بائیس کروڑانسانوں کی اکثریت اگرقوانین قدرت کو جوتوں کی نوک پررکھے، توپھرکوئی حکومت، کوئی لیڈر، کوئی دیدہ ورقائدکچھ نہیں کرسکتا۔ ملک میں حقیقت میں عملی طورپرہویہی رہاہے۔
بہترسال سے وہی عادات، وہی ماضی کے آدھے سچے قصے اورچندمکمل طورپرجھوٹی کہانیاں۔ اپنے آپ سے پوچھیے۔ اگر آپ بذاتِ خودوزیراعظم یاوزیراعلیٰ ہوں، تو کیا معاملات کوٹھیک کرسکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ قطعاً نہیں۔ صرف اس لیے کہ یہ انسانوں کاوہ ریوڑہے جوذاتی مفاد سے اوپر دیکھنے کی استطاعت سے محروم ہے۔ پھرکون سی ترقی، کونسا سفر، سب کچھ عبث ہے۔ اس بے جان خطے میں نہ کوئی اُصول تھااور نہ ہوگا۔ اس لیے خاموشی بہتر ہے۔ شائد قبرستان جیسی خاموشی۔
ایمانداری کولے لیجیے۔ بے ایمانی کے اس سمندرمیں کیاواقعی ایمانداری کی کوئی حقیقت ہے۔ شائدکبھی نہیں ہوگی۔ ہم میں ایمانداررہنے کی قوت ہی نہیں ہے۔ ایک پاکستانی پروفیسرسعودی عرب میں کام کررہے تھے۔ کنسلٹنسی کمپنی تھی۔ مالک سعودی عرب کے قوانین کے مطابق ایک جاہل سعودی تھا۔ پروفیسرصاحب مالک سے ازحدتنگ تھے۔ ویسے اب یہ پروفیسرصاحب، سیاسی جید رہنما کی ناک کے بال ہیں اور ماشاء اللہ سنیٹرہیں۔
یہ قصہ انھوں نے سنیٹر بننے سے کافی پہلے سنایاتھا۔ کیونکہ اب چارپانچ برس سے وہ سچ کے سواسب کچھ بولتے ہیں۔ پروفیسرصاحب نے ایک ترکیب نکالی۔ ایک گورے کوبلایاجوکمپنی ہی میں ملازم تھا۔ اسے سمجھایا کہ جب بھی سعودی فون کرے تم کہہ دیاکروکہ میں دفترسے باہر گیا ہوا ہوں۔ گوراکمپنی میں تین سال سے کام کررہا تھا۔ جواب دینے کے لیے ایک دن مانگا۔ چوبیس گھنٹے بعد پروفیسر کے کمرے میں داخل ہوا۔ داہنے ہاتھ میں کاغذ تھا۔ بڑے احترام سے پروفیسرکوکہاکہ یہ میرااستعفیٰ ہے۔
آپکے کہنے پرجھوٹ نہیں بول سکتا۔ آپ مجھے نوکری سے نکال دیجیے کیونکہ آپکاقانونی حق ہے۔ پروفیسرصاحب نے بڑی مشکل سے اپنی جان چھڑائی اورگورے کوکہاکہ اپناکام جاری رکھے۔ اسی دن، پروفیسر صاحب نے کمپنی میں ایک پاکستانی ملازم کو بلایااوراسے وہی کام کہاجوگورے کوکہاتھاکہ جب بھی سعودی مالک پوچھے، بتا دیناکہ میں دفترسے باہرہوں۔ پاکستانی کا جواب حددرجہ پاکستانی تھا۔
مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ سعودی کو ایساچکردونگاکہ اسے کبھی معلوم ہی نہیں ہوپائیگاکہ آپ دفتر میں موجودہیں یا نہیں ہیں۔ پروفیسر صاحب جو اب سنیٹر ہیں، نے یہ قصہ کوئی بیس افسروں کے درمیان سنایا۔ لب لباب یہ کہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت جھوٹ بولنے اوربے ایمانی پرقطعاً شرمندہ نہیں ہوتی۔ زندگی کے کسی شعبہ کودیکھ لیجیے۔ ہم ہر طرح کی بے اُصولی، بے ضابطگی کے چلتے پھرتے شہکار ہیں۔ اس رویے میں استثنا حددرجہ کم ہے۔
