تہذیب بذاتِ خودکیاہے۔ زندگی گزارنے کاسلیقہ کسے کہتے ہیں۔ آدابِ مجلس کی فہم کیاہے۔ سب کچھ ہم اپنے گھرکے ماحول سے کشیدکرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی صائب ہے کہ عملی زندگی میں آکربہت زیادہ سیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ کس پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے بھی انسان متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ بالکل اسی طرح آپ سماجی تعلقات کے زیرِ اثر، یاکھیلنے کے شوق کو پوراکرنے کے لیے، یامنہ کاذائقہ تبدیل کرنے کے لیے "کلب" سے بھی اثر لیتے ہیں۔
زندگی میں کسی نہ کسی سماجی بیٹھک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بیٹھک میں لوگوں سے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے کو جاننے یاگنوادینے کاموقع ملتا ہے اوران جگہوں سے بہت کچھ سیکھاجاتا ہے۔ لاہورمیں جمخانہ کلب اسی طرزکی ایک اعلیٰ جگہ ہے۔ اَٹھائیس برس سے اس کا ممبر ہوں۔ شروع میں وہاں بہت آنا جانا تھا۔ مگراب عرصہ درازسے بہت ہی کم اتفاق ہوتا ہے۔ افتخاراحمد، عارف خان، چوہدری کریم، افتخار چوہدری دوتین ماہ بعدجمخانہ میں کوئی نہ کوئی تقریب برپاکرہی دیتے ہیں۔ یہ میرے دوست بھی ہیں اوربیچ میٹ بھی۔ لہٰذابے تکلفی کے ایک ماحول میں چند گھنٹے گزرجاتے ہیں۔ عموما ً"چاندنی لاؤنج" میں بیٹھتے ہیں۔ جہاں سب کچھ ہے۔ مگرچاندنی نہیں ہے۔ عرض کرنے کامقصدہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی جم خانہ کلب آناجانا لگاہی رہتاہے۔
بات جمخانہ کلب اورسماجی رویوں کی ہورہی تھی۔ یہ تہذیب ہی کے حصے تھے یابنادیے گئے ہیں۔ مگرجب سے میں "پنجاب کلب"کاممبربناہوں، جمخانہ کلب سے بہت دور ہوچکاہوں۔ ان دونوں میں بہترکون ہے، میری دانست میں یہ دونوں کلب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ بہرحال یہ نکتہ آج موضوع ہے اورنہ ہی مقصودہے۔ آج مرکزی خیال صرف جمخانہ کلب کافروری میں آنے والاالیکشن ہے۔
الیکشن ایک عجیب وغریب سالفظ ہے۔ پاکستان میں اس لفظ سے بہت تلخ واقعات بھی منسلک ہیں۔ یہ الیکشن ہی تھاجس نے ایسی بے ترتیبی برپاکردی کہ ملک دوحصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ الیکشن ہی تھاجس سے ایسی "ادنیٰ سیاسی قیادت" وجودمیں آگئی جس سے چھٹکاراحاصل کرنے کاکسی کوبھی کوئی طریقہ نہیں سوجھ رہا۔ ووٹوں کے ڈبوں سے کاغذ کے ٹکڑے نہیں بلکہ لوگوں کے مصائب اوردکھ برآمد ہوتے ہیں۔ بہرحال جمخانہ کلب میں پرانی روایت کے مطابق "چناؤ" ہونے جارہے ہیں۔ اس "جادوگری" کا پرانا چشم دیدگواہ ہوں۔
