھارہ ہزار مسلمان خاندان جواپنی ساری جائیدادیں اونے پونے فروخت کرکے ہجرت کرگئے تھے۔
واپسی پر دربدر ہو گئے۔ تحریک خلافت نے مسلمانوں کوسرکاری نوکریوں سے استعفیٰ دینے کا بھی حکم دیا۔ بچوں اور نوجوانوں کواسکولوں اورکالجوں سے نکلنے پر بھی آمادہ کیا۔ عدالتوں اور حکومت سے لاتعلقی کا اعلان بھی کروا دیا۔ مسلمانوں کو حکومت سے نافرمانی کا بھی بڑھاوا دیا۔ 1924میں جب ترکی میں مقامی قیادت نے خلافت کو ختم کردیا تو ہندوستان کے مسلمان ہکے بکے رہ گئے۔ مگر اس وقت تک انگریزوں کا ہندوؤں سے ملاپ حددرجہ بڑھ چکا تھا۔ مسلمان بحیثیت قوم صدیوں پیچھے چلے گئے۔
مگرکیاآپ جاننا چاہیں گے کہ مسلمانوں کا کون سا لیڈر، اس تحریک میں بالکل شامل نہیں ہوا۔ وہ بھانپ گیا تھا کہ اس کی قوم کے لیے یہ بربادی نہیں بلکہ موت کانسخہ ہے۔ اس شخص کو ہر گالی دی گئی۔ اسے مسلمان ماننے سے بھی انکار کردیا گیا۔
مگر وہ عظیم انسان، چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ سارے طعنے اور دشنام برداشت کرتا رہا۔ مگراس تحریک کاحصہ نہ بنا۔ وہ ہمارا قائد، محترم محمدعلی جناح صاحب تھے۔ اس زرخیز انسان نے مذہبی بنیادوں پر فریق بننے سے انکار کر دیا۔ خلافت کواس نے ترکوں کااندرونی مسئلہ قرار دیا۔ ہندوستان کے اکثریتی مسلمانوں کے خیالات سے قائد کا یہ بیانیہ، مکمل طور پر متضاد تھا۔ پر وقت اور تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ اکیلی مگر توانا آواز، مکمل طور پر درست تھی۔
ٹھنڈے دماغ سے غورکیا جائے۔ تو دنیا کے مسلمان بالعموم اور برصغیر کے مسلمان بالخصوص، حد درجہ جذباتی لوگ ہیں۔ جس امرمیں ہمارے ملکی مفادات کونقصان پہنچے، اس قافلہ میں شریک ہونا صائب سمجھتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں، تاریخی حقائق سے بالاتر ہو کر آج بھی ہمیں مفروضوں اور قیافوں کی دنیا میں زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔ اس تمہیدکے بعد، میں حالیہ اسرائیلی اورغزہ کی خونی جنگ کے متعلق کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
آپ حیران ہوں گے کہ انیسویں صدی کے پہلے پچاس برس میں، کوئی بھی غیر ملکی، فلسطین میں ایک انچ زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ مگر اس پابندی کو ختم کرانے کے بعد، مقامی زمینداروں اورکسانوں سے، یہودی تجارتی کمپنیوں نے لا تعداد زمین خرید لی۔ فروخت کرنے والوں میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ یہودیوں کے پاس اتنے زیادہ مالی وسائل تھے، کہ وہ کسی بھی قطعہ زمین کے دوگنے بلکہ تگنے پیسے دینے کے لیے آمادہ تھے۔ یہ اسرائیل کی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم تھا۔ پوری مسلمان دنیا میں سے ایک بھی ایسا لیڈر نہیں تھا جوآنے والے وقت کے متعلق سوچ سکتا۔
تاریخ کی پیچیدگیوں میں جائے بغیر عرض کرونگا کہ اسرائیل کے بننے کے پیچھے اس وقت کی سپر پاور، یعنی برطانیہ، امریکا اور صیہونی دولت کا مضبوط ہاتھ تھا۔ عرب، اپنی پسماندگی کی بدولت، کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بن سکے۔ ویسے دیکھا جائے تو آج بھی عرب ممالک علم، ہنر اور سائنس کی دنیا میں یہودیوں سے حد درجہ پیچھے ہیں۔
ہمارا بھی یہی حال ہے۔ کیا وجہ ہے کہ غزہ اور مغربی پٹی میں، فلسطینی کسی قسم کا محترم انتظامی، سماجی، ریاستی ڈھانچہ قائم کرنے میں ناکام رہے۔ جس کا انھیں مکمل اختیار تھا۔ مغربی پٹی پر توشروع دن سے حماس کا اثر، غیر معمولی ہے۔ حماس نے تو یاسر عرفات کی تنظیم کو بھی نہیں بخشا۔ انھوں نے ہر سطح پر فلسطینی حکومت اور اسرائیل کے درمیان امن کی مخالفت کی۔ کبھی یہ انتفادہ بن کرسامنے آتی رہی، اور کبھی یہ خود کش حملوں کی صورت میں ابھری۔ بہر حال، حماس نے جمہوری عمل میں حصہ لیا مگر اسرائیل کے خلاف ان کے حملے کافی حد تک برقرار رہے۔