کوئی فلسفہ، کوئی داستان، کوئی قصہ گوئی نہیں کررہا۔ پوری دنیاپھرنے کے بعداس نتیجہ پرپہنچاہوں کہ ہمارے ذاتی اورقومی رویے، دنیا کے دیگرممالک سے حددرجہ متضاد ہیں۔ ایساکیوں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہم لوگ، ہجوم کی سطح سے اُٹھ کر"قوم"بننے میں ناکام رہے ہیں۔ اجتماعی بے ضابطگی نے ہمارے کردار کی تمام خصوصیات کو برباد کردیا ہے۔ نعروں اور جذباتیت کے صحرامیں دائروں میں گھوم رہے ہیں۔
اندازہ ہے کہ یہاں اعتدال کے ساتھ لکھنابھی حددرجہ مشکل ہے بلکہ اذیت ناک بھی۔ اس لیے کہ پھرآپ اکیلے، بلکہ بالکل تنہا رہ جاتے ہیں۔ میراسیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ووٹ کے تقدس کافلسفہ بھی سمجھ نہیں آتاکہ ایک سیاسی جماعت کروڑ، یاسواکروڑووٹ لے کربائیس کروڑ لوگوں پر حکومت کرنے کاحق کیسے حاصل کرلیتی ہے۔ اتنے کم ووٹ لے کر، وہ سیاسی رہنما، ملک کے وسائل کوجانوروں کی طرح کھانا، اپنا اولین حق سمجھتے ہیں۔
اگر ان کے طرزِ فکر سے انکار کریں، توآپ وطن فروش، غدار یا کافر تک بنائے جا سکتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی، موجودہ سیاسی حالات پرنظر دوڑانی پڑتی ہے۔ آج کل ہمارے کچھ لکھاری اور دانشور چند باتوں پربہت زوردے رہے ہیں۔ پہلی بات تویہ کہ موجودہ وزیراعظم کوسیاسی اعتبارسے کچھ بھی نہیں پتہ۔ اس کی ٹیم نے ملکی معیشت برباد کردی ہے۔ ہرطرف مہنگائی کاطوفان ہے۔
بیروزگاری عروج پرہے۔ ثابت یہ ہواکہ یہ حکومت نااہل ہے۔ لہٰذااسے نکال باہرکیاجائے۔ مگرپوراسچ مختلف ہے۔ صرف یہ عرض کروں گاکہ کیاگزشتہ تیس پنتیس برس میں دودھ اورشہدکی نہریں بہہ رہی تھیں کہ اب وہ دھارے خشک کردیے گئے ہیں۔ پرویزمشرف کے دورمیں بھی بیرونی امدادکی وجہ سے کافی اقتصادی استقامت تھی۔
مگروہ بھی صرف ایک بلبلہ نماترقی تھی۔ چھ سات برس کے بعد، حالات پہلے جیسے دگرگوں ہوگئے۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے مرکزی سطح پراپنی باریاں لیں۔ صوبائی سطح پرتوخیران کی بادشاہت ہمیشہ سے ہے۔ پیپلزپارٹی کے دورمیں ایک عجیب منصوبہ بندی سے اٹھارویں ترمیم منظورکروائی گئی۔ صوبوں کووہ اختیاردے دیے گئے جو انھوں نے خواب میں بھی نہیں مانگے تھے۔ مقصدصرف یہ کہ انھیں اندازہ تھاکہ اگلی مرکزی حکومت، کسی اورسیاسی جماعت کی ہوگی۔