آج سے دودہائیاں پہلے پرویزمسعودپنجاب کے چیف سیکریٹری تھے۔ حفیظ اللہ اسحٰق بھی کسی صوبائی محکمہ کے سیکریٹری تھے۔ پرویزمسعوداس وقت کے صوبائی حکمرانوں کے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ لہٰذا جمخانہ کاالیکشن جیتناان کے لیے بچوں کاکھیل تھا۔ کلب میں ان کاطوطی بولتاتھا۔ پرانی بات ہے، لوگوں کوشائدیاد بھی نہ ہو۔ پرویزمسعوداپنی سخت گیری کے ساتھ جمخانہ کلب پربھی حکومت کرتے تھے۔ حفیظ اللہ اسحق کابھی یہی طرزتھا۔ اس وقت میں "مستقل ممبر"نہیں تھا۔ مستقل اورعارضی ممبرمیں صرف ایک فرق ہے کہ مستقل ممبرووٹ ڈالنے کااختیاررکھتاہے اورعارضی ممبرصرف تماشہ دیکھنے کے استحقاق کامالک ہے۔ اس وقت کلب میں الیکشن ہرسال ہواکرتا تھا۔ سال کے آخری دو مہینوں میں گہماگہمی شروع ہوجاتی تھی۔
مصنوعی قسم کی مسکراہٹیں اوربغل گیری بڑھ جاتی تھیں۔ جواب عروج پرہے۔ پھر پرویزمسعودکے پینل کے مدمقابل نوجوان افسروں کاایک پینل وجودمیں آگیا۔ ان میں، سلمان صدیق اورضیاء الرحمن سرِفہرست تھے۔ حسبِ توقع پرویزمسعودجیت گئے۔ مگرنوجوان افسروں نے بھی غیر معمولی ووٹ حاصل کیے۔ ہوناتویہ چاہیے تھاکہ جس دن کلب کاالیکشن اختتام پذیرہوا، اسی دن کلب کے سیاسی متحارب فریقین شیروشکر ہوجائیں۔ مگرایسابالکل نہ ہوپایا۔ کلب کے الیکشن میں ایک دوسرے کی وقتی مخالفت نے مستقل جڑپکڑلی۔ چھوٹی چھوٹی رنجشیں، معمولی معمولی باتوں کوکافی اہمیت حاصل ہوگئی۔ میرے لیے یہ سب کچھ حیرت انگیزتھا۔
بات کوآگے بڑھانے سے پہلے عرض کروں کہ اگلے سال دوبارہ الیکشن ہوئے۔ اس میں سلمان صدیق اورضیاء الرحمن کامیاب ہوگئے۔ سلمان صدیق چیئرمین بن گئے۔ پھریہ سلسلہ اسی طرح چلتارہا۔ دوبارضیاء الرحمن کلب کے چیئرمین قرارپائے اوراسی طرح، کئی بارسلمان صدیق اس منصب پرقائم ہوئے۔ لیکن بہترین دوست ہونے کے بعد بھی کلب کے الیکشن نے ان دونوں دوستوں کے درمیان کافی سماجی فرق ڈال دیا۔ کئی بارسوچتاتھاکہ بالاخرجمخانہ کلب کے چیئرمین یاصدرہونے میں کون ساایساعنصرہے، جس سے بہترین دوست بھی ایک دوسرے سے تلخ ہوجاتے ہیں۔
آہستہ آہستہ احساس ہونے لگاکہ یہ چناؤدیکھنے میں بالکل بے ضرر لگتاہے۔ مگراس سے سماجی دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ جمخانہ کی سیاست کے حوالے سے یہ میرے شعورکی پختگی کی پہلی منزل تھی۔ آہستہ آہستہ اپنے آپ کوکلب کی سیاست سے دورکرلیا۔ جمخانہ آناجاناحددرجہ کم کردیا۔ پنجاب کلب اسکاایک بہترین نعم البدل تھااورہے۔ ہاں ایک انتہائی اہم بات۔ ایک دہائی پہلے الیکشن سے پہلے دعوتوں کااہتمام دیکھنے میں آیا۔ ہرمتحارب فریق، کلب سے باہر، انتہائی پرتکلف دعوت کرتاتھا، جس کامقصد ووٹ حاصل کرناتھا۔ لازم ہے کہ ان دعوتوں کے لیے چناؤلڑنے کے خواہشمند ممبران کثیر سرمایہ خرچ کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا چلاگیا۔ جیسے جیسے یہ اَمربڑھتاگیا، اس کے تناسب سے میں کلب سے دور ہوتا چلاگیا۔ میری فکرپہلے بھی یہی تھی اورآج بھی یہی ہے کہ کسی بھی"سماجی چوپال" میں اتنی تندہی اور شدت سے چناؤ کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے۔ اتنازیادہ پیسہ خرچ نہیں ہونا چاہیے۔ دعوتوں کا لامتناہی سلسلہ بھی عجیب سالگتا ہے۔ بہرحال یہ میری ذاتی سوچ ہے جوغلط بھی ہوسکتی ہے۔