دودہائیوں سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگی چپقلش جاری ہے۔ زندگی اور موت کا یہ کھیل آج بھی تسلسل میں ہے۔ اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا، کہ قطر اور ایران کی حکومت کی حماس کو مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس تنظیم کومغربی ممالک نے دہشت گرد جماعت قرار دے رکھاہے۔ ایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ فلسطین کے آخری الیکشن میں حماس کو 44 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اور 56 فیصدووٹ اس کی مخالف جماعتوں نے حاصل کیے تھے، جس میں الفتح سرفہرست تھی۔ سادہ سا مطلب ہے کہ2006کے الیکشن میں حماس نے کامیابی ضرور حاصل کی، مگر اس کے مخالف ووٹ بہر حال زیادہ تھے۔
غزہ پر گزشتہ دودہائیوں سے حماس کی حکومت ہے۔ غزہ کی آبادی کوترتیب سے دیکھیں توتئیس لاکھ افراد، حماس کے علاقہ میں قیام پذیر ہیں۔ نازک نکتہ یہ ہے کہ حماس ان لاکھوں فلسطینیوں کی کامل نمایندہ جماعت نہیں ہے۔
اسرائیل کے مظالم کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ عرصے سے جاری انسانی حقوق کی پامالی، اسرائیل کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ حالیہ حملوں نے صورتحال کو حد درجہ مشکل بنا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ حماس کے اسرائیل کے خلاف ابتدائی حملے ایک آہنی شکنجے میں آنے کے مترادف تھے۔ اسرائیل کے پاس جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اس کی موجودگی میں پہلے دن، حماس کی بھرپور کامیابی، کئی متضاداشارے دے رہی ہے۔
کیا یہ اسرائیل کی کوئی چال تھی کہ اس نے حماس کو شروع شروع میں طاقت ہونے کے باوجود نہیں روکا؟ اس نکتہ کی تصدیق یا تردید حد درجہ مشکل بات ہے۔ مگر ایک امر تو طے ہے حماس کے اس حملے نے، اسرائیل کو یہ جواز مہیا کیا ہے کہ وہ، غزہ کونیست ونابود کر دے۔ اسرائیل کے اقوام متحدہ کے سابقہ اہم ترین سفیر ڈینی ڈے نن نے، بی بی سی کے ایک پروگرام میں، غزہ کے مکینوں کے متعلق حد درجہ ادنیٰ گفتگو کی۔
انھیں انسان کا درجہ دینے سے بھی انکار کردیا۔ اسرائیل کے وزیر دفاع yoar Gallant نے بھی غزہ کے مسلمانوں کے متعلق بہت زیادہ ناپاک زبان استعمال کی۔ انھیں جانور کہا۔ یہ بھی بیان دیاکہ غزہ کوایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
مطلب بالکل واضح ہے۔ غزہ کے 23لاکھ مسلمانوں کے لیے خون اور بربادی کا چلن روا رکھا جائے اور بالکل ایسے ہی ہو رہا ہے۔ غزہ کے پاس نہ تو ائرفورس ہے، نہ بحری بیڑہ اور نہ ہی جدید جنگی سامان۔ حماس تو خیر چند ہزار لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس نے جوکرنا تھا وہ کر دیا۔ مگر اس کا خمیازہ لاکھوں لوگ خوفناک طریقے سے بھگت رہے ہیں۔ اسرائیل کی ایئرفورس نے غزہ کو فضائی حملوں سے مکمل طور پر برباد کر دیا ہے۔
ایک رات میں ہزاروں حملے کیے جاتے ہیں۔ اسپتال، مساجد، گھر، اسکول، سرکاری عمارتوں کچھ بھی محفوظ نہیں۔ بے گھر، بے بس اوراپنے ہی علاقوں میں مہاجر مسلمان، بیچارگی اورابتر حالت میں ہیں۔ مصر کی طرف سے آنے والے امدادی قافلہ کو اسرائیل نے طاقت کے زور پر غزہ پہنچنے سے روک دیا ہے۔ اب یہ علاقہ لاکھوں انسانوں کی مقتل گاہ ہے۔
جہاں بچے، بوڑھے اور خواتین گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔ غزہ کوہر طرف سے گھیرا جا چکا ہے۔ عام شہریوں کے لیے دوائی تو دور کی بات، پانی کی فراہمی تک روک دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی اس انسانی المیہ کو ختم کرنے کی باتوں کو اسرائیل بالکل خاطر میں نہیں لایا۔ اب اسرائیلی صدر نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کی افواج غزہ میں داخل ہو کر، حماس کا قلع قمع کریگی۔ مطلب اب لاکھوں مسلمانوں کو امن قائم کرنے کے نام پر فسادمیں مبتلا کر دیا جائے گا۔ حماس کے ابتدائی حملوں سے جو لوگ خوش ہو رہے تھے۔
آج وہ مکمل طور پر خاموش ہیں۔ معلوم نہیں کیوں، تحریک خلافت کا نتیجہ بھی مسلمانوں کے لیے بربادی کا ویسا ہی پیغام لایا۔ جیسا غزہ کے لوگوں کے لیے حماس کے ابتدائی حملے کے بعد ہوا ہے۔ مگر قیامت یہ ہے کہ مسلمانوں کو جذباتیت نے دنیاوی حقائق دیکھنے کی استطاعت سے محروم کر دیاہے۔ شاید کبھی ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ پائیں!