لہٰذا، تمام "ترمال" صوبوں کے حوالے کردیا جائے۔ یہی ہوا۔ برملاہوا۔ اگرآج آپ اٹھارویں ترمیم کے نتائج کے متعلق کوئی غیرجانبداربات کریں تو پارلیمنٹ میں دھواں دھارتقاریرشروع ہوجائیں گی کہ آئین کاتقدس پامال کیاجا رہا ہے۔ وہاں، یہ کوئی کہنے کی جرات نہیں رکھتاکہ لوگوں کوبتائے کہ صوبے، اتنے زیادہ وسائل کودرست طریقے سے خرچنے کی استطاعت سے محروم ہیں۔
مگر اپنی نااہلی کوچھپانے کے لیے، صوبائی حکومتیں قیامت برپا کر دیں گی۔ سندھ کے صوبہ کواٹھارویں ترمیم کے بعدکتنے ہزار ارب ملے، کسی کوکچھ پتہ نہیں۔ مگرسوال ہے کہ کیاسندھ کے بڑے شہروں میں واقعی ترقی ہوپائی۔ سندھ ہائیکورٹ کے جج صاحبان لاڑکانہ کی بدحالی دیکھ کریہ کہنے پرمجبورہوگئے کہ ایک گھرتوڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔ سندھ مالی بے ضابطگیوں کاٹیسٹ کیس ہے۔ اسی ڈگرپرمعاملات بارہ سال سے چلائے جارہے ہیں۔ اس بدانتظامی پر تحقیق کرنے کے بعد، دنیاکی یونیورسٹیوں میں بے ضابطگی کے کیس اسٹڈی کے طور پر پڑھانا چاہیے۔
مگر صرف سندھ ہی کیا، سارے صوبوں میں ایک جیساحال تھا اور ہے۔ چند دانشور، محترم شہباز شریف کوایک عظیم قائدکے طور پر پیش کررہے ہیں۔ مگران کی دس برس کی حکومت پر غیر متعصب رائے قائم کی جائے تو وہاں سب کچھ تھا، مگرمیرٹ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ انھوں نے بنیادی طورپرسول سروس کو مخصوص دھڑوں میں تبدیل کر دیا۔ ایک مزاج کے وفادار سرکاری ملازموں کوتمام اختیارات دے کر ہر وہ کام کروایا جن میں کوئی ضابطہ یااُصول نہیں تھا۔
تنخواہوں کا ایک ایسانظام رائج کیا جس میں ایک افسربیس لاکھ ماہانہ تنخواہ لے رہا تھا اور دوسرا اسی گریڈ کا افسر دو لاکھ۔ سول سروس میں ہونے کی وجہ سے بہت سی ایسی چیزیں جانتا ہوں جواس وقت چنددانشوروں کو شائد حددرجہ بری لگیں۔ حکومتی شعبے میں اخلاقیات کاعمل دخل ہے اور رہے گا۔
ذاتی اخلاقیات کی جس طرح نفی کی گئی، اس کی مثال پاکستان میں پہلے تونہیں ملتی۔ اس سے آگے کچھ نہیں لکھنا چاہتا۔ کیونکہ دوسروں کی ذاتیات میں جانا مناسب رویہ نہیں۔ دس سال پہلے پنجاب کا بجٹ، وسائل سے کم تھا۔ یعنی وسائل زائد تھے۔
مگران دس سالوں میں پورے پنجاب کے وسائل کس بے دردی سے صرف لاہورتک محدودکردیے گئے، یہ بھی ایک المیہ سے کم نہیں۔ پنجاب کاایک ایک بال آج قرض میں بندھا ہوا ہے۔ سوال ہے کہ آخرکیوں۔ صرف اس لیے کہ لوگوں کومصنوعی تاثردینا تھاکہ حددرجہ رفتارسے ترقی ہورہی ہے۔ کرپشن آج بھی عروج پرہے اورپہلے بھی۔ ڈیوڈ روز نے محترم شہبازشریف کی جن جائیدادوں کایوکے میں ذکرکیا ہے۔ دومہینے گزرنے کے بعد، بھی اس صحافی اور اخبار کے خلاف کسی عدالت میں مقدمہ نہیں کیا گیا۔ شفافیت، برق رفتاری والی باتیں برطانوی عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کی جا رہیں۔ خیراس دس سالہ حکومت نے ہمارے صوبے کو قلاش کر ڈالاہے۔ تفصیلی بات، پھرکبھی سہی۔