ایک اورچیزدیکھنے میں آئی کہ کلب کے غیرمتنازعہ ماحول میں چندلوگوں نے باقاعدہ ذاتی سیاست کی داغ بیل ڈال دی۔ چنداحباب توایسے تھے جوروزانہ کی بنیادپرکلب میں آکر لوگوں سے مصنوعی میل جول بڑھاتے تھے کہ انھیں آنے والے الیکشن میں ووٹ کی ضرورت پڑیگی۔ گزشتہ دہائی سے یہ عنصربارباردیکھنے میں آرہاہے کہ ایک ایسی جگہ جہاں تمام ممبران آتے ہیں، جہاں لوگ ذہنی دباؤکوکم کرنے کے لیے اسپورٹس کے لیے آتے ہیں۔ جہاں اچھا کھانا کھانے کے لیے آتے ہیں۔ اس میں ایک عجیب سی تقسیم اور کھچاؤکیوں پیداہواہے۔
کلب کے تمام ممبران محترم ہیں۔ ان کے بالکل ایک جیسے حقوق ہیں۔ پھرفرق پیداکرنے کی کوشش کیوں ہوتی ہے۔ انسانی رویوں کاایک بے لاگ طالبعلم ہوں۔ کئی بارمیرے لکھنے سے دوست ناراض بھی ہوجاتے ہیں۔ مگرپھربھی جودرست سمجھتاہوں، لکھتا چلاجاتا ہوں۔ میری سمجھ سے باہرہے کہ ایک سماجی کلب میں ذاتی، گروہی اورنسلی سیاست کی کیاگنجائش ہے۔ متحارب پینل کی برائیاں کرنے کی کیاضرورت ہے۔ چناؤپراتنے پیسے خرچنے کی کیاضرورت ہے۔ دوبارہ عرض کروں گاکہ ممکن ہے میری سوچ کوتصحیح کی ضرورت ہو، مگرکیاواقعی یہ سب کچھ ہوناچاہیے۔
اب جمخانہ کلب میں الیکشن تین سال کی مدت کے بعد ہورہاہے۔ کامران لاشاری، سلمان صدیق اورمصباح الرحمن اس چناؤکے سرخیل ہیں۔ دونوں پینل ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی جان توڑکوشش کررہے ہیں۔ میرے جیسے تنہائی پسندانسان کوبھی لاتعدادپیغامات اوردعوت نامے وصول ہوتے ہیں۔ ویسے ذاتی طورپر عرصہ درازسے اس طرح کی کسی تقریب میں شرکت نہیں کرسکا، جہاں مقصد صرف ووٹ ہوں۔ میرے جیسے طالبعلم کی دانست میں سماجی کلب میں الیکشن ہونے ہی نہیں چاہییں۔ سنجیدہ طریقہ سے کلب کی متحرک ممبران کواپنے میں سے بہترین صلاحیتوں والے لوگ سامنے کردینے چاہییں۔ ان سے کلب کی بہتری کے لیے بھرپوراستفادہ کرنا چاہیے۔ دوبار سے زیادہ کسی کوبھی کلب کی کسی کمیٹی کاممبرنہیں ہونا چاہیے۔ کلب یاکلب سے باہرممبران کے لیے کسی دعوت کا کوئی اہتمام نہیں ہونا چاہیے۔ اسلیے بھی کہ یہ عمل، دلوں میں کدورتوں کے بجائے، ایک دوسرے کوقریب لانے کا باعث بن پائے۔ مگریہ تو صرف ایک خواہش ہے اور زندگی خواہشات پرنہیں چلتی۔ اس برس الیکشن بالکل ہوں گے۔ میں اورمیرے جیسے اجنبی لوگ جمخانہ کلب سے ذہنی طورپرمزیددورہوجائیں گے!