بلوچستان اورکے پی میں بھی صوبائی حکومتیں حددرجہ غیرذمے داری سے کام کرتی رہیں۔ وہاں کے مقامی افسروں اور عمائدین سے بات کریں توہولناک کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ محترم پرویز خٹک کادورکسی طریقے سے بھی مثالی نہیں تھا۔ پنجاب کی نقل کرتے ہوئے میٹروبس سروس بناتے ہوئے، پورے پشاورکوخراب کرکے رکھ دیااورآج بھی وہی صورتحال ہے۔
بلوچستان تو، خیرکیاذکرکیاجائے۔ وہاں تو سرکاری پیسوں کو عوام پرلگانے کارواج ہی نہیں ہے۔ سابق وزیراعلیٰ کے ملازم کے گھرسے "سونے کی سلاخیں " برآمد ہوں یا سیکریٹری فنانس کے گھرسے کروڑوں روپے کی برآمدگی۔ بلوچستان میں جتنے سرکاری وسائل فراہم کیے گئے، اس میں سے کتنے واقعی عوام پرلگے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے اوررہے گا۔ مگر کوئی بات نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ اگرہم وہاں قانون کی حکمرانی کی بات کریں گے تو بغاوت بڑھ جائے گی۔ کس کس بات کا رونا رویا جائے۔
موجودہ سیاسی صورتحال پرہرروزگفتگوہوتی ہے۔ بلکہ ضرورت سے زیادہ ہورہی ہے۔ یہ درست بات ہے کہ عمران خان سے جن توقعات کووابستہ کیاگیا تھا وہ بالکل پوری نہیں ہوسکیں۔ لوگوں میں بے چینی ہے، غم ہے، غصہ ہے۔ عمران خان کی ٹیم کے چند"غیرسنجیدہ"افراد، اس غصہ کو ہوا دے رہے ہیں۔ کیایہ ٹیم کے ممبر، اپنے وزیراعظم کے خلاف سازش کررہے ہیں۔
اس پرقطعاً کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مگرایک بات طے ہے۔ وزیراعظم، دانا لوگوں سے حددرجہ دور ہوچکے ہیں۔ مگرعمران خان ہی کیا، ہروزیراعظم ایساہی ہوتا ہے۔ اپنے آپ کوخدائی اوتار اور عقلِ کُل سمجھنے والا۔ ہر وزیراعظم کوایسے درباری مل جاتے ہیں جویقین دلوادیتے ہیں کہ آپ ہی عقل کُل ہیں۔ دانائی کے تمام دھارے آپ ہی کی ذات سے پھوٹتے ہیں۔
آپ اس ملک کے مسیحا ہیں۔ یہ صرف ایک وزیراعظم کانوحہ نہیں، یہ ہماری سیاسی تاریخ کے ہرسورماکی کہانی ہے اورسب کاانجام بھی ایک جیسا ہے۔ دوبارہ عرض کروں گا۔ اگربائیس کروڑلوگ کسی اُصول اور قانون کواپنے اوپرلاگوکرنا"گناہ کبیرہ"سمجھتے ہیں۔ تو پھر کسی فرشتہ کوبھی حاکم بنادیجیے۔ حالات جوں کے توں رہیں گے۔ نہیں بلکہ، مزید بگڑ جائیں گے۔